48۔ 1 یعنی وسائل رزق کی فروانی، صحت و عافیت، اولاد کی کثرت، جاہ و منصب وغیرہ۔ 48۔ 2 یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر نہ کہ فخر و ریا اور تکبر کے طور پر۔ 48۔ 3 مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔
[٦٨] ] یعنی ہم نے آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ انہیں راہ راست پر لاکے چھوڑو۔ نہ ہی آپ سے ایسی باز پرس ہوگی۔- [٦٩] ایک دنیا دار انسان کسی حال میں بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا :۔ دراصل ایسی آیات کے مخاطب قریش مکہ ہی تھے۔ لیکن قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ مخاطب کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے براہ راست انہیں مخاطب نہیں کرتا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اور نہ چڑ جائیں۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں ایک عام دنیادار انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب اس پر بھلے دن آتے ہیں تو اترانے لگتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اور جب برے دن آتے ہیں اور یہ برے دن بھی ان کی اپنی شامت اعمال سے آتے ہیں تو اس وقت وہ اپنے پروردگار کو کو سنے لگتا ہے اور اللہ کے ان سارے انعامات کو بھول جاتا ہے جو اس نے اسے خوشحالی کے دور میں عطا کئے ہوئے تھے اس طرح نہ خوشحالی اس کی اصلاح میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی بدحالی اسے راہ راست پر لاسکتی ہے کسی حال میں بھی ان کی طبیعت اللہ کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔
(١) فان اعرضوا فما ارسلنک علیھم حفیظاً : پچھلی آیت میں کفار کو مخاطب کر کے فرمایا تھا ہ قیامت کے دن سے پہلے جلد از جلد اپنے رب کی دعوت قبول کرلو، اب ان کے کفر پر اصرار کی صورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخطاب کر کے فرمایا کہ اگر یہ آپ کی دعوت سے منہ موڑیں تو ہم نے آپ کو ان کا نگران اور ذمہ دار نہیں بنایا کہ ہر حال میں انھیں منوا کر چھوڑیں اور نہ آپ سے اس بات کی باز پرس ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے۔- (٢) ان علیک الا ابلغ : آپ کا کام صرف پہنچا دینا ہے (جو آپ سر انجام دے چکے ہیں۔ ) ان الفاظ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے سند موجود ہے کہ آپ نے پیغام واقعی پہنچا دیا ہے اور آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوچکے ہیں۔- (٣) وانا اذا اذقنا الانسان منا رحمتہ فرح بھا : اس آیت میں آپ کو تسلی دلائی ہے کہ ان کفار کا صرف آپ کے ساتھ یہ سلوک نہیں بلکہ ان کا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں خواہ کتنی بڑی ہوں آخرت کے مقابلے میں چکھنے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ پھر ” رحمتہ “ پر تنوین بھی تنکیر اور تقلیل کے لئے ہے۔ فرمایا، انسان ایسا کم ظرف ہے کہ جب ہم اسے تھوڑی سی رحمت چکھا بھی دیتے ہیں تو یہ پھول جاتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتا ہے، ہمیں بھول کر اپنے آپ ہی کو سب کچھ لیتا ہے۔ یہاں نعمت چکھانے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے، کیونکہ نعمت صرف اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، کسی کے استحقاق کی وجہ سے اسے نہیں ملتی اور لفظ ” اذا “ (جب) استعمال فرمایا، کیونکہ دنیا میں رحمت ہر انسان کو ملتی ہے۔ - (٤) وان تصبھم سیئۃ بما قدمت ایدیھم : اور اگر انھیں ان کے اپنے اعمال کے نتیجے میں کوئی برائی یا مصیبت آپہنچے تو یقینا انسان بہت ناشکرا ہے، پھر اسے ہماری کوئی نعمت یاد نہیں رہتی، بلکہ اس ایک مصیبت کی وجہ سے ہماری تمام نعمتوں کا صاف انکار کردیتا ہے۔ جس طرح خاوند ساری عمر بیوی پر احسان کرے، پھر اس سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو کہتی ہے :(مارایت منک خیرا قط) (بخاری، الایمان، باب کفران العشیر و کفر دون کفر :29) ” میں نے تم سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔ “ یہاں برائی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں فرمائی، حالانکہ سبھی کچھ اللہ کی طرف سے ہے، کیونکہ اس کا باعث ان کے اعمال بد بنتے ہیں اور ” ان “ (اگر) کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں مصیبت پہنچنے یا نہ پہنچنے دونوں کا امکان ہے، کیونکہ رحمت کے مقابلے میں انسان پر آنے والی مصیبتیں بہت کم ہیں۔- (٥) اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے آپ کی دعوت سے اعراض سے بھی بڑی بات کے ارتکاب کا ذکر کر کے عمل دلائی ہے کہ جن کا مالک کے ساتھ یہ حال ہے وہ آپ سے کیا کچھ نہیں کریں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر یہود کے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سلوک کا ذکر کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلائی ہے۔ دیکھیے سورة نسائ (١٥٣) ۔- (٦) یہاں ” الانسان “ سے بعض مفسرین نے کافر انسان مرادلیا ہے، کیونکہ مومن ایسا نہیں ہوتا اور بعض نے فرمایا، مطلب یہ ہے ہ انسان پیدائشی طور پر ایسا ہی ہے، مگر ایمان اور عمل صالح میں یج سے جیسے ترقی ہوتی ہے آدمی اس خصلت سے چھٹکارا حاصل کرتا جاتا ہے، ایمان کے کمال کے ساتھ وہ پوری طرح اس سے پاک ہوجاتا ہے اور مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر اس کی طبیعت بن جاتے ہیں، جو دونوں اس کے حق میں خیر ہی ہوتے ہیں، مگر کافر کا حال وہی رہتا ہے۔ اسی طرح کمزور ایمان کی حالت میں بھی اس بدخصلت کا اثر بای رہتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان الانسان خلق ھلوعا ً اذا منہ الشر جزوعا واذا مسہ الخیر منوعا الا المصلین …اولئک فی جنت مکرمون) (المعارج :19 تا 35) ” بیشک انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے خیر پہنچتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے … یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔ “ یہ دوسرا قول بہتر معلوم ہوتا ہے۔
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا ٠ ۭ اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰــغُ ٠ ۭ وَاِنَّآ اِذَآ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً فَرِحَ بِہَا ٠ ۚ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ فَاِنَّ الْاِنْسَانَ كَفُوْرٌ ٤٨- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- بَلَاغ : التبلیغ،- نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] ، وقوله عزّ وجلّ :- بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] . والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] ، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة 67] ، أي : إن لم تبلّغ هذا أو شيئا مما حمّلت تکن في حکم من لم يبلّغ شيئا من رسالته، وذلک أنّ حکم الأنبیاء وتکليفاتهم أشدّ ، ولیس حكمهم كحكم سائر الناس الذین يتجافی عنهم إذا خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا، وأمّا قوله عزّ وجلّ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، فللمشارفة، فإنها إذا انتهت إلى أقصی الأجل لا يصح للزوج مراجعتها وإمساکها .- ويقال : بَلَّغْتُهُ الخبر وأَبْلَغْتُهُ مثله، وبلّغته أكثر، قال تعالی: أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف 62] ، وقال : يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة 67] ، وقال عزّ وجلّ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود 57] ، وقال تعالی: بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وفي موضع : وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم 8] ، وذلک نحو : أدركني الجهد وأدركت - البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة 67] اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچا یا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لئے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور برے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور نہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] پھر جب وہ اپنی میعاد ( یعنی انقضائے عدت ) کو پہنچ جائیں تو ان کو ( زوجیت میں ) رہنے دو ۔ میں بلوغ اجل سے عدت طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جا نامراد ہے ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لئے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے ۔ بلغتہ الخبر وابلغتہ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بلغت ( نفعیل ) زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف 62] تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة 67] اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود 57] 1. اگر تم رو گردانی کردگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ می نے تمہیں پہنچا دیا ہے ۔ 2. اور قرآن پاک میں ایک مقام پر : بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] 3. کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کبر کی طرف کی گئی ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ۔ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم 8] 4. اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔ ہے یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے اور یہ ادرکنی الجھد وادرکت الجھد کے مثل دونوں طرح جائز ہے مگر بلغنی المکان یا ادرکنی کہنا غلط ہے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔
پھر بھی اگر یہ لوگ ایمان سے منہ پھیریں تو آپ کو ان کا محافظ کر کے نہیں بھیجا گیا ہے آپ کے ذمہ تو صرف احکام خداوندی کا پہنچا دینا ہے۔- اب اللہ تعالیٰ قتال کا حکم دیتا ہے کہ جب ہم کافر کو اپنی عنایت کا کچھ مزہ چکھا دیتے ہیں تو ناشکرا بن کر اس پر خوش ہونے لگتا ہے اور اگر ان کو ان کے اعمال شرکیہ کی وجہ سے فقرو فاقہ اور سختیوں میں گرفتار کردیتے ہیں تو ایسا آدمی یعنی ابو جہل اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کرنے لگتا ہے۔
آیت ٤٨ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا ” پھر اگر یہ لوگ اعراض کریں تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ کو ان پر کوئی داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ “- یعنی اگر یہ لوگ اب بھی اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کمربستہ نہ ہوں تو ان کی اس کوتاہی کی ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں ہوگی۔- اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلٰغُ ” نہیں ہے آپ پر کوئی ذمہ داری مگر صاف صاف پہنچا دینے کی۔ “- وَاِنَّآ اِذَا اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً فَرِحَ بِہَا ” اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا کوئی مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر اتراتا ہے۔ “- وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌم بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَاِنَّ الْاِنْسَانَ کَفُوْرٌ ” اور اگر ان پر آپڑے کوئی برائی ان کے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کی بدولت تو انسان بالکل نا شکرا بن جاتا ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :74 یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لاکے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آئے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :75 انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے ۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں ، اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے ۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مددگار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے ۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے ۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے ، بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے ۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے ، تاکہ وہ چڑ نہ جائے ، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔