آسانی میں شکر تنگی میں صبر مومنوں کی صفت ہے چونکہ اوپر یہ ذکر تھا کہ قیامت کے دن بڑے ہیبت ناک واقعات ہوں گے وہ سخت مصیبت کا دن ہو گا تو اب یہاں اس سے ڈرا رہا ہے اور اس دن کے لئے تیار رہنے کو فرماتا ہے کہ اس اچانک آجانے والے دن سے پہلے ہی پہلے اللہ کے فرمان پر پوری طرح عمل کر لو جب وہ دن آجائے تو تمہیں نہ تو کوئی جائے پناہ ملے گی نہ ایسی جگہ کہ وہاں انجان بن کر ایسے چھپ جاؤ کہ پہچانے نہ جاؤ اور نہ نظر پڑے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ مشرک نہ مانیں تو آپ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے انہیں ہدایت پر لاکھڑا کر دینا آپ کے ذمے نہیں یہ کام اللہ کا ہے ۔ آپ پر صرف تبلیغ ہے حساب ہم خود لے لیں گے انسان کی حالت یہ ہے کہ راحت میں بدمست بن جاتا ہے اور تکلیف میں ناشکرا پن کرتا ہے اس وقت اگلی نعمتوں کا بھی منکر بن جاتا ہے حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا صدقہ کرو میں نے تمہیں زیادہ تعداد میں جہنم میں دیکھا ہے کسی عورت نے پوچھا یہ کس وجہ سے ؟ آپ نے فرمایا تمہاری شکایت کی زیادتی اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کی وجہ سے اگر تو ان میں سے کوئی تمہارے ساتھ ایک زمانے تک احسان کرتا رہے پھر ایک دن چھوڑ دے تو تم کہہ دو گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی راحت پائی ہی نہیں ۔ فی الواقع اکثر عورتوں کا یہی حال ہے لیکن جس پر اللہ رحم کرے اور نیکی کی توفیق دے دے ۔ اور حقیقی ایمان نصیب فرمائے پھر تو اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ ہر راحت پہ شکر ہر رنج پر صبر پس ہر حال میں نیکی حاصل ہوتی ہے اور یہ وصف بجز مومن کے کسی اور میں نہیں ہوتا ۔
47۔ 1 یعنی جس کو روکنے اور ٹالنے کی کوئی طاقت نہیں رکھے گا۔ 47۔ 2 یعنی تمہارے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی، کہ جس میں تم چھپ کر انجان بن جاؤ اور پہنچانے نہ جاسکو یا نظر میں نہ آسکو جیسے فرمایا اس دن انسان کہے گا، کہیں بھاگنے کی جگہ ہے، ہرگز نہیں، کوئی راہ فرار نہیں ہوگی، اس دن تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہوگا۔
[٦٦] یعنی دنیا میں ان سے عذاب ٹلتا رہا اور انہیں مہلت دی جاتی رہی۔ مگر اس دن ایسی کوئی صورت نہ ہوگی اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو عذاب اللہ نے ان کے لیے مقرر کردیا ہے کسی میں ہمت نہ ہوگی کہ وہ اسے ان سے ٹال سکے۔- [٦٧] نکیر کے مختلف مفہوم :۔ نکیر کا مادہ نکر ہے اور اس میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ (١) اجنبیت، (٢) ناگواری (نکرہ کی ضد معرفہ ہے) نکر بمعنی ناگوار۔ نازیبا اور نامعقول چیز اور نکیر کے معنی ناگوار، نازیبا، نامعقول چیز بھی اور ایسی چیز کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھانا یا ناراضگی کا اظہار کرنا بھی اور نکر کے معنی کسی چیز کو بگاڑ دینا اور اس کی شکل بدل دینا بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی معنی بن سکتے ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ تم اجنبی نہیں ہوگے سب تمہیں جانتے پہچانتے ہوں گے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ بھیس بدل کر چھپ نہ سکو گے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ اس دن تم جیسی بھی حالت میں ہوگے اس میں کوئی تبدیلی نہ لاسکو گے۔
(١) استجیبوا لربکم من قبل …:” مرد “” رد یردر داً “ (ن) سے مصدر میمی بھی ہوسکتا ہے۔ ظرف زمان بھی اور ظرف مجکان بھی، ہاٹنے یا ٹالنے کی کوئی صورت یا کوئی وقت یا کوئی جگہ۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی دعوت کو جلد از جلد قبول کرنے کی تاکید کئی طرح سے فرمائی ہے۔ سب سے پہلے ” اجیبوا “ کے بجائے ” استجیبوا “ کے لفظ کے ساتھ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٣٨) کی تفسیر۔ پھر اپنی ربوبیت کے احسان کی یاد دہانی کے ساتھ اور آخر میں اس دن سے ڈرانے کے ساتھ جس کے آنے کے بعد نہ اس کے ٹالے جانے کی کوئی صورت ہے، نہ وہ کسی وقت ٹالا جاسکے گا اور نہ کسی مقام پر ٹلے گا۔ - (٢) لا مرد لہ من اللہ : اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اس کے آنے کے بعد اللہ کی طرف سے اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اسے کسی صورت نہیں ہٹائے گا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے آنے کے بعد کوئی ایسی ہستی نہیں جو اسے ہٹا سکے۔- (٣) ومالکم من نکیر : ” نکیر “ مصدر ہو تو اس کا معنی انکار بھی ہے اور نکرہ (اجنبی اور بےپہچان) ہونا بھی اور اگر ” قعیل “ بمعنی اسم فاعل ہو یعنی ” منکر “ تو معنی ” بدلنے والا “ ہوگا ۔ یعنی قیامت کے دن تم اپنے جرائم کا کسی طرح انکار نہیں کرسکو گے، بلکہ نامہ اعمال اور فرشتوں کی شہادتوں حتیٰ کہ اپنے اعضا کی گواہی کی وجہ سے تمہارے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔” مالکم من نکیر “ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تمہیں جو سزا دی جائے گی تم اس پر کوئی احتجاج نہیں کرسکو گے، نہ کوئی انکار کہ ہم یہ سزا قبول نہیں کرتے، نہ ہی تم یا کوئی اور اس حالت کو بدلنے والا ہوگا جس میں تم مبتلا ہوگے اور یہ بھی نہیں ہوگا کہ تمہاری پہچان نہ ہو سکے اور تم اجنبی اور غیر معروف بن کر چھوٹ جاؤ یا بھیس بدل کر چھپ جاؤ۔
اِسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللہِ ٠ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ ٤٧- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- لسان العرب سے هے - والمَلْجَأُ واللَّجَأُ : المَعْقِلُ ، وَالْجَمْعُ أَلْجاءٌ. ويقالُ : أَلْجَأْتُ فُلَانًا إِلَى الشیءِ إِذَا حَصَّنْته فِي مَلْجإٍ ، ولَجَإٍ ، والْتَجَأْتُ إِلَيْهِ الْتِجاءً. ابْنُ شُمَيْلٍ : التَّلْجِئةُ أَن يَجْعَلَ مالَه لبَعض ورَثته دُونَ بَعْضٍ ، كأَنه يتصدَّق بِهِ عَلَيْهِ ، وَهُوَ وَارِثُهُ.- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
قیامت کا دن آنے سے پہلے جس میں عذاب الہی ہٹایا نہیں جائے گا تم اپنے پروردگار کا توحید کے بارے میں حکم مانور اور اس روز تمہیں عذاب خداوندی سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ملے گی اور نہ تمہارا کوئی مددگار ہوگا۔
آیت ٤٧ اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ” (اے اہل ِایمان ) اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو ‘ اس سے پہلے کہ اللہ کے حکم سے وہ دن آجائے جسے لوٹایا نہ جاسکے گا۔ “- یہ اسی ” استجابت “ کا ذکر ہے جس کے بارے میں قبل ازیں ہم آیت ٣٨ میں پڑھ چکے ہیں۔ وہاں یہ ذکر اصحابِ عزیمت کی مدح کے طور پر آیا تھا ‘ لیکن یہاں اب اس کے لیے ترغیب و تشویق کا انداز ہے کہ اے لوگو اب جبکہ تم نے یہ تمام احکام پڑھ لیے ہیں ‘ غلبہ دین کے حوالے سے تم نے اپنے فرائض کو سمجھ لیا ہے ‘ اس ضمن میں اپنے رب کی مرضی و منشا بھی تمہیں معلوم ہوچکی ہے ‘ تو اب آئو آگے بڑھو اور اپنے رب کی پکار پر فوراً لبیک کہو - دراصل تم میں سے ہر کسی نے اپنی اپنی زندگی کے لیے بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ چناچہ اگر کسی کو اپنے اس ” فرض “ کی ادائیگی کا احساس ہو بھی جاتا ہے تو بھی اس کا دل انہی منصوبوں میں اٹکا رہتا ہے کہ بس میں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچا لوں ‘ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو لوں وہ فرض نبھا لوں ‘ تو خو دکودین کے لیے وقف کر دوں گا۔ مگر تم خوب جانتے ہو کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ‘ یہ کسی وقت بھی آسکتی ہے۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ موت تمہارے سامنے آن کھڑی ہو ‘ تم اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط کے حکم پر کان دھرو اور اپنے رب کی اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے دوسروں کے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھو اور اپنی مدت مہلت ختم ہونے سے پہلے پہلے کرنے کا یہ اصل کام کرلو - مَالَـکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَئِذٍ وَّمَا لَـکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ ” نہیں ہوگی تمہارے لیے اس دن کوئی جائے پناہ اور نہیں ہوگا تمہارے لیے کوئی موقع انکار۔ “- یعنی تم اپنے کرتوتوں میں سے کسی کا انکار نہیں کرسکو گے۔ ان الفاظ کا یہ مفہوم بھی ہے کہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کیا جائے گا تم اس پر نہ تو کوئی احتجاج کرسکو گے اور نہ ہی اپنی حالت کو تبدیل کرنا تمہارے بس میں ہوگا۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :72 یعنی نہ اللہ خود اسے ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں یہ طاقت ہے کہ ٹال سکے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :73 اصل الفاظ ہیں : مَا لَکُمْ مِنْ نَّکِیْرٍ ۔ اس فقرے کے کئی مفہوم اور بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ تم اپنے کرتوتوں میں سے کسی کا انکار نہ کر سکو گے ۔ دوسرے یہ کہ تم بھیس بدل کر کہیں چھپ نہ سکو گے ۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کا تم کوئی احتجاج اور اظہار ناراضی نہ کر سکو گے ۔ چوتھے یہ کہ تمہارے بس میں نہ ہو گا کہ جس حالت میں تم مبتلا کیے گئے ہو اسے بدل سکو ۔
9: یعنی کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھ سکے کہ اس شخص کو یہ سزا کیوں دی گئی ہے، کیونکہ تمام انسانوں پر حجت پہلے ہی تمام ہوچکی ہوگی۔