Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اللہ کی عظمت و جلال کی وجہ سے۔ 5۔ 2 یہ مضمون سورة مومن کی (اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ ) 40 ۔ غافر :7) میں بھی بیان ہوا ہے۔ 5۔ 3 اپنے دوستوں اور اہل اطاعت کے لئے یا تمام ہی بندوں کے لئے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اس کی رحمت و مغفرت ہی کی قسم سے ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اگر کوئی اور الٰہ ہوتا تو آسمان پھٹ پڑتا اور نظام تباہ ہوجاتا : مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس طرح وہ اللہ کی دوہری توہین کے مرتکب ہوتے تھے ایک اولاد قرار دینا یا نسبی رشتہ قائم کرنا اور دوسرے اللہ کے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں تجویز کرنا۔ اور بیٹا مملوک نہیں بلکہ ہمسر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کائنات کا خالق اگر ایک کی بجائے دو بھی ہوتے تو یہ نظام کائنات درہم برہم ہوجاتا پھر ان لوگوں نے تو اللہ کے کئی نسبی رشتہ دار بنا ڈالے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق تو آسمانوں کو کب کا پھٹ پڑنا چاہئے تھا۔ لیکن تدبیر امور کائنات پر مامور فرشتے ایسی باتوں سے اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے اور اس کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں۔ پھر وہ اہل زمین کے ایسے گندے خیالات پر ان کے لیے بخشش کی دعا بھی کرتے رہتے ہیں۔ پھر اللہ ان کی دعا قبول کرتا اور ایسے مجرموں سے درگزر کئے جاتا ہے۔ ورنہ ان کے اعمال تو ایسے ہیں کہ ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا کر انہیں فوراً ہلاک کردیا جاتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) تکاد السموت یتفطرن من فوقھن :” وھو العلی العظیم “ کے بعد یہ فرمانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آسمان قریب ہیں کہ اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے علی و عظیم ہونے کی وجہ سے اس کے رعب اور لجال کا یہ عالم ہے کہ آسمان اس کی ہیبت و قوت بردشات نہ کرتے ہوئے پھٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت وہیبت کا آسمانوں پر جو اثر ہے اس کا کچھ اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے جو ابو ذر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی اری ما لا ترون واسمع ما لا تسمعون اطب السمآء و حق لھا ان تئط ما فیھا موضع اربع اضابع الا وملک واضح جبھنہ ساجد اللہ، واللہ لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلاً ولیکیتم کثیراً وما تلدذتم بالنساء علی الفرش ولخرجنم الی اصعدات تج اور ن الی اللہ) (ترمذی، الزھد، باب فی قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لو تعلمون… 2312 وحسبنہ الترمذی و قال البانی حسن)” میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے، اس میں چار انگلیوں کی جگہ نہیں مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھ کر اللہ کے لئے سجدے میں ہے۔ اللہ کی قسمچ اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ روؤ، اور تم بستروں پر عورتوں سے لذت حاصل نہ کرو اور تم اللہ کی طرف گڑ گڑاتے ہوئے بیابانوں کی طرف نکل جاؤ۔ “ اور ایک مطلب یہ ہے کہ اس عزیز و حکیم اور علی و عظیم مالک کی نازل کردہ کتاب پر ایمان لانے اور اس اکیلے کی عبادت کے بجائے کسی مخلوق کو جس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، مشکل کشا، حاجت روا، داتا، دستگیر، غریب نواز، بگڑی بنانے والا اور ڈوبتے ہوئے کو پار لگانے والا مان لینا، یا اسے اللہ تعالیٰ کی بیوی یا بیٹا یا اس کے ذاتی نور کا ٹکڑا قرار دے کر اس کی عبادت اور اس سے مانگنا شروع کردینا کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ اتنی خوفناک بات ہے کہ قریب ہے یہ بات کہنے پر آسمان اپنے اوپر سے گرپڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گرپڑیں۔ سورة مریم کی آیات (٨٨ تا ٩٥) میں یہ بات تفصیل سے بیان ہوئی ہے، وہ آیات مع تفسیر ملاحظہ فرما لیں۔- (٢) من فوقھن : آسمانوں کے انپے اوپر سے پھٹنے کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ یہ آسمان اپنے اوپر کی جانب سے پھٹ جائیں۔ چناچہ سب سے اوپر والا آسمان پھٹ کر نیچے والے آسمان پر گرے، وہ اس سے نچلے پر گرے، اس طرح تمام آسمان پھٹیں اور نیچے والوں کے اوپر گرجائیں۔ آسمانوں کے اپنے اوپر سے پھٹنے کی وجہ وہاں بیشمار فرشتوں کا سجدہ ریز ہونا اور عرش الٰہی کے قریب ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی ہیبت کے آثار کا بہت زیادہ ہونا ہے۔- (٣) والملئکۃ یسبحون بحمد ربھم : تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کو ہر عیب اور ہر کمی سے پاک قرار دینا اور حمد سے مراد اسے ہر خوبی کا مالک قرار دینا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی توحید ہے اور اس کی طرف منسوب کئے جانے والے تمام عیوب میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ کوئی اس کا شریک ہے یا اس کی اولاد بیوی ہے۔ سب سے بڑا عیب اس لئے کہ یہ مان لینے کی صورت میں اس کا محتاج اور عاجز ہونا ثابت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے لئے گالی قرار دیا۔ فرشتے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی صفات جمال و جلال اور صفات کمال کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔- (٤) ویستغفرون لمن فی الارض : اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ ” لمن فی الارض “ سے مراد مومن ہیں اور فرشتے زمین والوں میں سے صرف ایمان والوں کے لئے استغفار کرت ہیں، کیونکہ دوسری جگہ فرمایا :(الذین یحملون العرش ومن حولہ یسبحون بحمد ربھم و یومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا، ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما فاغفر للذین تابوا و اتبعوا سبیلک وقھم عذاب الجحیم) (المومن : ٨)” وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے اردگرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے، اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا۔ “ مگر بعض مفسرین نے فرمایا :” آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ (فرشتے ان لوگوں کے لئے استغفار کرتے ہیں جو زمین میں ہیں) اس میں مومن و کافر دونوں شامل ہیں اور فرشتوں کے مسلم و کافر سب کے لئے استغفار کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام زمین والوں کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں، خواہ مومن ہوں یا کافر کہ اے اللہ ان کے لئے ایسے اسباب مہیا فرما جن کی بدولت ان سے عذاب ٹلے، کافر ہیں تو ایمان لائیں، فاسق ہیں تو توبہ کریں، تاکہ ان کی بخشش ہوجائے۔ “ قرطبی نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے۔- اس تفسیر پر ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایمان کو مشرکین کے لئے استغفار سے منع فرمایا ہے، آپ استغافر کا کوئی بھی معنی کرلیں فرشتوں کا کفار و مشرکین کے لئے استغافر ممکن ہی نہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے کسی حکم کی نافرمانی کرتے ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا :(لایعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یومرون) (التحریم : ٦)” وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیئے جاتے ہیں۔ “ اس سوال کا جواب اسی آیت میں موجود ہے جس میں مشرکین کے لئے استغفار سے منع کیا گیا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ماتبین لھم نھم اصحب الجحیم) (التوبۃ : ١١٣)” اس نبی اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی داع کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لئے صاف ظاہر ہوگا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ “ معلوم ہوا مشرکین کے لئے استغفار اس وقت منع ہے جب ان کا جہنمی ہونا واضح اور یقینی ہوجائے اور ظاہر ہے کہ کسی کے جہنمی ہونے کا یقین اس کے کفر پر مرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ جب تک کوئی زندہ ہے کسی وقت بھی اسے ایمان کی توفیق عطا ہوسکتی ہے اور یہ علم کہ کس نے کفر پر مرنا ہے کسی انسان، جن یا فرشتے کو نہیں، اس لئے کفار کے لئے ہدایت کی دعا کرنا، جس سے ان کی بخشش ہوجائے، جائز بلکہ سنت ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو دسوی (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے :” یا رسول اللہ چ دوس قبیلے نے نافرمانی کی ہے اور ایمان لانے سے اناکر کردیا ہے، آپ ان پر بد دعا کریں۔ “ لوگوں نے کہا : ”’ وس قبیلہ ہلاک ہوگیا ۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اللھم اھد دوساً وائت بھم) (بخاری، الجھاد، باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتالفھم :2938)” اے اللہ دوس قبیلے کو ہدایت دے اور انھیں لے آ۔ “- (٥) اس آیت سے فرشتوں کی صاف دلی اور زمین والوں کے لئے خیر خواہی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھی انسانوں کے باپ کو سجدے کے حکم سے انکار پر ابلیس معلون ٹھہرا تھا، جب کہ اللہ کے حکم سے فرشتوں نے سجدہ بھی کیا اور ان کے حق میں دعائیں بھی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ (وہ متکبر تھا ملعون ٹھہرا، یہ متواضع تھے مقرب ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی ہی صاف دلی عطا فرمائے اور ہماری طرف سے فرشتوں کو بہتر بد لا عطا فرمائے۔ (آمین)- (٦) الا ان اللہ ھو الغفور الرحیم : خبر ” الغفور الرحیم “ پر الف لام اور ضمیر فصل ” ھو “ سے قصر کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے،” سن لو بیشک اللہ تعالیٰ ہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “ یعنی کسی اور میں یہ صفات نہیں ہیں۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ بخشنے والا اور رحم کرنے اولا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اگر یہ بات فرشتوں کے اختیار میں ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی درخواست کیوں کرتے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - يَتَفَطَّرْنَ ۔ اس میں بحوال حدیث اوپر بیان ہوا ہے کہ فرشتوں کے بوجھ سے آسمان میں ایسی آواز پیدا ہوئی جیسی کسی چیز پر بڑا بھاری بوجھ رکھ دینے سے ہوا کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں میں ثقل والا بوجھ ہے۔ اور اس میں کوئی استبعاد نہیں۔ کیونکہ یہ بات تو مسلم ہے کہ فرشتے بھی اجسام ہیں اگرچہ اجسام لطیفہ ہوں۔ اور اجسام لطیفہ جب بہت بڑی تعداد میں ہوجائیں تو ان کا بوجھ پڑنا کوئی مستبعد نہیں۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّ اللہَ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝ ٥- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا،- وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] - ( ف ط ر ) الفطر - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کچھ بعید نہیں کہ آسمان اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے یا یہ کہ یہودیوں کی باتوں سے ایک دوسرے کے اوپر سے پھٹ پڑیں اور آسمانوں میں فرشتے اپنے رب کی تسبیح و تمہید کرتے رہتے ہیں اور جو زمین پر بااخلاص مومن ہیں ان کے لیے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور اس حالت پر مرنے والے پر رحمت کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِہِنَّ ” قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں “- آسمان فرشتوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ اتنے بڑے اجتماع کی وجہ سے آسمان پھٹنے کے قریب ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں کوئی ایک بالشت برابر بھی جگہ خالی نہیں کہ جہاں کوئی فرشتہ سربسجود نہ ہو یا قیام میں مصروف نہ ہو۔ سورة المدثر (آیت ٣١) میں فرشتوں کی کثرت تعداد سے متعلق ان الفاظ میں اشارہ فرمایا گیا ہے : وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَط کہ آپ کے رب کے لشکروں کے بارے میں سوائے خود اس کے اور کوئی نہیں جانتا۔- وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ ” اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور زمین میں جو (اہل ایمان) ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “- سورة المومن آیت ٧ میں بھی ہم پڑھ آئے ہیں کہ حاملین عرش اور ان کے ساتھی فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اہل ایمان کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔- اَلَآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ” آگاہ ہو جائو یقینا اللہ ہی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :3 یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا ۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس ٹھہرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں ، کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے ۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے ۔ ( یہی مضمون سورہ مریم ، آیات 88 ۔ 91 میں بھی ارشاد ہوا ہے ) سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے ، اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ، سبحان اللہ ، کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے ، اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے ۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے ، اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک ، بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اتنی بڑی تعداد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے بوجھ سے آسمان پھٹ پڑیں گے۔