6۔ 1 یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کر رہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔ 6۔ 2 یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگا دیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مؤاخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا مصرف پیغام (پہنچا دینا) ہے۔
[٤] ولی کے مختلف مفہوم :۔ ولی کا لفظ بہت جامع ہے اور بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً کارساز دوست، حمایتی، مددگار اور سرپرست سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اور اس کا عام مفہوم وہ شخص ہے جو کسی کی موت، مصیبت اور سخت پریشانی کے وقت اس کی مدد کو پہنچے یا اس کی وراثت کا اولین حقدار ہو۔ اور یہ باپ اور بیٹے کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ہوسکتا ہے جب کہ مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کو ایسا سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہر مصیبت میں ان کے کام آتے اور ان کی حاجات کو پورا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نیز قیامت کے دن ہم ان کی سفارش سے اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ ایسے مشرکوں کو مہلت تو دیتا ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ بچے رہیں گے۔ یہ سب لوگ اللہ کی نظر میں ہیں۔ لہذا آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ مانتے کیوں نہیں یا نہ ماننے کی صورت میں تباہ کیوں نہیں کردیئے جاتے۔ یہ باتیں آپ کے ذمہ نہیں۔ وقت آنے پر اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔
(١) والذین اتخذوا من دونہ اولیآء اللہ …: اس جملے میں مشرکین کے لئے بہت شدید ڈانٹ اور دھمکی ہے کہ اوپر آیات میں جس اللہ کا ذکر ہوا، جو عزیز و حکیم اور علی و عظیم ہے، جس کی ہیبت سے آسمان پھٹنے کے قریب رہتے ہیں اور جس کی تسبیح و حمد تمام فرشتے کرتے ہیں، جن لوگوں نے اس اللہ کے سوا کسی قسم کے کار ساز بنائے، جو ان کے خیال میں فوق الفطرت طریقے سے ان کی حاجتیں و مرادیں برلاتے اور ان کی دستگیری و فریاد رسی کرتے ہیں، ان کے ایک ایک عمل کو نص - دیکھ رہا ہے وہ سب اس کے پاس محفوظ ہیں اور بہت جلد وہ انھیں ان کا بدلا دے گا۔- (٢) وما انت علیھم بوکیل ” مآئ “ نافیہ کی تاکید ” بوکیل “ کی باء کے ساتھ ہو رہی ہے اور ” بوکیل “ کی تنوین تنکیر کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” تو ہرگز ان کا کوئی ذمہ دار نہیں “ کیا گیا ہے۔” وکل یکل “ (ض) سپرد کرنا۔” وکیل “ جس کے سپرد کوئی کام کردیا جائے، ذمہ دار، یعنی ان کفار و مشرکین کی نگرانی اور ان کے اعمال کی جزا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، آپ انھیں ہدایت دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو زیادہ پریشان یا غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ فرمایا :(انما انت نذیر واللہ علی کل شیء وکیل) (ھود : ١٢) ” تو تو صرف ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ‘ ‘ مزید دیکھیے سورة یونس (٩٩، ١٠٠) اور سورة انعام (٣٥) ۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ اللہُ حَفِيْــظٌ عَلَيْہِمْ ٠ ۡ ۖ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ ٦- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ بتوں کو کارساز ٹھہرا رکھا ہے اور وہ ان کو پوجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے اعمال کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
آیت ٦ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ” اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے مددگار بنا رکھے ہیں “- اللّٰہُ حَفِیْظٌ عَلَیْہِمْ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ ” اللہ ان پر نگران ہے ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ “- وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن وہ معبود ان کی شفاعت کریں گے اور ان کے ذریعے سے انہیں اللہ کا قرب حاصل ہوجائے گا ‘ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ ان کے سارے افعال کی نگرانی کر رہا ہے اور ان کا نامہ اعمال تیار ہو رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ اولیا ء‘ ‘استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے ۔ معبودان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ قرآن پاک کا تتبع کرنے سے لفظ ولی کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں : 1 ) جس کے کہنے پر آدمی چلے ، جس کی ہدایات پر عمل کرے ، اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں ، رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے ( النساء ، آیات 118 تا 120 ۔ الاعراف 3 ، 27 تا 30 ) ۔ 2 ) جس کی رہنمائی ( ) پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے ( بقرہ 257 ۔ بنی اسرائیل 97 ۔ الکہف 17 ۔ 50 ۔ الجاثیہ 19 ) ۔ 3 ) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں ، وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے ، تو اس کے عذاب سے بچا لے گا ( النساء 123 ۔ 173 ۔ الانعام 51 ۔ الرعد 37 ۔ العنکبوت 22 ۔ الاحزاب 65 ۔ الزمر 3 ) 4 ) جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے ، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے ، اسے روزگار دلواتا ہے ، اولاد دیتا ہے ، مرادیں بر لاتا ہے ، اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے ( ہود ، 20 ۔ الرعد ، 16 ۔ العنکبوت ، 41 ) بعض مقامات پر قرآن میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں ۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے ۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مدد گار سمجھنا ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :7 اللہ ہی ان پر نگراں ہے یعنی وہ ان کے سارے افعال دیکھ رہا ہے اور ان کے نامۂ اعمال تیار کر رہا ہے ۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو ، یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی قسمت تمہارے حوالے نہیں کر دی گئی ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے گا اسے تم جلا کر خاک کر دو گے یا اس کا تختہ الٹ دو گے ، یا اسے تہس نہس کر کے رکھ دو گے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو ایسا سمجھتے تھے اور آپ کی غلط فہمی یا بر خود غلطی کو رفع کرنے کے لیے یہ بات ارشاد ہوئی ہے ۔ بلکہ اس سے مقصود کفار کو سنانا ہے ۔ اگرچہ بظاہر مخاطب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، لیکن اصل مدعا کفار کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کا نبی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا جیسے بلند بانگ دعوے خدا رسیدگی اور روحانیت کے ڈھونگ رچانے والے عموماً تمہارے ہاں کیا کرتے ہیں ۔ جاہلیت کے معاشروں میں بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے کہ حضرت قسم کے لوگ ہر اس شخص کی قسمت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں جو ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے ۔ بلکہ مر جانے کے بعد ان کی قبر کی بھی اگر کوئی توہین کر گزرے ، یا اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کوئی برا خیال ہی دل میں لے آئے تو وہ اس کا تختہ الٹ دیتے ہیں ۔ یہ خیال زیادہ تر حضرتوں کا اپنا پھیلایا ہوا ہوتا ہے ، اور نیک لوگ جو خود ایسی باتیں نہیں کرتے ، ان کے نام اور ان کی ہڈیوں کو اپنے کاروبار کا سرمایہ بنانے کے لیے کچھ دوسرے ہوشیار لوگ ان کے متعلق اس خیال کو پھیلاتے ہیں ۔ بہرحال عوام میں اسے روحانیت و خدا رسیدگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کو قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات حاصل ہوں ۔ اسی فریب کا طلسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوئے اپنے رسول پاک سے فرما رہا ہے کہ بلا شبہ تم ہمارے پیغمبر ہو اور ہم نے اپنی وحی سے تمہیں سرفراز کیا ہے ، مگر تمہارا کام صرف لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے ۔ ان کی قسمتیں تمہارے حوالہ نہیں کر دی گئی ہیں ۔ وہ ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں ۔ بندوں کے اعمال کو دیکھنا اور ان کو عذاب دینا یا نہ دینا ہمارا اپنا کام ہے ۔