Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے ۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو ۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے ۔ ترمذی نسائی ، ابن ماجہ ، مسند احمد وغیرہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا آپ مکہ شریف کے بازار خزروع میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ قسم ہے اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں اور اس لئے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے ۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہوگا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے آیت ( ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ ١٠٣؁ ) 11-ھود:103 ) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے ۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لئے مؤخر کئے ہوئے ہیں ۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کر سکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ فرمائیے ۔ آپ نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے انکے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے ۔ صحابہ نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لئے رہو ۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو ۔ پھر آپ نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرلیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کر چکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں ۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا ۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نامی صحابی بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے ۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لئے ہیں یعنی جنت کے لئے اور یہ اس کے لئے ہیں یعنی جہنم کے لئے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کر دیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کر لے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کر لیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ 7۔ 2 قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لئے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہونگیں علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن و کافر سب جمع ہونگے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہونگے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] قرآن ساری دنیا کی ہدایت کے لئے :۔ اُمُّ الْقُرَیٰ سے مراد مرکزی بستی یا بڑا شہر اور اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جہاں اللہ کا گھر موجود ہے۔ اور تمام دنیا کے لوگوں کے جمع ہونے کے لیے مرکز بنادیا گیا ہے۔ اور اس کے گرد سے مراد صرف آس پاس کے علاقے یا ملک نہیں بلکہ پوری روئے زمین ہی مراد ہے۔ کیونکہ یہ پوری روئے زمین کا مرکز بنایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں چند بنیادی باتوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن اہل عرب کی اپنی ہی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ اس کے سمجھنے سمجھانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور لوگ مخصوص قسم کے علماء کے محتاج ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ تمام اہل عرب اس سے براہ راست استفادہ کرسکیں، دوسری یہ کہ آپ کی دعوت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے اور تیسری یہ کہ آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کو قیامت کے دن واقع ہونے والے واقعات اور ان کے اعمال کی جزا وسزا سے پوری طرح خبردار کردیں۔- [٦] یعنی جتنے بھی انسان اور جنّ پیدا ہوئے ہیں ان سب کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔ دنیا میں تو کئی مذاہب ہیں پھر ہر مذہب کے بیسیوں فرقے ہیں۔ مگر اس دن ساری مخلوق صرف دو گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک اہل جنت، دوسرے اہل دوزخ۔ ایک تیسرے فریق اعراف والوں کا ذکر بھی سورة اعراف میں آیا ہے لیکن وہ فریق کوئی مستقل فریق نہ ہوگا بلکہ جلد یا بدیر اہل جنت سے مل جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وکذلک اوحینا الیک قرانا عربیناً : قرآن عربی زبان میں نازل کرنے کی چند حکمتوں کیے جاننے کے لئے دیکھیں سورة یوسف کی آیت (٢) کی تفسیر۔- (٢) لتنذر ام القریٰ ومن حولھا :” ام القریٓ“ کا معنی بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ یا اصل ہے، یعنی بستیوں کا مرکز۔ مراد مکہ معظمہ ہے، کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر یہیں تعمیر ہوا، جسے تمام دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعلمین) (آل عمران : ٩٦)” بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو مکہ میں ہے، بہت بابرکت اور جہانوں کے لئے ہدایت ہے۔ “ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے اس شہر میں موجود بیت اللہ کا حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض کیا یا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تمام روئے زمین سے بہتر قرار دیا۔ عبداللہ بن عدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” حزورۃ “ (شہر مکہ کی ایک جگہ) پر کھڑے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واللہ انک الخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا انی اخرجت منک ما خرجت) (ترمذی، المناقب، باب فی فضل مکۃ : 3925 وقال الالبانی صحیح )” اللہ کی قسم چ یقیناً تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر اور اللہ کی زمین میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر مجھے اس سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتدا یہاں سے ہوئی اور آپ کی دعوت کا آغاز یہیں سے ہوا۔- (٣) یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کل عالم اور تمام روئے زمین کے لئے ڈرانے والے تھے، پھر یہاں آپ کے بھیجنے کا مقصد صرف مکہ اور اس کے اردگرد کو کیوں بتایا گیا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو ” من حولھا “ میں پوری زمین شامل ہے، مکہ پوری زمین کا مرکز ہے، سب اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور اس کے حج کے لیء جاتے ہیں۔ اگر ” من حولھا “ سیق ریب قریب اردگرد کی بستیاں مراد کی جائیں تب بھی آپ کو مکہ اور اس کے اردگرد ڈرانے کیلئے بھیجنے کی بات کا مقصد یہ نہیں کہ آپ دوسری اقوام کی طرف مبعوث نہیں، جیسا کہ فرمایا :(وانذر عشیرتک الاقربین) (الشعرائ :213)” اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔ “ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ صرف قریبی رشتہ داروں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ، ورنہ اہل مکہ و مدینہ کو دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ ا سی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو ڈرانے کے لئے بھیجنے کا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو یہاں تک محدود کرنا نہیں ۔ اس بات کا ذکر کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام جن و انس کے لئے اور قیامت تک کیلئے ہے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٩) ، اعراف (١٥٨) ، فرقان (١) ، احقاف (٢٩ تا ٣٢) اور سورة سبا (٢٨) ۔- (٤) وتنذر یوم الجمع :” انذر ینذر “ (ڈرانا) کے دو مفعول ہوتے ہیں، کیونکہ ڈرانے میں دو چیزیں محلوظ ہوتیہیں، ایک یہ کہ کسے ڈرایا جا رہا ہے اور دوسری یہ کہ اسے کس چیز سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس آیت میں ” لتنر ام القریٰ ومن حولھا “ اور ” وتنذر یوم الجمع “ دو جملے ہیں، دونوں میں ” تنذر “ کے دو دو معفول ہیں۔ پہلے جملے میں پہلا مضمون ذکر فرمایا اور دوسرا حذف کردیا، جو آیت کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے :” ای لتذر ام القریٰ ومن حولھا العذاب “” یعنی تاکہ قوم القریٰ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو عذاب سے ڈرا دے۔ “ دوسرے جملہ میں پہلا مفعول حذف کردیا اور دوسرا ذکر فرمایا۔” ای لتنذر ام القری ومن حولھا یوم الجمع “” یعنی تاکہ تو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو یوم الجمع سے ڈرا دے۔ “- مطلب یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا ، تاکہ تو بستیوں کے مرکز اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو گزشتہ اقوام پر آنے والے عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو گزشتہ اقوام جیسے عذاب کے ساتھ ساتھ یوم الجمع سے بھی ڈرائے۔ اتنی لمبی بات کو ان مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا :(لتنذر ام القریٰ ومن حولھا وتنذر یوم الجمع) اسے احتباک کہتے ہیں اور اس سے کلام میں اختصار، جامعیت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔- (٥) ” یوم الجمع “ قیامت کے دن کو کہتے ہیں، کیونکہ اس دن سب پہلے پچھلے جمع ہوں گے، جیسا کہ فرمایا :(یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن) (التغابن : ٩)” جس دن وہ تمہیں جمع کرنے کے دن کے لئے جمع کرے گا، وہی ہار جیت کا دن ہے۔ “- (٦) لاریب فیہ :” جس میں کوئی شک نہیں “ کیونکہ یہ بات فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ مالک اپنے غلاموں کو کسی کام پر مقرر کر، پھر وہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کریں تو ضروری ہے کہ وہ کسی دن انھیں اکٹھا کر کے مظلوم کو ظالم سے انصاف دلائے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو بےانصاف شمار ہوگا۔ تو احکم الحاکمین کے سب کو جمع کرنے کے دن میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ رہی یہ بات کہ کچھ لوگ اس میں شک کرتے ہیں، تو ان کے شک کو کالعدم قرار دیا کہ اس کا کچھ اعتبار نہیں۔- (٧) فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر : یہ ” یوم الجمع “ کا انجام ہے کہ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى۔ ام القریٰ کے معنی میں ساری بستیوں اور شہروں کی اصل اور بنیاد، مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس کا نام ام القریٰ اس لئے رکھا گیا کہ یہ شہر ساری دنیا کے شہروں اور بستیوں سے اور ساری زمین سے اللہ کے نزدیک اشرف و افضل ہے۔ جیسا کہ امام احمد نے مسند میں حضرت عدی بن حمرا زہری سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت سنا جبکہ آپ (مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے اور) بازار مکہ کے مقام حزورہ پر تھے کہ آپ نے مکہ مکرمہ کو خطاب کر کے فرمایا :۔- تو میرے نزدیک اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے اور ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے، اگر مجھے اس زمین سے نکالا نہ جاتا تو میں اپنی مرضی سے کبھی اس زمین کو نہ چھوڑتا۔- وَمَنْ حَوْلَهَا۔ یعنی مکہ مکرمہ کے آس پاس اس سے مراد آس پاس کے عرب ممالک بھی ہو سکتے ہیں اور پوری زمین کی مشرق و مغرب بھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّۃِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ۝ ٧- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- عَرَبيُّ :- الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ- [ الشعراء 195] ،- العربی - واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195]- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- سعر - السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ :- حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً- [ النساء 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار .- ( س ع ر ) السعر - کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں کہ ان کے بجائے آپ کی پکڑ کی جائے اور اسی طرح ہم نے بذریعہ جبریل امین آپ پر قرآن عربی نازل کیا ہے تاکہ آپ قرآن کریم کے ذریعے سے سب سے پہلے مکہ والوں اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور جمع ہونے کے دن کی آفتوں سے بھی ڈرائیں جس میں تمام آسمان و زمین والے جمع ہوں گے جس دن میں کوئی شک نہیں ان جمع ہونے والوں میں سے مسلمانوں کا گروہ جنت میں اور ایک گروہ کافروں کا دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا ” اور اسی طرح ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف یہ قرآن عربی “- آیت ٣ کی طرح یہاں پر بھی وحی کے ذکر کے ساتھ لفظ کَذٰلِکَ آیا ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں کی جاچکی ہے۔- لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا ” تاکہ آپ خبردار کردیں بستیوں کے مرکز اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو “- بالکل یہی الفاظ سورة الانعام کی آیت ٩٢ میں بھی آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی قوم پر اتمامِ حجت کرنے کا یہ وہی طریقہ اور اصول ہے جس کا ذکر سورة القصص کی آیت ٥٩ میں اس طرح ہوا ہے : وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا ” اور نہیں ہے آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا ‘ جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجتا “۔ جزیرہ نمائے عرب کی ” اُمّ القری “ یعنی مرکزی بستی چونکہ مکہ ہے اس لیے مذکورہ اصول کے تحت اس مرکزی بستی میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا گیا۔ بلکہ ایک اعتبار سے تو مکہ پوری دنیا کا ” اُمّ القریٰ “ ہے۔ اس لیے کہ حَوْلَ کے معنی اردگرد کے ہیں اور ” اردگرد “ کی حدود کسی خاص نقطے تک محدود نہیں کی جا سکتیں۔ چناچہ ایک مرکزی مقام کے ارد گرد کے دائرے کو اگر بڑھاتے جائیں تو یہ دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت ٩٢ کے تحت بھی گزر چکی ہے۔ - وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبردار کردیں اس جمع ہونے والے دن سے جس میں کوئی شک نہیں۔ “- فَرِیْقٌ فِی الْْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ ” (اُس دن) ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :8 وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی ۔ اور قرآن عربی کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، تمہاری اپنی زبان میں ہے ۔ تم براہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو ، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :9 یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو ، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :10 یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا ۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani