Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کی سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعا :۔ مثلاً ایک انسان اونٹ پر سواری کرتا ہے جو اس سے طاقت اور قد و قامت میں بیسیوں گناہ زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر وہ بگڑ جائے تو آن کی آن میں کئی انسانوں کو ہلاک بھی کرسکتا ہے۔ اب یہ انسان پر اللہ کا خاص فضل ہے جس نے انسان کو اتنی عقل بخشی کہ وہ بڑے بڑے جانوروں سے سواری لیتا ہے اور وہ اس کی خادم بن جاتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا بھی دیکھا کہ ایک بکری کسی اونٹ یا گائے پر سواری کر رہی ہو۔ اور اپنی مرضی سے اسے جہاں چاہے لے جاسکے ؟ جبکہ انسان کا ایک چھوٹا سا بچہ اونٹوں کی قطار کو جہاں چاہے لیے پھرتا ہے۔ علاوہ ازیں پہلے انسان صرف جانوروں پر سوار ہوتا تھا مگر آج بھاپ اور پٹرول کی گاڑیوں پر سوار ہوتا اور اس سے ہزاروں کام لیتا ہے۔ اگر ان کی ایک کل بگڑ جائے تو سینکڑوں انسان موت کے گھاٹ اتر سکتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ ان چیزوں کو کنٹرول میں رکھ سکتا اور ان پر سواری کرتا ہے۔ پھر بھی انسان اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہ جب کسی سواری پر سوار ہوتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف :13-14) اور ہمیں بھی ایسا ہی حکم ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لتستوا علی ظھورہ……: انسان جب گھوڑوں ، گدھوں، خچروں، اونٹوں یا کشتیوں پر سوار ہوتا ہے اور جم کر بیٹھ جاتا ہے تو عام عادت بن جانے کی وجہ سے اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سواریوں کو تابع کردیئے جانے کی کتنی بڑی نعمت عطا ہوئی ہے۔ ذرا کسی شیر یا چیتے یا کسی اور جنگلی جانور پر اس طرح جم کر بیٹھے، پھر اسے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر ہوگی۔ یہی حال سمندر میں پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان بحری جہازوں پر سکون و اطمینان کے ساتھ سواری کا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کشتیوں اور چوپاؤں میں سے تمہارے لئے سواریاں بنائیں، تاکہ ان کی پشتوں پر جم کر بیٹھو، پھر جب ان پر جم کر بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی انھیں تمہارے لئے مسخر کرنے کی نعمت یاد کرو۔- (٢) وتقولوا سبحن الذی سخرلناھذا…: اور دل میں یاد کرنے کے ساتھ زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح ان الفاظ میں ب یان کرو، تاکہ تمہیں احساس رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے اور اقرار بھی ہوتا رہے کہ ان سواریوں کو قابو میں لانا کبھی ہمارے بس کی بات نہ تھی اور یہ تھی اور یہ بھی کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ان سواریوں کی محتاجی ہم مجبور بندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مالک ہر قسم کے احتیاج اور مجبوری سے پاک ہے۔ اگر انسان سوچے تو سواریوں سے پہلے زمین کی پشت بھی چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کی طرح ہے، جس پر سوار وہ زمانے کے حوادث اور تھپیڑوں کے درمیان جم کر محو سفر ہے۔ سو ہماری ابتدا ہمارے رب کی طرف سے ہوئی، اس نے زندگی بسر کرنے کے لئے زمین کی پشت کو ہمارے لئے بچھونا بنادیا، پھر اس نے چوپاؤں اور کشتیوں کی پشت کو ہمارے لئے جائے سکون بنادیا، اب ساری عمر ہم ان پر سکون و اطمینان کیساتھ سوار ہوتے رہتے ہیں۔- (٣) وانا الی ربنا لمنقلبون : اور یہ بات یقینی ہے کہ ہم دنیا کی زندگی کا سفر پورا کرنے کے بعد اپنے رب کی طرف واپس پلٹنے والے ہیں۔ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے فرمایا :” اس میں دنیا کے سفر سے آخرت کے سفر کی طرف تنبیہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی زاد سے آخرت کے زاد کی طرف تنبیہ فرمائی، فرمایا :(وترودوا فان خیر الزاد التقویٰ ) (البقرہ :198) ” اور زاداہ نے لو کہ بیشک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی (سوال سے) بچنا ہے۔ “ اور دنیوی لباس کے ساتھ آخرت کے لباس کی طرف تنبیہ فرمائی ہے، فرمایا :(وریشآء و لیاس التقویٰ ، ذلک خیر) (الاعراف : ٢٦) ” اور زینت بھی اور تقویٰ کا لباس ٖ وہ سب سے بہتر ہے۔ “- (٤) علی ظھورہ “ میں ” ہ “ ضمیر ” ما ترکبون “ میں اسم موصول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگرچہ اس کے معنی میں عموم ہے، مگر لفظ واحد ہونے کی وجہ سے ضمیر واحد لائی گئی ہے۔- (٥) یہ دعا سواری پر سوار ہونے کے بعد کی ہے، سوار ہوتے وقت ” بسم اللہ “ پڑھنا چاہیے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو فرمایا تھا :(وقال ارکبوا فیھا بسم اللہ مجرلھا ومرسھا ان ربی لغفور رحیم) (ھود : ٣١) ” اور اس نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ، اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ ہی کے نام کے ساتھ ہے، بیشک میرا رب یقیناً بےحد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “- علی ازدی کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے انھیں سکھایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سفر کی طرف نکلتے ہوئے سواری پر جم کر بیٹھ جاتے تو تین دفعہ ” اللہ اکبر “ کہتے، پھر کہتے :(سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون، اللھم انا نسالک فی سفرنا ھذا البر والتقوی ومن العمل ما ترضی ، اللھم ھون علینا سفرنا ھذا و اطوعنا بعدہ اللھم انت الصاحب فی السفر والخلیفہ فی الاھل، اللھم انی اعوذ بک من وعناہ الشعر، وکابۃ المنتظر وسوہ المنقلب فی المال والاھل)” پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لئے تابع کردیا، حالانکہ ہم اسے قابو میں لانے والے نہ تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی دوسری کو ہم سے لپیٹ دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں ساتھی اور گھر والوں میں جانشین ہے۔ اے اللہ میں سفر کی مشقت اور غم ناک منظر دیکھنے سے اور مال اور اہل میں ناکام لوٹنے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو یہی الفاظ کہتے اور یہ الفاظ مزید کہتے :(ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون) (مسلم، الحج، باب استحباب الذکر اذا ر کب دابتہ …:1332)” ہم واپس لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب ہی کی حمد کرنے والے ہیں۔ “ کتب احادیث میں سفر کی اور دعائیں بھی مذکور ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ (اور تاکہ تم یاد کرو اپنے پروردگار کی نعمت کو) اس سے اشارہ فرما دیا گیا کہ ایک صاحب عقل و ہوش انسان کا کام یہ ہے کہ وہ منعم حقیقی کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے غفلت، بےپروائی، اور استغناء کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اس بات پر دھیان دے کہ یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے لہٰذا مجھ پر اس کے شکر کی ادائیگی اور عجز و نیاز کا اظہار واجب ہے۔ ایک کافر اور مومن میں درحقیقت یہی فرق ہے کہ کائنات کی نعمتوں کو دونوں استعمال کرتے ہیں لیکن کافر انہیں غفلت اور بےپروائی سے استعمال کرتا ہے اور مومن اللہ کے انعامات کو مستحضر کر کے اپنا سر نیاز اس کے حضور جھکا دیتا ہے۔ اسی مقصد سے قرآن و حدیث میں مختلف کاموں کی انجام دہی کے وقت صبر و شکر کے مضامین پر مشتمل دعائیں تلقین کی گئی ہیں۔ اور اگر انسان اپنی روزمرہ زندگی میں اٹھتے، بیٹھتے، چلتے پھرتے ان دعاؤں کو اپنا معمول بنا لے تو اس کا ہر مباح کام بھی عبادت بن جاتا ہے۔ یہ دعائیں علامہ جزری کی کتاب ” حصن حصین “ اور حکیم الامت حضرت تھانوی کی ” مناجات مقبول “ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔- سفر کے وقت کی دعائیں :- (آیت) سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا الخ (پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لئے مسخر کردیا) یہ سواری پر بیٹھ کر پڑھنے کی دعا ہے۔ چناچہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعدد روایات میں منقول ہے کہ آپ سواری پر بیٹھتے وقت یہ کلمات پڑھا کرتے تھے اور سوار ہونے کا پورا مستحب طریقہ حضرت علی سے یہ منقول ہے کہ سواری پر پاؤں رکھتے وقت بسم اللہ کہے، پھر سوار ہوجانے کے بعد الحمدللہ اور اس کے بعد یہ کلمات سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا سے لمنقلبون تک (قرطبی) نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر آپ کسی سفر پر جا رہے ہوتے تو مذکورہ کلمات کے بعد یہ دعا بھی پڑھتے تھے۔ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل والمال اللھم انی اعوذبک من وعثاء السفر وکابۃ المنقلب، والحوار بعد الکور وسوء المنظر فی الاھل والمال اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں اللھم لا الہ الاانت ظلمت نفسی فاغفرلی انہ لایغفر الذنوب الا انت۔ (قرطبی)- آیت) وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ ) (اور ہم تو ایسے نہ تھے جو ان کو قابو میں کرلیتے) یہ بات مشینی سواریوں پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے جس طرح جانوروں اور چوپایوں پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا خام مواد پیدا نہ کرتا، یا اس میں وہ خواص و آثار نہ رکھتا یا انسانی دماغ کو ان خواص کے دریافت کرنے کی طاقت نہ بخشتا تو ساری کائنات مل کر بھی ایسی سواریاں پیدا نہ کرسکتی تھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُہُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْہِ وَتَـقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَہٗ مُقْرِنِيْنَ۝ ١٣ ۙ- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- قرین - الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] .- يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] .- ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سورة الزخرف - سواری پر سوار ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا بیان - قول باری ہے (لتستو وا علی ظھورہ ثم تذکرو انعمۃ ربکم اذا استویتم علیہ ۔ تاکہ تم ان کی پشت پر جم کر بیٹھو پھر جب تم اس پر جم کر بیٹھ چکو تو اپنے پروردگار کی اس نعمت کو یاد کرو) ۔- ہمیں عبداللہ بن اسحاق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے علی بن ربیعہ سے کہ انہوں نے حضرت علی (رض) کو سواری پر سوار ہوتے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے اپنا پائوں رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا۔ جب پوری طرح جم کر بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی (سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اسے مسخر کردیا اور ہم اسے قابو کرنے والے نہیں تھے)- پھر تین دفعہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ کبر کہنے کے بعد فرمایا : ” لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفرالذنوب الاانت “ (تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی اور گناہوں کو نہیں بخش سکتا) یہ کہہ کر حضرت علی (رض) ہنس پڑے لوگوں نے عرض کیا امیر المومنین آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟- حضرت علی (رض) نے جواب میں فرمایا ” جو کچھ ابھی میں نے کیا ہے اور کہا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی طرح کرتے اور کہتے دیکھا ہے۔ “ آپ سے بھی یہی دریافت کیا گیا تھا۔ ” اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا۔ ” بندے کا معاملہ عجیب ہے (یا یوں فرمایا، بندہ) جب کہتا ہے کہ ” لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفرلی انہ لا یغفرالذنوب الا انت “۔ تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا گناہوں کو اور کوئی معاف نہیں کرسکتا۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی۔ انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابوطائوس سے انہوں نے اپنے والد سے کہ وہ جب سواری پر سوار ہوتے تو بسم اللہ پڑھتے پھر یہ کہتے : ” ھذا منک وفضلک علینا، الحمد للہ ربنا “ (یہ تیرا عطیہ ہے اور ہم پر یہ تیرا فضل ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو ہمارا رب ہے) پھر کہتے (سبحان الذی سخرلنا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) ۔- حاتم بن اسماعیل نے جعفر سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (علی ذروۃ سنام کل بعیر شیطان فاذا رکبتموھا فقولو اکما امرکم اللہ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ “ ہر اونٹ کے کوہان کی چوٹی پر شیطان ہوتا ہے اس لئے جب تم اس پر سوار ہو تو اس طرح کہو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے یعنی سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔- سفیان سے مروی ہے، انہوں نے منصور سے اور انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابو معمر سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا ” جب کوئی شخص جانور پر سوار ہوتا ہے اور اس وقت اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان اس کے پیچھے سوار ہوجاتا ہے پھر اس سے گانا گانے کے لئے کہتا ہے۔ اگر وہ اچھی طرح گا نہیں سکتا تو اس سے تمنا کرنے کے لئے کہتا ہے۔ “- عورتوں کے لئے زیورات پہننے کی اباحت کا بیان - ابوالعالیہ اور مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو سونا پہننے کی اجازت دی ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی (اومن ینشوا فی الحلیۃ۔ تو کیا جو زیورات میں پرورش پائے) نافع نے سعید سے، انہوں نے ابوہند سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لیس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لانا ثھا میری امت کے مردوں پر ریشم اور سونا پہننا حرام ہے اور عورتوں پر حلال ہے۔- شریک نے عباس بن زریح سے، انہوں نے النھی سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت یہ فرماتے ہوئے سنا تھا جب آپ حضرت اسامہ کے چہرے پر لگے ہوئے زخم سے خون چوس چوس کر اس کی کلی کررہے تھے کہ ” اسامہ لڑکی ہوتے تو ہم انہیں زیورات پہناتے، اسامہ اگر لڑکی ہوتے تو ہم انہیں کپڑے پہناتے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ کی حیثیت لوگوں کی نظروں میں بڑھانے کے لئے یہ فرمایا تھا۔- عمرو بن شعیب کی روایت میں جو انہوں نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کی ہے یہ ذکر ہے کہ آپ نے دو عورتوں کو دیکھا جنہوں نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے اور فرمایا (اتحبان ان یسورکما اللہ باسورۃ من نار، کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنا دے) ۔ انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا (فادیاق ھذا۔ پھر اس کا حق ادا کرو) یعنی زکوۃ نکالو۔- حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ اگر زیورات کی زکوٰۃ نکال دی جائے تو انہیں پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوموسیٰ (رض) کو یہ لکھا کہ اپنے علاقے کے مسلمانوں کی عورتوں کو زیورات کی زکوٰۃ نکالنے کے لئے کہو۔- امام ابوحنیفہ نے عمروبن دینار سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے اپنی بہنوں کو سونے کے زیورات پہنائے تھے۔ نیز حضرت ابن عمر (رض) نے بھی اپنی بیٹیوں کو سونا پہنایا تھا۔- خصیف نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونا پہننے سے منع فرمادیا تو ہم نے عرض کیا : ” اللہ کے رسول (علیہ السلام) کیا ہم مشک کے ساتھ سونے کے اجزا نہ ملا لیا کریں۔ “ آپ نے فرمایا ” تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملالیتیں اور پھر زعفران کے اندر اسے لت پت کرلو تو یہ سونے کی طرح ہوجائے گا۔ “- جریر نے مطرف سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔” اللہ کے رسول یہ سونے کے دو کنگن ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” یہ آگ کے دو کنگن ہیں۔ “ اس نے پھر عرض کیا۔” سونے کی دو بالیاں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا : ” یہ آگ کی دو بالیاں ہیں۔ “ اس نے پھر کہا : ” سونے کا ایک ہار ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : ” یہ آگ کا ایک ہار ہے۔ “- عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورت اگر اپنے شوہر کے لئے زیورات وغیرہ پہن کر بنائو سنگھار نہ کرے تو وہ اس کی نظروں میں بو وقعت ہوکر رہ جاتی ہے۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : تمہارے لئے اس میں کیا رکاوٹ ہے کہ تم چاندی کی دو بالیاں بنالو اور پھر انہیں عنبر یعنی مشک یا زعفران سے رنگ دو ، وہ سونے کی بالیں جیسی نظر آئیں گی۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زیورات پہننے کی اباحت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے جو روایات منقول ہیں وہ ممانعت کی روایات سے زیادہ واضح اور زیادہ مشہور ہیں اسی طرح آیت کی بھی یہی دلالت ہے کہ عورتوں کے لئے زیورات کی اباحت ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک عورتوں کے لئے زیورات پہننے کی اباحت کی روایتیں استفاضہ کی حد کو پہنچ گئی ہیں اور کسی نے اس پر نکیر بھی نہیں کی۔ اس لئے اخبار آحاد کے ذریعے ان روایات پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُہُوْرِہٖ ” تاکہ تم جم کر بیٹھو ان کی پیٹھوں پر “- ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ ” پھر اپنے رب کے انعام کا ذکر کرو جب کہ تم ان کے اوپر جم کر بیٹھ جائو “- وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ ” اور تم کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے ان (سواریوں) کو ہمارے بس میں کردیا ہے ‘ اور ہم تو انہیں قابو میں لانے والے نہیں تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :13 یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے ، اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں ۔ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا ، دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے ۔ ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا دل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جائے گا ۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا ۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو ۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مددگار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے ۔ پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کروں ۔ اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، پھر یہ آیت پڑھتے ، اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ : اللھم انی اسألُکَ فی سفری ھٰذا البرَّ و التقویٰ ، ومن العمل ماترضیٰ ، اللھم ھون لنا السفر ، واطْولَنا البعید ، اللھم انت الصاحب فی السفر ، والخلیفۃُ فی الاھل ، اللھم اَصْحِبْنا فی سفرنا واخْلُفْنَا فی اھلنا ( مسند احمد ، مسلم ، ابوداؤد نسائی ، دارمی ، ترمذی ) ۔ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو ۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے ، خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے ، خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا ، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ ، سبحان الذی سخر لنا ھٰذا .......... ، پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا ، پھر فرمایا سبحانک ، لا اِلٰہ الا انت ، قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی ۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے ۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا ، بندہ جب ربِّ اغْفِرْلِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ( احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ۔ ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا پڑھی ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی ، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا ، شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے ، اس کے بعد یہ آیت پڑھو ( ابن جریر ۔ احکام القرآن للجصّاص ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani