[١٣] یعنی اس دنیا میں ہماری ساری زندگی ہی مسافرانہ ہے اور ہماری منزل آخرت ہے۔ اب سوچئے اگر کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتے وقت یا سواری پر بیٹھ کر سوچ سمجھ کر یہ دعا پڑھے تو کیا وہ کسی گناہ کے کام کے لیے سفر کرسکتا ہے ؟
(آیت) وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ (اور بلاشبہ ہم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں) ان الفاظ کے ذریعہ تعلیم یہ دی گئی ہے کہ انسان کو اپنے ہر دنیوی سفر کے وقت آخرت کا وہ کٹھن سفر یاد کرنا چاہئے جو ہر حال میں پیش ہو کر رہے گا اور اسے سہولت کے ساتھ طے کرنے کے لئے اعمال صالحہ کے سوا کوئی سواری نہیں ہوگی۔
وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ١٤- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
آیت ١٤ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ” اور یقینا ہم اپنے ربّ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ “
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :14 مطلب یہ ہے کہ ہر سفر پر جاتے ہوئے یاد کر لو کہ آگے ایک بڑا اور آخری سفر بھی درپیش ہے ۔ اس کے علاوہ چونکہ ہر سواری کو استعمال کرنے میں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ شاید کوئی حادثہ اسی سفر کو آدمی کا آخری سفر بنا دے ، اس لیے بہتر ہے کہ ہر مرتبہ وہ اپنے رب کی طرف واپسی کو یاد کر کے چلے تاکہ اگر مرنا ہی ہے تو بے خبر نہ مرے ۔ یہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر ذرا اس تعلیم کے اخلاقی نتائج کا بھی اندازہ کر لیجیے ۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جو شخص کسی سواری پر بیٹھتے وقت سمجھ بوجھ کر پورے شعور کے ساتھ اس طرح اللہ کو اور اس کے حضور اپنی واپسی اور جواب دہی کو یاد کر کے چلا ہو وہ آگے جا کر کسی فسق و فجور یا کسی ظلم و ستم کا مرتکب ہوگا ؟ کیا کسی فاحشہ سے ملاقات کے لیے ، یا کسی کلب میں شراب خوری اور قمار بازی کے لیے جاتے وقت بھی کوئی شخص یہ کلمات زبان سے نکال سکتا ہے یا ان کا خیال کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی حاکم یا سرکاری افسر ، یا تاجر ، جو یہ کچھ سوچ کر اور اپنے منہ سے کہہ کر گھر سے چلا ہو ، اپنی جائے عمل پر پہنچ کر لوگوں کے حق مار سکتا ہے ؟ کیا کوئی سپاہی بے گناہوں کا خون بہانے اور کمزوروں کی آزادی پر ڈاکہ مارنے کے لیے جاتے وقت بھی اپنے ہوائی جہاز یا ٹینک پر قدم رکھتے ہوئے یہ الفاظ زبان پر لا سکتا ہے ؟ اگر نہیں ، تو یہی ایک چیز ہر اس نقل و حرکت پر بند باندھ دینے کے لیے کافی ہے جو معصیت کے لیے ہو ۔
4: یہ وہ دعا ہے جو کسی سواری پر سوار ہونے کے وقت پڑھنی چاہئے۔ اس میں اول تو اس بات کا شکر اور اعتراف ہے کہ یہ سواری اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اور دوسرے اس کے آخری جملے میں انسان کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی سفر کرتے وقت یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اسے ایک آخری سفر پیش آنے والا ہے جس میں وہ دنیا کو چھوڑ کر اپنے پروردگار کے پاس پہنچے گا، اور اس وقت اپنے سارے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ اس لیے یہاں رہتے ہوئے کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے جس کے نتیجے میں وہاں شرمندگی اٹھانی پڑے۔