[١] واضح کتاب کا لفظ بڑا وسیع مفہوم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ کتاب بہت سی باتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ مثلاً یہ کتاب شرک کی جملہ اقسام کی وضاحت کرتی ہے۔ دین حق اور شریعت کے امور کی وضاحت کرتی ہے۔ احوال آخرت اور جنت و دوزخ کی وضاحت کرتی ہے۔ الغرض حق اور باطل کی ایک ایک چیز کو پوری وضاحت سے پیش کر رہی ہے۔
والکتب المبین : قسم اس بات کا یقین دلانے کے لئے اٹھائی جاتی ہے جو اس کے جواب میں کہی جاتی ہے پھر بعض اوقات کسی چیز کی قسم اس کی عظمت کے پیش نظر کھائی جاتی ہے، تاکہ مخاطب کو بات کا یقین آجائے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی قسم اور بعض اوقات قسم جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی اکثر قسمیں ایسی ہی ہیں۔ ” الکتب “ پر الف لام عہد کے لئے ہے ، اس لئے ترجمہ ” اس کتاب کی قسم “ کیا گیا ہے۔ یہاں قرآن مجید کی صفت ” المبین “ کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اسے عربی قرآن بنا کر نازل کرنے والے ہم ہیں۔ اس کا ہر بات کو اتنے عمدہ طریقے سے کھول کر بیان کرنا شاہد ہے کہ یہ کسی انسان یا دوسری مخلوق کا کلام نہیں بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔
معارف ومسائل - یہ سورت مکی ہے، البتہ حضرت مقاتل کا قول ہے کہ ( آیت) واسئل من ارسلنا الخ مدنی ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سورت معراج کے وقت آسمان پر نازل ہوئی۔ (روح المعانی) واللہ اعلم - (آیت) وَالْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ (قسم ہے کتاب واضح کی) اس سے مراد قرآن کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو عموماً وہ چیز بعد کے دعوے کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ یہاں قرآن کریم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے۔ قرآن بذات خود اپنے اعجاز کی وجہ سے اپنی حقانیت کی دلیل ہے اور قرآن کو واضح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے وعظ و نصیحت پر مشتمل مضامین با آسانی سمجھ میں آجاتے ہیں لیکن جہاں تک اس سے احکام شرعیہ کے استنباط کا تعلق ہے وہ بلاشبہ ایک مشکل کام ہے، اجتہاد کی پوری صلاحیت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ چناچہ دوسری جگہ یہ بات واضح کردی گئی ہے (آیت) ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مد کر (اور بلاشبہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا) اس میں فرما دیا گیا ہے کہ قرآن نصیحت اندوزی کے لئے آسان ہے لہٰذا اس سے اجتہاد واستنباط کا آسان ہونا لازم نہیں آتا بلکہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ اس کام کے لئے متعلقہ علوم میں پوری مہارت شرط ہے۔
آیت ٢ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ” قسم ہے اس کتاب کی جو بالکل واضح ہے۔ “- یہاں پر چونکہ قرآن کی قسم کا ” جوابِ قسم “ یا مقسم علیہ محذوف ہے ‘ اس لیے اس قسم کا مقسم علیہ بھی سورة یٰسٓ کی آیت میں وارد الفاظ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ ہی کو مانا جائے گا۔ یہ نکتہ قبل ازیں سورة یٰسٓکی آیت ٣ کے ضمن میں واضح کیا جا چکا ہے کہ سورة یٰسٓ کے آغاز میں قرآن کی قسم چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی کے طور پر کھائی گئی ہے ‘ اس لیے قرآن کے ان تمام مقامات پر جہاں قرآن کی قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے وہاں اس قسم کا مقسم علیہ منطقی طور پر ان ہی الفاظ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ کو ہونا چاہیے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ کتاب مبین گواہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ کے رسول ہیں