Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت قریشی کفار نیکی اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہدیا کہ مجھ میں تم کوئی تعلق نہیں ۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بےتعلق ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرات حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ لیا ناممکن ہے کہ آپ کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے ۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا ۔ پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جلانا شروع کر دیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں ۔ سرکشی اور ضد میں آکر کفر کر بیٹھے عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکے اور طائف کے کسی رئیس پر کسی بڑے آدمی پر کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا ؟ اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ ، عروہ بن مسعود ، عمیر بن عمرو ، عتبہ بن ربیعہ ، حبیب بن عمرو مابن عبطدیالیل ، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی ۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیے تھا اس اعتراض کے جواب میں فرمان باری سرزد ہوتا ہے کہ کیا رحمت الہٰی کے یہ مالک ہے جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں ؟ اللہ کی چیز اللہ کی ملکیت وہ جسے چاہے دے پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہاراعلم ؟ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حقدار صحیح معنی میں کون ہے ؟ یہ نعمت اسی کو دی جاتی ہے جو تمام مخلوق سے زیادہ پاک دل ہو ۔ سب سے زیادہ پاک نفس ہو سب سے بڑھ کر اشرف گھر کا ہو اور سب سے زیادہ پاک اصل کا ہو پھر فرماتا ہے کہ یہ رحمت اللہ کے تقسیم کرنے والے کہاں سے ہوگئے؟ اپنی روزیاں بھی ان کے اپنے قبضے کی نہیں وہ بھی ان میں ہم بانٹتے ہیں اور فرق وتفاوت کے ساتھ جسے جب جتنا چاہیں دیں ۔ جس سے جب جو چاہیں چھین لیں عقل و فہم قوت طاقت وغیرہ بھی ہماری ہی دی ہوئی ہے اور اس میں بھی مراتب جداگانہ ہیں اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے سے کام لے کیونکہ اس کی اسے اور اس کی اسے ضرورت اور حاجت رہتی ہے ایک ایک کے ماتحت رہے پھر ارشاد ہوا کہ تم جو کچھ دنیا جمع کر رہے ہو اس کے مقابلہ میں رب کی رحمت بہت ہی بہتر اور افضل ہے زاں بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ مال کو میرا فضل اور میری رضامندی کی دلیل جان کر مالداروں کے مثل بن جائیں تو میں تو کفار کو یہ دنیائے دوں اتنی دیتا کہ ان کے گھر کی چھتیں بلکہ ان کے کوٹھوں کی سیڑھیاں بھی چاندی کی ہوتیں جن کے ذریعے یہ اپنے بالا خانوں پر پہنچتے ۔ اور ان کے گھروں کے دروازے ان کے بیٹھنے کے تخت بھی چاندی کے ہوتے اور سونے کے بھی میرے نزدیک دنیا کوئی قدر کی چیز نہیں یہ فانی ہے زائل ہونے والی ہے اور ساری مل بھی جائے جب بھی آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ان لوگوں کی اچھائیوں کے بدلے انہیں یہیں مل جاتے ہیں ۔ کھانے پینے رہنے سہنے برتنے برتانے میں کچھ سہولتیں بہم پہنچ جاتی ہیں ۔ آخرت میں تو محض خالی ہاتھ ہوں گے ایک نیکی باقی نہ ہو گی جو اللہ سے کچھ حاصل کر سکیں جیسے کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے اور حدیث میں ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو یہاں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا پھر فرمایا آخرت کی بھلائیاں صرف ان کے لئے نہیں جو دنیا میں پھونک پھونک کے قدم رکھتے رہے ڈر ڈر کر زندگی گزارتے رہے وہاں رب کی خاص نعمتیں اور مخصوص رحمتیں جو انہیں ملیں گی ان میں کوئی اور ان کا شریک نہ ہو گا ۔ چنانچہ جب حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے بالا خانہ میں گئے اور آپ نے اس وقت اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کر رکھا تھا تو دیکھا کہ آپ ایک چٹائی کے ٹکڑے پر لیٹے ہوئے ہیں جس کے نشان آپ کے جسم مبارک پر نمایاں ہیں تو رو دئیے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصرو کسرٰی کس آن بان اور کس شان و شوکت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اللہ کی برگذیدہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر کس حال میں ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا تو تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے یا فوراً تکیہ چھوڑ دیا اور فرمانے لگے اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں جلدی سے یہیں انہیں مل گئیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کیا تو اس سے خوش نہیں کہ انہیں دنیا ملے اور ہمیں آخرت ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سونے چاندی کے برتنوں میں نہیں کھاؤ پیو یہ دنیا میں ان کے لئے ہیں اور آخرت میں ہمارے لئے ہیں اور دنیا میں یہ ان کے لئے یوں ہیں کی رب کی نظروں میں دنیا ذلیل و خوار ہے ۔ ترمذی وغیرہ کی ایک حسن صحیح حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو کسی کافر کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ ایک گھونٹ پانی کا نہ پلاتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور تقلید آباء کے دو پہلو :۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر یہاں اسی نسبت سے آیا ہے۔ کہ کفار مکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا اور نبی مانتے تھے۔ لہذا انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگر اسلاف کی تقلید ہی کرنا چاہتے ہو تو اپنے اس پیشوا کی کرو جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی بندگی سے سخت بیزار تھے۔ ان اسلاف کی کیوں پیروی کرتے ہو جنہوں نے خود سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا۔ اور گمراہی کے راستوں پر چل کھڑے ہوئے تھے۔ بالفاظ نبی کی تقلید کرنا درست ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اس کا نام تقلید نہیں بلکہ اتباع رسول ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واذ قال ابراہیم لابیہ وقومہ…: یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کی مناسبت یہ ہے کہ قریش اور قوم عرب سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے پیشوا اور جد امجد نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تھی، تم بھی ایسا ہی کرو۔- (٢) اننی برآء مما تعبدون…:” برآئ “ مصدر ہے، واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر ر مونث کے لئے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ، جو ” بری “ کے معنی میں ہے، مگر اس میں مبالغہ ہے، جیسے ” زید عادل “ میں وہ زور نہیں جو ” اتنا عادل ہے کہ سراپا عدل ہے) میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے تمام معبودوں سے سراپا برأت ہوں، دل ، زبان اور عمل کے ساتھ۔ غرض ہر طرح سے ان سے برأت کا اعلان کرتا ہوں، سوائے اس معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا۔- (٣) الا الذی فطرنی : اپنے اس کلام میں ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف اللہ واحد کی عبادت کی دلیل بھی بیان فرمائی ہے۔ وہ ہے : - (الا الذی فطرنی)” جس نے مجھے پیدا کیا۔ “ یعنی عبادت اسی کا حق ہے جو پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کے اللہ کے سوا تمام معبودوں سیا علن برأت کا ذکر ہے، دوسرے مقامات پر برأت کے علاوہ ان سے عداوت کا بھی اعلان ہے اور تقریباً ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے خلاق ہونے کی صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ (دیکھیے شعراء ٧٥ تا ٧٨۔ انعام : ٧٨۔ ٧٩) سورة ممتحنہ (٤) میں باطل معبودوں کے ساتھ ان کے پجاریوں سے بھی برأت و انکار کے علاوہ کھلم کھلا بغض و عداوت کا اعلان ہے، جب تک وہ اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائیں۔- (٤) فانہ سیھدین : سورة شعراء میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے :(الذی خلقنی فھو یھدین) (الشعراء :88)” وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا (اور اس پر چلاتا) ہے۔ “ یہاں فرمایا :(فانہ سیھدین) یعنی جس نے مجھے پیدا کیا آئندہ بھی وہی مجھے سیدھی راہ پر چلاتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ یعنی ہدایت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جس کے ہاتھ میں خلق ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٧٧) ، شعراء (٧٩) اور سورة صافات (٩٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں (کی عبادت) سے بیزار (اور بےتعلق) ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو مگر ہاں (اس خدا سے تعلق رکھتا ہوں) جس نے مجھ کو پیدا کیا، پھر وہی مجھ کو (میرے دین و دنیا کی مصلحتوں تک) رہنمائی کرتا ہے (مطلب یہ کہ ان لوگوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کا حال یاد کرنا چاہئے کہ وہ خود بھی توحید کے معتقد تھے) اور (وصیت کے ذریعہ) وہ اس (عقیدہ) کو اپنی اولاد میں (بھی) ایک قائم رہنے والی بات کر گئے (یعنی اپنی اولاد کو بھی وصیت کی جس کا اثر کچھ کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک بھی برابر رہا، یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں بعض لوگ شرک سے نفرت کرتے تھے اور یہ وصیت انہوں نے اس لئے کی تھی) تاکہ (ہر زمانے میں مشرک) لوگ (موحدین سے توحید کا عقیدہ سن سن کر شرک سے) باز آتے رہیں (مگر یہ لوگ پھر بھی باز نہیں آتے اور اس طرف توجہ نہیں کرتے) بلکہ میں نے (جو) ان کو اور ان کے باپ دادوں کو (دنیا کا) خوب سامان دیا ہے (اس میں منہمک اور غافل ہو رہے ہیں) یہاں تک کہ (اسی انہماک اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے) ان کے پاس سچا قرآن (جو معجز ہونے کی وجہ سے اپنی سچائی کی آپ ہی دلیل ہے) اور صاف صاف بتانے والا رسول (اللہ کی طرف سے) آیا اور جب ان کے پاس یہ سچا قرآن پہنچا (اور اس کا اعجاز ظاہر ہوا) تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔- معارف و مسائل - (آیت) وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ الخ۔ گزشتہ آیات کے آخر میں باری تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ مشرکین عرب کے پاس اپنے شرک پر سوائے اپنے باپ دادوں کی رسوم کے کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ واضح عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض باپ دادوں کی تقلید پر اصرار کرنا حق و انصاف سے کس قدر بعید ہے۔ اب ان آیات میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اپنے آباء و اجداد ہی کے راستے پر چلنا چاہتے ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے راستے پر کیوں نہیں چلتے جو تمہارے اشرف ترین جد اعلیٰ ہیں اور جن کے ساتھ نسبی وابستگی کو تم خود اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتے ہو۔ وہ نہ صرف توحید کے قائل تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی وصیت کر گئے بلکہ خود ان کا طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ کھلے ہوئے عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض اپنے باپ دادوں کی تقلید کرنا جائز نہیں، جب وہ دنیا میں مبعوث ہوئے تو ان کی ساری قوم اپنے آباؤ اجداد کی اتباع میں شرک میں مبتلا تھی، لیکن انہوں نے اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے بجائے دلائل واضحہ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی قوم سے بیزاری کا اظہار کیا اور فرمایا اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ (جن چیزوں کی عبادت تم کرتے ہو میں ان سے بری ہوں)- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی بد عمل یا بد عقیدہ گروہ یا جماعت کے درمیان رہتا ہے، اور خاموش رہنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہے کہ اس کو بھی اس گروہ کا ہم خیال سمجھا جائے گا تو محض اپنے عقیدے اور عمل کا درست کرلینا ہی کافی نہیں، بلکہ اس گروہ کے عقائد و اعمال سے اپنی برات کا اظہار بھی ضروری ہے۔ چناچہ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اپنے عقائد و اعمال کو مشرکین سے عملاً ممتاز کرلیا بلکہ زبان سے بھی برات کا برملا اظہار فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِيْمُ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ۝ ٢٦ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون .- قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٦۔ ٢٧) اور جبکہ ابراہم نے اپنے باپ آزار اور اپنی قوم سے ان کے پاس آنے کے بعد کہا کہ میں اس سے اللہ سے تعلق رکھتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا وہی اپنے دین اور اپنی اطاعت کی طرف میری رنمائی کرے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ ” اور یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا اپنے والد اور اپنی قوم سے کہ یقینا میں بیزار ہوں ان سے جنہیں تم پوجتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :24 تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۱۲٤ تا ۱۳۳ ، الانعام ، ھواشی ۵۰ تا ۵۵ ، جلد دوم ، ابراہیم ، حواشی ٤٦ تا ۵۳ ، جلد سوم ، مریم ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ، الانبیاء ، حواشی ۵٤تا ٦٦ ، الشعراء ، حواشی ، ۵۰ تا ٦۲ ، العنکبوت ، حواشی ۲٦تا ٤٦ ، جلد چہارم ، الصافات ، آیات ۸۳ تا ۱۰۰ ، حواشی ٤٤تا ۵۵ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani