44۔ 1 یعنی یہ قرآن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پاسکتے ہیں اس لئے ہم کو چاہیے کہ اس کو اپنائیں اور اس پر سب سے زیادہ عمل کریں۔
[٤٣] یعنی یہ کتاب قرآن کریم ایک بہت بڑی نعمت ہے جو آپ کو اور آپ کی قوم کو دی جارہی ہے۔ تمہاری اور تمہاری قوم کی اس سے زیادہ خوش نصیبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم آپ کی طرف وہ کتاب نازل کر رہے ہیں جو تاقیام قیامت ساری دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے گی اور دوسری قوموں کو چھوڑ کر آپ کی قوم اس پیغام الٰہی کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔ لہذا اس وقت جو لوگ اس عظیم نعمت کا مذاق اڑاتے ہیں یا اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے ان سے یقیناً باز پرس ہونے والی ہے۔ اور اے مسلمانو تم سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ پیغام دنیا والوں کو پہنچا دیا تھا ؟
(١) وانہ لذکر لک و لقومک : ذکر کا معنی نصیحت و یاد دہانی بھی ہے اور عز و شرف اور شہرت و ناموری بھی، یہاں دونوں مراد ہیں۔ یعنی یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہے اور آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش اور عرب کے لئے عز و شرف کا باعث بھی ہے۔ یہ عربی زبان میں نازل ہوا اور اس کے اولین مخاطب اور سب سے پہلے عمل کرنے والے قریش اور عرب ہیں۔ جو عجمی قومیں اس پر ایمان لائیں گی انا کو قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے عربی زبان سیکھنا پڑے گی اور عربوں کا شاگرد بننا پڑے گا۔ قریش اور عربوں کے لئے یہ عزو شرف کیا کم ہے کہ بعد میں آنے والے تمام لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ زمین کے مشرق و مغرب ان کے جہاد کے ساتھ فتح اور حلقہ بگوش اسلام ہونے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خلافت ان میں رکھی جب تک انہوں نے دین کو قائم رکھا، کیونکہ قرآن شرف کا باعث اسی کے لئے ہے جو اس پر عمل کرے، اس کے لئے محض عرب یا قریشی ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والقرآن حجۃ لک او علیک ) (مسلم العطھارۃ ، باب فضل الوضو : ٢٢٣، عن ابی مالک الاشعری (رض) ” قرآن تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔ “- آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ نیک نامی کی خواہش اچھی چیز ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر اپنے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان کے طور پر نہ فرماتے اور ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے یہ دعا نہ کرتے :(واجعل لی لسان صدق فی الاخرین) (الشعرائ : ٨٣)” اور پیچھے آنے والوں میں میرے لئے سچی ناموری رکھ۔ “- (٢) وسوف تسئلون : یعنی قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنے عز و شرف کا باعث بننے والی نصیحت کی اس کتاب کی کیا قدر کی، اس پر کہاں تک عمل کیا اور اسے تمام اقوام عالم تک پہنچانے کی ذمہ داری کہاں تک ادا کی ؟
نیک شہرت بھی دین میں پسندیدہ ہے :- (آیت) وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (اور یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے) ” ذکر “ سے یہاں مراد نیک ناموری ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کے اور آپ کی قوم کے لئے شرف عظیم اور نیک شہرت کا باعث ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نیک شہرت ایک قابل رغبت چیز ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کو ایک احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا فرمائی تھی کہ (آیت) واجعل لی لسان صدق فی الآخرین (تفسیر کبیر) لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک شہرت اس وقت مستحسن ہے جب وہ مقصد زندگی بنائے بغیر انسان کے اعمال صالحہ سے خود بخود حاصل ہوجائے اور اگر انسان نیکیاں صرف اسی مقصد سے کرے کہ اس سے دنیا میں نام ہوگا تو یہ ریا ہے جس سے نیکیوں کا سارا فائدہ جاتا رہتا ہے اور الٹا گناہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں ” آپ کی قوم “ سے مراد بعض مفسرین نے صرف قبیلہ قریش کو قرار دیا ہے اور اس سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے لیکن علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد آپ کی پوری امت ہے خواہ کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو۔ قرآن کریم ان سب کے لئے عظمت و شرف اور نیک ناموری کا باعث ہے۔ (قرطبی)
وَاِنَّہٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ٠ ۚ وَسَوْفَ تُسْـَٔــلُوْنَ ٤٤- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔
آیت ٤٤ وَاِنَّـہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ ۔ ” اور یہ (قرآن) آپ کے لیے بھی یاد دہانی ہے اور آپ کی قوم کے لیے بھی ‘ اور عنقریب آپ سب سے پوچھ گچھ ہوگی۔ “- یہ قرآن گویا آپ کا وظیفہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ہمیشہ پڑھتے رہیے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کی ہدایت و فلاح بھی اسی میں ہے۔