Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 مالک، دروغہ جہنم کا نام ہے۔ 77۔ 2 یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔ 77۔ 3 یعنی وہاں موت کہاں ؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی، تاہم اس کے بغیر بھی چارہ نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٢] اہل دوزخ عذاب کی شدت میں کمی یا وقفہ سے سخت مایوس ہو کر دوزخ کے فرشتہ کو، جس کا نام مالک ہوگا، پکار کر کہیں گے، مالک نہ ہمارے عذاب میں کمی واقعی ہوتی ہے نہ کبھی وقفہ پڑتا ہے تو اپنے پروردگار سے کہہ کہ ہمیں ایک ہی دفعہ مار ڈالے۔ اور یہ عذاب کا قصہ ختم ہو۔ مالک کہے گا۔ تمہارے جرائم کی سزا کے لیے بہت طویل مدت درکار ہے۔ لہذا مرجانے کا تصور ذہن سے نکال دو ۔ تمہیں زندہ رکھ کر ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ لہذا تمہیں یہیں رہنا ہوگا اور زندہ ہی رکھا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ونادوا یملک لیقض علینا ربک …:” قضی علیہ “ کا معنی کا م تمام کرنا، یعنی موت دے دینا ہے، جیسا کہ فرمایا :(فوکرہ موسیٰ فقضی علیہ) (القصص : ١٥)” تو موسیٰ نے اسے گھونسا مار اتو اس کا کام تمام کردیا۔ “” مالک “ جہنم کے خازن (دربان) فرشتے کا نام ہے۔ سمرہ بن جندب (رض) سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ خواب میں جبریل اور میاکئیل (علیہ السلام) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کروایا اور بعد میں ان کی حقیقت بیان کی۔ اس میں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فانطلقنا فاتینا علی رجل کر یہ المرآۃ کا کرہ ما انت راء رجلاً مرآۃ فاذا عندہ نار یحشھا ویسعی حولھا، قال قلت لھما ماھذا ؟ )” پھر ہم آگے بڑھے تو ایک آدمی کے پاس پہنچے جو دیکھنے میں بہت بدصورت تھا، اتنا جتنا کہ کوئی دیکھنے میں زیادہ سے زیادہ بدصورت ہوسکتا ہے۔ اس کے پاس آگ ہے، وہ اسے بھڑکا رہا ہے اور اس کے اردگرد دوڑ رہا ہے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں سے پوچھا :” یہ کون ہے ؟ “ حدیث کے آخر میں جب فرشتے نے سب چیزوں کے متعلق بتایا تو کہا (واما الرجل الکریہ المراۃ الذی عند النار یحشھا ویسعی حولھا فانہ مالک خازن بجھنم) (بخاری، التعبیر، باب تعبیر الرویا بعد صلاۃ الصبح :8038)” آگ کے پاس دیکھنے میں جو بدصورت آدمی تم نے دیکھا جو اسے بھڑکا رہا تھا اور اس کے گرد دوڑ رہا تھا وہ جہنم کا خازن مالک ہے۔ “ کفار جہنم کے فرشتوں کو اللہ سے ان کے عذاب میں کچھ نہ کچھ تخفیف کرنے کی دعا کے لئے کہیں گے۔ جب اس سے ناامید ہوں گے تو جہنم کے خازن مالک کو آواز دیں گے کہ اپنے رب سے دعا کر کہ ہمیں موت دے د۔ وہ کہے گا تم یہیں رہنے والے ہو۔ غرض وہ اس عذاب سے کسی طرح نجات نہیں پائیں گے۔ دوسری جگہ فرمایا :(والذین کفروا لھم نار جھنم، لایقضی علیھم فیموتوا ولا یخفف عنھم من عذابھا کذلک نجزی کل کفور (فاطر : ٣٦)” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مرجائیں اور نہ ان سے اس کا کچھ عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ایسے ہی ناشکرے کو بدلا دیا کرتے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ۝ ٧٧- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- مكث - المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29]- ( م ک ث ) المکث - کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جب اس عذاب پر صبر قابو سے باہر ہوجائے گا تو دوزخ کے داروغہ مالک کو پکاریں گے کہ تم ہی دعا کرو کہ تمہارا پروردگار ہمیں موت دے کر ہمارا خاتمہ کردے تو مالک فرشتہ چالیس سال بعد ان کو جواب دے گا کہ تم ہمیشہ اسی میں رہو گے نہ نکلو گے نہ مرو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ ” اور وہ ندا کریں گے کہ اے مالک اب تو آپ کا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ “- مالک سے یہاں مراد جہنم کا داروغہ ہے۔ اہل جہنم اسے مخاطب کر کے فریاد کریں گے کہ اب ہم سے عذاب کی سختی مزید نہیں جھیلی جاتی۔ آپ اپنے رب سے کہیں کہ وہ ہمیں موت دے کر ہمارا قصہ تمام کر دے۔- قَالَ اِنَّکُمْ مّٰکِثُوْنَ ” وہ جواب دے گا کہ تمہیں تو اب ہمیشہ (یہیں) رہنا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :61 مالک سے مراد ہے جہنم کا داروغہ جیسا کہ فحوائے کلام سے خود ظاہر ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: دوزخ کی نگرانی پر جو فرشتہ مقرر ہے، اس کا نام مالک ہے۔ دوزخی لوگ عذاب کی شدت سے تنگ آ کر مالک سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرو کہ وہ ہمیں موت ہی دیدے۔ جواب میں مالک کی طرف سے کہا جائے گا کہ تمہیں اسی دوزخ میں زندہ رہنا ہوگا۔