78۔ 1 یہ اللہ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز ہم کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔ اکثر سے مراد کل ہے یعنی سارے ہی جہنمی، یا پھر اکثر سے مراد رؤسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہونگے۔ حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔ آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔
[٧٣] یہ کلام دوزخ کے فرشتہ مالک کا بھی ہوسکتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کی حیثیت سے بات کر رہا ہو۔ اور خود اللہ تعالیٰ کا بھی۔ یعنی ایسی سخت سزا تمہیں اس لیے دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی سچی باتیں تم سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے تمہاری اسی اکڑ کا یہ علاج کیا جارہا ہے۔
لقد جئنکم بالحق ولکن اکثرکم…: اس ایٓ میں اللہ تعالیٰ کا خطاب اہل جہنم سے بھی مراد ہوسکتا ہے اور دنیا میں قریش اور دوسرے کفار سے بھی۔ پہلی صورت میں جو فرمایا کہ تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے تھے تو اس لئے کہ ان کے قلیل لوگ حق کو ناپسند کرنے والے نہیں تھے، وہ تو اپنے اکابر و سادات کی اندھا دھند پیروی کرنے کی وجہ سے کفر پر قائم رہنے والے تھے۔ اکثر وہی تھے جو حق کو پہچانتے تھے مگر اپنے مفادات اور خواہشات سے متصادم ہونے کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے۔ دوسری صورت میں دنیا میں کفار کا حال بیان فرمایا کہ ان کے اکثر حق آنے کے بعد اپنی خواہشات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے والے ہوتے ہیں۔ رہے کم لوگ تو وہ پسند یا ناپسند کی وجہ سے نہیں بلکہ تقلید کی وجہ سے کفر پر جمے رہتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - (اور اوپر جن سزاؤں کا بیان ہوا ان کی وجہ یہ ہے کہ) ہم نے سچا دین (جس کا رکن اعظم توحید و رسالت کا اعتقاد ہے) تمہارے پاس پہنچایا، لیکن تم میں سے اکثر آدمی سچے دین سے نفرت رکھتے ہیں (اکثر آدمی یا تو اس لئے کہا کہ بعض لوگ آئندہ ایمان لانے والے تھے، اور یا اس لئے کہ نفرت تو صحیح معنی میں بعض ہی کو تھی، دوسرے بعض محض تقلیداً راہ حق کو چھوڑے ہوئے تھے، اور یہ نفرت شامل ہے رسولوں کی مخالفت اور توحید کی مخالفت دونوں کو۔ آگے دونوں کی تفصیل ہے کہ) ہاں کیا انہوں نے (رسول کو نقصان پہنچانے کے بارے میں) کوئی انتظام درست کیا ہے، سو ہم نے بھی ایک انتظام درست کیا ہے (اور ظاہر ہے کہ خدائی انتظام کے سامنے ان کا انتظام نہیں چل سکتا، چناچہ آپ محفوظ رہے اور وہ لوگ ناکام، اور آخر کو بدر میں ہلاک ہوئے۔ اس کا مفصل ذکر سورة انفال رکوع چہارم (آیت) واذیمکربک الذین کفروا الخ میں ہے) ہاں (یہ لوگ جو آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیریں کرتے ہیں) کیا ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی چپکی چپکی (کہی ہوئی) باتوں کو اور ان کے (خفیہ) مشوروں کو نہیں سنتے (ورنہ اگر ہم کو سننے والا سمجھتے ہیں تو پھر ایسی جرأت کیوں کرتے ہیں ؟ آگے ان کے اس خیال کی تردید فرماتے ہیں کہ) ہم ضرور سنتے ہیں اور (اس کے علاوہ) ہمارے فرشتے (جو اعمال کو لکھنے والے ہیں) ان کے پاس ہیں وہ بھی لکھتے ہیں (اگرچہ اس کی ضرورت نہیں لیکن عام عادت یہ ہے کہ مجرم کے لئے پولیس کی لکھی ہوئی رپورٹ حاکم کے معائنہ سے زیادہ قابل ازام ہوتی ہے۔ یہ تو ان کی مخالفت رسول کا بیان ہوا، آگے توحید کی مخالفت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان مشرکین سے) کہئے کہ (تم جو اپنے بعض مشرکانہ اقوال میں حق تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہو تو) اگر (بفرض محال ایسا ہو یعنی) خدائے رحمن کے اولاد ہو تو سب سے اول اس کی عبادت کرنے والا میں ہوں (جس طرح تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہو، اسی طرح میں بھی اس صورت میں خدا کی اولاد کی عبادت کرتا۔ مطلب یہ کہ مجھ کو تمہاری طرح حق بات کے ماننے سے انکار نہیں، تم اگر ثابت کردو تو سب سے پہلے میں اس کو مانوں، اور جب اس کو خدا کی اولاد مان لوں تو چونکہ خدا کی اولاد بھی خدا ہی ہونی چاہئے اور خدا مستحق عبادت ہے، اس لئے میں اس کی عبادت بھی کروں، مگر چونکہ یہ امر باطل محض ہے اس لئے نہ میں مانوں گا اور نہ عبادت کروں گا۔ آگے شرک سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا بیان ہے یعنی) آسمانوں اور زمین کا مالک جو کہ عرش کا بھی مالک ہے ان باتوں سے منزہ ہے جو یہ (مشرک) لوگ (اس کی جناب میں) بیان کر رہے ہیں (جب یہ لوگ حق کے واضح ہونے کے باوجود اپنے عناد سے باز نہیں آتے) تو آپ ان کو اسی شغل اور تفریح میں رہنے دیجئے، یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ واقع ہو جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (اس وقت سب حقیقت معلوم ہوجائے گی اور ” رہنے دینے “ کا مطلب یہ نہیں کہ تبلیغ نہ کیجئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی مخالفت کی طرف التفات نہ کیجئے اور ان کے ایمان نہ لانے سے غمگین نہ ہوجئے) اور وہی ذات جو آسمانوں میں بھی قابل عبادت ہے اور زمین میں بھی قابل عبادت ہے اور وہی بڑی حکمت والا اور بڑے علم والا ہے (اور کوئی علم و حکمت میں اس کا شریک نہیں، پس خدائی بھی اسی کے ساتھ خاص ہے) اور وہ ذات بڑی عالیشان ہے جس کے لئے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو (مخلوق) ان کے درمیان میں ہے اس کی سلطنت ثابت ہے اور (علم ایسا کامل ہے کہ) اس کو قیامت کی خبر (بھی) ہے (جس کا کسی مخلوق کو پتہ نہیں) اور (جزا و سزا کا مالک بھی وہی ہے چنانچہ) تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (اور اس کو حساب دو گے) اور (اس وقت اللہ تعالیٰ کا بلاشرکت غیرے جزا و سزا کا مالک ہونا ایسا ظاہر و باہر ہوگا کہ) خدا کے سوا جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش (تک) کا اختیار نہ رکھیں گے ہاں جن لوگوں نے حق بات (یعنی کلمہ ایمان) کا اقرار کیا تھا اور وہ (دل سے) تصدیق بھی کرتے تھے (وہ البتہ باذن الٰہی اہل ایمان کی سفارش کرسکیں گے مگر اس سے کفار کو کیا فائدہ ؟ ) اور (ہم نے جو اوپر توحید کا مضمون بیان کیا ہے جس میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں، سو اس کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو (یعنی تم کو) کس نے پیدا کیا ہے تو یہی کہیں گے کہ اللہ نے (پیدا کیا ہے) سو (ظاہر ہے کہ مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو پیدا کرنے پر قادر ہو۔ پس) یہ لوگ (مقدمات کو تو مانتے ہیں مگر پھر مطلوب کے ماننے کے وقت خدا جانے) کدھر الٹے چلے جاتے ہیں (ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ ان کافروں کے جرائم کس قدر سخت ہیں، لہٰذا سزا بھی یقینا سخت ہوگی۔ اور آگے سزا کی سختی کو اور زیادہ موکد کرنے کے لئے ایک اور بات کا بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو قیامت کی خبر ہے اسی طرح) اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ (باوجود میری اس درجہ فہمائش کے) ایمان نہیں لاتے (اس سے سزا کی سختی اور بڑھ گئی کہ جرائم تو سخت تھے ہی ان کے ساتھ رسول کی نالش بھی موجود ہے، پس سمجھ لینا چاہئے کہ کیسا سخت عذاب ہوگا۔ اور جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کا انجام یہ ہونے والا ہے) تو آپ ان سے بےرخ رہیئے (یعنی ان کے ایمان کی ایسی امید نہ رکھئے جو بعد میں موجب رنج ہو) اور (اگر وہ آپ سے مخالفت اور جہالت کی بات کریں تو آپ رفع شر کے لئے) یوں کہہ دیجئے کہ تم کو سلام کرتا ہوں (اور کچھ نہیں کہتا اور نہ کچھ واسطہ رکھتا ہوں، آگے حق تعالیٰ تسلی کیلئے فرماتے ہیں کہ آپ چندے صبر کیجئے) سو ان کو ابھی (مرتے ہی) معلوم ہوجاوے گا۔
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِہُوْنَ ٧٨- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔
جبریل امین ہماری طرف سے تمہارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قرآن حکیم لے کر آئے مگر تم میں سے اکثر رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں۔
آیت ٧٨ لَقَدْ جِئْنٰـکُمْ بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کٰرِہُوْنَ ” ہم تو تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے لیکن تمہاری اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے۔ “- اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعے تمہارے پاس سچا دین اور سچی تعلیمات پہنچا دی تھیں ‘ لیکن تم میں سے اکثر لوگ حق سے بیزار ہی رہے ‘ جس کا نتیجہ آج تمہارے سامنے ہے۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :62 یعنی ہم نے حقیقت تمہارے سامنے کھول کر رکھ دی ، مگر تم حقیقت کے بجائے افسانوں کے دلدادہ تھے اور سچائی تمہیں سخت ناگوار تھی ۔ اب اپنے اس احمقانہ انتخاب کا انجام دیکھ کر بلبلاتے کیوں ہو ؟ ہو سکتا ہے کہ یہ داروغہ جہنم ہی کے جواب کا ایک حصہ ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب تم یوں ہی پڑے رہو گے پر ختم ہو گیا ہو اور یہ دوسرا فقرہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہو ۔ پہلی صورت میں داروغہ جہنم کا یہ قول کہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے ایسا ہی ہے جیسے حکومت نے یہ کام کیا یا یہ حکم دیا ۔