79۔ 1 یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے ؟
[٧٤] کفار مکہ کا اقدام یہ تھا کہ اسلام کی دعوت کو کبھی پروان نہ چڑھنے دیں گے۔ اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی وہ قرآن اونچی آواز سے پڑھنے پر مسلمانوں پر پابندی لگاتے اور کبھی اپنے آپ پر اور کہتے کہ یہ ہماری ہی غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کی دعوت پھیلتی جارہی ہے۔ کبھی باہر سے مکہ آنے والوں سے ملاقاتیں کرتے اور کہتے اس شخص کے قریب نہ جانا جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے کیونکہ یہ رشتہ داروں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے۔ اور کبھی پیغمبر اسلام کو مار ڈالنے کی تدبیریں کرتے غرض اس جملہ میں کفار مکہ کی سب معاندانہ سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ اور جو بھی تدبیر وہ سوچتے تھے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی تھی۔ تاآنکہ ان کی سب تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ ان کے سینے جلتے رہے اور اسلام غالب ہوتا چلا گیا۔
ام ابرموآ امراً فانا مبرمون :” ابرام “ کا معنی کسی چیز کو پختہ اور مضبوط کرنا ہے۔ اصل میں یہ رسی کو مضبوطی کے ساتھ بٹنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے :” ابرم فلان الحبل “ ” فلاں نے رسی کو خوب مضبوط کیا۔ “ یعنی یا انہوں نے کسی کام کی پختہ تدبیر اور اس کا پکا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس سے مراد کفار کی خفیہ مجلسوں میں ان کے طے کردہ فیصلے میں جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قید یا قتل کرنے یا مکہ سے نکلنے کا پکا فیصلہ کرلیا۔ (دیکھیے انفال : ٣٠) فرمایا، انہوں نے ایسے کسی کا م کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو ہم بھی پکی تدبیر کرنے والے ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کس طرح ناکام و نامراد ہوئے اور اللہ کا دین کس طرح غالب رہا۔
اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ ٧٩ ۚ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- برم - الإِبْرَام : إحكام الأمر، قال تعالی: أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف 79] ، وأصله من إبرام الحبل، وهو تردید فتله، قال الشاعر :- علی كلّ حال من سحیل ومبرم والبرِيمُ : المُبْرَم، أي : المفتول فتلا محکما، يقال : أَبْرَمْتُهُ فبَرِمَ ، ولهذا قيل للبخیل الذي لا يدخل في المیسر : بَرَم كما يقال للبخیل :- مغلول الید . والمُبْرِم : الذي يلحّ ويشدّد في الأمر تشبيها بمبرم الحبل، والبرم کذلک، ويقال لمن يأكل تمرتین تمرتین : بَرَمٌ ، لشدة ما يتناوله بعضه علی بعض، ولما کان البریم من الحبل قد يكون ذا لونین سمّي كلّ ذي لونین به من جيش مختلط أسود وأبيض، ولغنم مختلط، وغیر ذلك . والبُرْمَةُ في الأصل هي القدر المبرمة، وجمعها بِرَامٌ ، نحو حفرة وحفار، وجعل علی بناء المفعول، نحو : ضحكة وهزأة . ( ب ر م ) الابرام کے معنی کسی معاملہ کو محکم اور مضبوط کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمْ أَبْرَمُوا أَمْراً فَإِنَّا مُبْرِمُونَ [ الزخرف 79] کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا رکھی ہے تو ہم بھی کچھ ٹھہرانے والے ہیں ۔ یہ اصل میں ابرام الحبل سے ماخوذ ہے جس کے معنی رسی کو مضبوط بنئے کے ہیں شاعر نے کہا ی ( طویل ) یعنی ہر حالت میں ( تم قابل ستائش ہو ) البریم بمعنی مبرم یعنی مضبوط بٹی ہوئی رسی محاورہ ہے ۔ اسی بنا پر کنجوس آدمی کو جو جو انہ کھیلتا ہو برم کہا جاتا ہے جیسا کہ بخیل کو مغلول الید کہتے ہیں ۔ اور مبرم الحبل کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس آدمی کو جو کسی معاملہ میں مصر اور بضدر ہو اسے المبرم کہا جاتا ہے یہی معنی البرم کے ہیں اور جو آدمی دو دو کھجوریں ملا کر کھاتا ہو اسے بھی برم کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سختی کے ساتھ کھانا کے معنی پائے جاتے ہیں اور رسی کبھی دو رنگ پر ہوتی ہے اس لئے ہر سیاہ سفید پر مشرمل لشکر ادر بکریوں کے ملے جلے ریوڑ کو بریم کہا جاتا ہے البرمۃ اصل میں پتھری کی ہنڈیا کو کہتے ہیں ج برام جیسے حضرۃ کی جمع حضار اور یہ اور یہ کی طرح مفعول کے اذران سے ہے ۔
کیا انہوں نے رسول اکرم کی شان کے بارے میں اپنا کوئی انتظام درست کیا ہے سو ہم نے بھی ان کی ہلاکت کے بارے میں ایک انتظام درست کیا ہے۔
آیت ٧٩ اَمْ اَبْرَمُوْٓا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ ” کیا انہوں نے کوئی قطعی فیصلہ کرلیا ہے ؟ تو ہم بھی ایک قطعی فیصلہ کیے لیتے ہیں۔ “- حق و باطل کی اس کشمکش میں مشرکین ِمکہ ّنے اگر حق کو نہ ماننے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ہم بھی ان کے بارے میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :63 اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے کر رہے تھے ۔
20: مکہ مکرمہ کے کافر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خفیہ منصوبے بناتے رہتے تھے، مثلاً انہوں نے آپ کو گرفتار کرنے یا قتل کرنے کے لیے سازش تیار کی تھی جس کا ذکر سورۃ انفال : 30 میں گذرا ہے۔ اسی قسم کی کسی سازش کے موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ اگر انہوں نے آپ کے خلاف کچھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی سازش خود انہی کے خلاف پڑے گی۔