88۔ 1 اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوہ کا علم ہے۔
[٨٠] ایسا وقت غالباً سب پیغمبروں پر آتا ہے۔ جب وہ اپنی قوم کو سمجھانے میں اپنی جان تک کھپا دیتے ہیں۔ پھر بھی اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں تو پیغمبروں کی بات سمجھنے کی بجائے ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تو اس وقت پیغمبر ایسی قوم کے ایمان لانے سے سخت مایوس ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان سے بےساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) نے بھی اسی طرح مایوس ہو کر دعا کی تھی کہ : یا اللہ اب ان کافروں میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ۔ کیونکہ ان بدبختوں کے ہاں جو اولاد ہوگی مجھے ان سے بھی ایمان لانے کی توقع نہیں رہی۔ ان کی اولاد بھی فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگی (٧١: ٢٧) کچھ ایسی صورت حال رسول اللہ کی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اس مخلصانہ التجا اور درد بھری آواز کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ لہذا اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا اور اپنی رحمت سے ان کو غالب اور اپنے کلمہ کو سربلند کرے گا۔
وقیلہ یرب ان ھولآء …:” قیل ، قال “ اور ” قول “ تینوں ’ قال یقول “ کے مصدر ہیں، معنی ہے کہنا۔” قتیلہ “ میں ضمیر ” ہ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس آیت کی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں سب سے واضح تین ہیں ۔ پہلی یہ کہ ” وقیلہ یرب “ قسم ہے : ای اقسم بقولہ یا رب “ اور ” ان ھولآء قوم لایومنون “ جواب قسم ہے۔ یہ تفسیر زمخشری نے کی ہے اور ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رسول کے ” یا رب یا رب “ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ یقیناً یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔ اگلی آیت میں فرمایا :(فاصفح عنھم و قل سلم) اس لئے ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔- دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ ساری آیت قسم ہے، جواب اس کا محذوف ہے جو قرینے سے معلوم ہو رہا ہے۔ قرینے کے پیش نظر قسم کا جواب حذف کرنا کلام عرب میں عام ہے۔ یعنی میں رسول کے ” اے میرے رب یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں “ کہنے کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ضرور کافروں کے اس رویے کے خلاف اس کی مدد کروں گا۔ قرینہ اگلی آیت ہے کہ پس تو ان سے درگزر کر اور کہہ سلام ہے، کیونکہ وہ بہت جلد جان لیں گے کہ رسول کی مدد کیسے ہوتی ہے اور ان لوگوں سے انتقام کیسے لیا جاتا ہے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ واؤ بمعنی ” رب “ ہے جو حرف جا رہے،” قیلہ “ اس کے ساتھ مجرور ہے۔ یعنی کئی دفعہ رسول کا حسرت و افسوس کے ساتھ کہنا یہ ہوتا ہے کہ اے میرے رب یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہی نہیں۔- ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ” وقیلہ “ میں ” قیل “ کا عطف اوپر گزری ہوئی آیت ” عندہ علم الساعۃ “ میں لفظ ” الساعۃ “ پر ہے، یعنی ” وعندہ علم الساعۃ و علم قیلہ یا رب ھولا قوم لایومنون “ یعنی ” اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا بھی کہ اے میرے رب یہ تو ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ “ مگر معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ بعید بات ہے۔
(آیت) وَقِيْلِهٖ يٰرَبِّ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ۔ یہ جملہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ ان کافروں پر غضب خداوندی نازل ہونے کے کتنے شدید اسباب موجود ہیں۔ ایک طرف تو ان کے جرائم فیہ نفسہ سخت ہیں، دوسری طرف وہ رسول جو رحمتہ للعالمین اور شفیع المذنبین بنا کر بھیجے گئے ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خود ان لوگوں کی شکایت کریں اور یہ فرمائش کہ یہ لوگ بار بار فہمائش کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر اذیت پہنچائی ہوگی، ورنہ معمولی تکلیف پر رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے ایسی پردرد شکایت نہ فرماتے۔ اس تفسیر کے مطابق وقیلہ ایک آیت پہلے کے لفظ الساعة پر معطوف ہے، اس آیت کی اور بھی متعدد تفسیریں کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہاں واؤ عطف کی نہیں بلکہ قسم کی ہے۔ یا رب ” قیل “ کا مقولہ ہے اور ان ھولاء الخ جواب قسم ہے۔ ان تفسیروں کی تفصیل اہل علم روح المعانی وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔
وَقِيْلِہٖ يٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُوْنَ ٨٨ ۘ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
اور اس کو رسول اکرم کی اس درخواست کی بھی خبر ہے کہ اے پروردگار یہ لوگ تجھ پر اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے سو ان کے بارے جو کرنا ہے وہ کیجیے۔
آیت ٨٨ وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ” اور قسم ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لا رہے۔ “- یہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کا انداز ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہاں نقل ہوا ہے کہ اے میرے پروردگار میری یہ قوم ہٹ دھرمی اور ضد پر اترآئی ہے۔ نہ تو یہ لوگ میری باتوں کو سنتے ہیں اور نہ ہی بطور نبی کے میری تصدیق کرنے کو تیار ہیں۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :70 یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے ۔ مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے ، یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے ، اور اس کا تعلق : فَاَنّیٰ یُؤْفَکُوْنَ سے ہے ، اور قِیْلِہ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ : قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں ۔ رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں ، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے ، اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو ۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے ، فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں ۔
23: یہ جملہ یہ واضح کرنے کے لیے لایا گیا ہے کہ ان کافروں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہونے کے کتنے شدید اسباب موجود ہیں۔ ایک طرف تو ان کے جرائم بذات خود بڑے سخت ہیں، اور دوسری طرف حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین ہیں، وہ ان کی سفارش کے بجائے ان کی شکایت کریں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے آپ کو کتنی اذیتیں پہنچائی ہوں گی، ورنہ معمولی بات پر آپ جو سراپا رحمت ہیں ایسی پر درد شکایت نہ فرماتے۔