[٧٩] یعنی مقدمہ کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کے منطقی نتیجہ کا انکار کردیتے ہیں۔ اصل میں یہ سوال یوں بنتا ہے کہ تمہارے بتوں نے نہ تو تمہیں پیدا کیا ہے۔ نہ تمہارے نفع و نقصان کے مالک ہیں پھر وہ تمہاری عبادت کے حقدار کیسے بن گئے ؟ یہ دھوکا تمہیں کہاں سے لگ جاتا ہے کہ تمہیں پیدا کرنے والا اور تمہاری حاجات پوری کرنے والا تو اللہ ہو اور پرستش تم اللہ کی بجائے دوسروں کی کرنے لگ جاؤ ؟
(١) ولئن سالتھم من خلقھم…:- اس آیت میں مشرکین کے قول و فعل کا تضاد واضح فرمایا ہے، یعنی جب مانتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تو پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کیوں کرتے ہیں ؟ مالک کو چھوڑ کر ان کو مشکل کشا اور حاجت روا کیسے مان بیٹھے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا۔- (٢) فانی یوفکون : یعنی پھر بہکانے والے انہیں بہکا کر کہاں لے جا رہے ہیں ؟ ایک معنی ” فانی یوفکون “ کا یہ بھی ہے ” من ابن یوفکون “ کہ پھر و کہاں سے بہکائے جاتے ہیں، کون سی دلیل یا کیا سبب ہے جس کی وجہ سے یہ بہکائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اصل میں توحید پر ہوتا ہے۔ پھر شیاطین انسان ہوں یا جن اسے توحید سے بہکا کر شرک میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں سے بہت ہوشیار اور خبردار رہنا چاہیے، جیسا کہ عیاض بن حمار المجاشعی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن اپنے خطبہ میں فرمایا :(الا ان ربی امرنی ان اعلمکم ما جھلتم ما علمنی یومی ھذا کل مال نحلنہ عبدحلال و انی خلقت عبادی حنفاء کلھم وانھم انتھم الشاطین فاجتلھم عن دینھم و حرمت علیھم ما اخلک لھم و امرتھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہ سلطانا) (مسلم ، الجنۃ وصفۃ نعیمھا و اھلھا، باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا اھل الجنۃ و اھل النار :2865) ” سنو میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں وہ باتیں سکھاؤں جن سے تم ناواقف ہو، ان باتوں میں سے جو اس نے مجھے آج سکھائی ہیں۔ (وہ فرماتا ہے کہ) ہر وہ مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (وہ اس کے لئے) حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو خنفاء ایک اللہ کی طرف ہوجانے والے) پیدا کیا، ان کے پاس شیاطین آئے تو انہوں نے انھیں ان کے دین سے بہکا دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کردیں جو میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنائیں جن کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ “
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ٨٧ ۙ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔
اور اگر آپ بنو ملیح سے یہ پوچھیں کہ تمہیں کس نے پیدا کیا تو یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو پھر اس اقرار کے باوجود کیوں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہو۔
آیت ٨٧ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ” اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے “- یعنی اگر آپ ان سے پوچھیں کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے۔ اس فقرے کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر آپ ان سے ان کے معبودوں کے بارے میں پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو بھی وہ جواب میں کہیں گے کہ انہیں بھی اللہ نے ہی بنایا ہے۔- فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ” تو پھر یہ کہاں سے پھیر دیے جاتے ہیں “
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :69 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے ۔ دوسرے یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کے معبودوں کا خالق کون ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ ۔