86۔ 1 یعنی دنیا میں جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے ان معبودوں کو شفاعت کا قطعًا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ 86۔ 2 حق بات سے مراد کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ اقرار بھی علم و بصیرت کی بنیاد ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو یعنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے۔
[٧٨] سفارش کی اجازت کیسے لوگوں کو ہوگی اور کن کے حق میں ہوگی ؟:۔ یعنی ایسے معبود جن کو لوگوں نے معبود قرار دے لیا تھا حالانکہ وہ علیٰ وجہ البصیرت حق کے گواہ اور اس کے علمبردار تھے، وہ سفارش کرسکیں گے۔ جیسے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) یا سیدنا عزیر (علیہ السلام) یا فرشتے یا وہ بزرگ جنہیں لوگوں نے الوہیت کا مقام دے رکھا تھا مگر وہ خود ساری عمر شرک سے منع کرتے رہے اور کلمہ حق یعنی توحید کے علمبردار بنے رہے ایسے لوگوں کو اللہ سفارش کرنے کی اجازت دے گا مگر ان لوگوں کی نہیں جنہوں نے انہیں معبود بنا رکھا تھا بلکہ صرف ان گنہگاروں کے حق میں سفارش کرسکیں گے جنہوں نے کلمہ حق یعنی توحید کی علم و یقین کے ساتھ شہادت دی ہوگی اور ان سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوگئے ہوں گے۔ ضمناً اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواہی وہی معتبر ہوسکتی ہے جس کی بنیاد علم و یقین پر ہو۔ اور مشرک جو اپنے معبودوں کے معبود ہونے پر گواہی دیتے ہیں۔ چونکہ اس گواہی کی بنیاد نہ علم (یعنی نقلی دلیل) پر ہے اور نہ یقین پر ہے بلکہ وہم و قیاس پر ہے۔ لہذا ان کے معبودوں کے حق میں ان کی گواہی مردود ہے مقبول نہیں۔ دنیا میں تو وہ ایسی گواہی دے رہے ہیں مگر آخرت میں ایسی گواہی نہیں چلے گی۔
(١) ولا یملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ …: پچھلی آیت میں ” من دون اللہ “ کے پاس آسمانوں اور زمین کی اور ان کے درمیان کی کسی بھی چیز کی ملک ہونے کی نفی تھی، اس آیت میں ان سے شفاعت کی مل کیت کی بھی نفی فرما دی۔- (٢) اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، دونوں مراد ہوسکتی ہیں اور یہ قرآن کا اعجاز ہے۔ پہلی یہ کہ مشرکین جن ہستیوں کو یہ سمجھ کر پکارتے ہیں کہ وہ ان کی شفاعت کریں گی ان کے پاس شفاعت کا کوئی اختیار نہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے کلمہ حق یعنی ” لا الہ الا اللہ “ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ وہ اس کا یقین رکھتے تھے، مثلاً فرشتے، عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کے دوسرے مقرب بندے۔ وہ چونکہ حق (توحید) کا یقین رکھ کر اس کی گواہی دیتے تھے اور انہوں نے کبھی لوگوں کو پانی عبادت کا حکم نہیں دیا، اس لئے وہ اللہ کے اذن سے سفارش کرسکیں گے۔ رہے بت اور دوسرے جھوٹے مشکل کشا اور حاجت روا، جن کی مشرکین پوجا کرتے ہیں، وہ تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکیں گے بلکہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے، کسی کی سفارش کیا کریں گے ؟ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” من شھد بالحق “ سے پہلے لازم جارہ محذوف ہے :” ای الا لمن شھد بالحق “ یعنی سفارش کرنے والوں کو صرف ان لوگوں کے حق میں سفارش کا اختیار دیا جائے گا جنہوں نے حق یعنی کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ اس کا علم اور یقین بھی رکھتے تھے۔ رہے کفار یا منافقین، تو ان کے حق میں کوی شفاعت نہیں کرے گا۔ شفاعت کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیے آیت الکرسی، سورة مریم (٨٧) ، سبا (٢٣) ، نجم (٢٦) اور سورة نبا (٣٨) ۔- (٣) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہادت وہی معتبر ہے جو علم کے ساتھ دی جائے۔ دنیا میں اگرچہ ہر اس شخص کو مسلمان تصور کرلیا جاتا ہے جو زبانی کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ کی شہادت دے، مگر قیامت کے دن اسی کی شہادت معتبر ہوگی جس نے دل کے یقین کیساتھ یہ شہادت دی ہوگی۔
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ يَعْلَمُوْنَ ٨٦- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً- [ مریم 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً- [ النساء 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه .- وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] ، أي :- يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ»- الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔
شہادت ، علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے - قول باری ہے (الا من شھد بالحق وھم یعلمون۔ ہاں جن لوگوں نے حق کے بارے میں گواہی دی اور وہ جانتے بھی ہیں) آیت دو باتوں کو متضمن ہے۔ اول یہ کہ حق کی گواہی علم کے ساتھ ہی نافع ہوتی ہے۔ نیز مسلک کی صحت کا علم نہ ہونے کی صورت میں اس کی تقلید کا کوئی فائدہ نہیں۔ دوم یہ کہ حقوق اور غیر حقوق کے بارے میں دی جانے والی تمام گواہیوں کی شرط یہ ہے کہ گواہی دینے والے کو ان کا علم بھی ہو۔- اس مضمون کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بھی ہے آپ نے فرمایا (اذارایت مثل الشمس فاشھدوا الافدع۔ اگر تم نے کوئی واقعہ اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جس طرح تم سورج کو دیکھ رہے ہو تو اس کی گواہی دو ورنہ چھوڑ دو )
اور جھوٹے معبود اور فرشتے کسی کے لیے سفارش تک کا حق بھی نہیں رکھیں گے مگر جن لوگوں نے کلمہ طیبہ کا خلوص کے ساتھ اقرار کیا تھا اور وہ دل سے اس کی تصدیق بھی کیا کرتے تھے، بنو ملیح فرشتوں کو نعوذ باللہ اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٨٦ وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ” اور کوئی اختیار نہیں رکھتے کسی بھی شفاعت کا جن کو یہ پکار رہے ہیں اللہ کے سوا ‘ سوائے اس کے کہ جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے ہوں۔ “- ظاہر بات ہے وہاں تو کوئی غلط بات زبان سے نہیں نکال سکے گا ‘ لہٰذا وہاں پر گواہی صرف حق ہی کی ہوگی۔
سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :68 اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں : ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں ۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے ۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ ( نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی ۔ دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر ( نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ ) حق کی شہادت دی ہو ۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا ، یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا الٰہ الا اللہ بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا ۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں ، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں ، تو وہ غلط کہتا ہے ۔ یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے ۔ جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے ۔ لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اور یقیناً نہیں ہے ، تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر ، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو ، اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے ۔ اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں ۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو ، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے ۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا ، ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے ۔ لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے ۔ ثانیاً ، اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے ۔ گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے ۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذا رأیت مثل الشمس فاشہد و الّا فدع ( احکام القرآن للجصّاص ) اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے دے ۔
22: یعنی جن بتوں وغیرہ کو مشرکین نے اس اعتقاد سے خدائی میں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے تو درحقیقت ان کو سفارش کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ کسی کے بارے میں سچی گواہی دیں، اور پورے علم کے ساتھ دیں کہ وہ واقعی مومن تھا تو اس کی گواہی بیشک قبول کی جائے گی اور اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ’’ جن لوگوں نے حق کی گواہی دی ہو‘‘ سے مراد وہ ہیں جنہوں نے ایمان قبول کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا پیغمبر ہونے کی گواہی دی ہو، ایسے لوگوں کی سفارش اللہ تعالیٰ کی اجازت سے قبول کی جائے گی۔