اصلی زاد راہ تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ان مشرکین سے دریافت کرو تو یہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر یہی اس کی وحدانیت کو جان کر اور مان کر عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جس نے زمین کو فرش اور ٹھہرئی ہوئی قرار گاہ اور ثابت و مضبوط بنایا جس پر تم چلو ، پھرو ، رہو ، سہو ، اٹھو ، بیٹھو ، سوؤ ، جاگو ۔ حالانکہ یہ زمین خود پانی پر ہے لیکن مضبوط پہاڑوں کے ساتھ اسے ہلنے جلنے سے روک دیا ہے اور اس میں راستے بنا دئیے ہیں تاکہ تم ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچ سکو اسی نے آسمان سے ایسے انداز سے بارش برسائی جو کفایت ہو جائے کھیتیاں اور باغات سر سبز رہیں پھلیں پھولیں اور پانی تمہارے اور تمہارے جانوروں کے پینے میں بھی آئے پھر اس مینہ سے مردہ زمین زندہ کر دی خشکی تری سے بدل گئی جنگل لہلہا اٹھے پھل پھول اگنے لگے اور طرح طرح کے خوشگوار میوے پیدا ہوگئے پھر اسی کو مردہ انسانوں کے جی اٹھنے کی دلیل بنایا اور فرمایا اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے اس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے کھیتیاں پھل پھول ترکاریاں اور میوے وغیرہ طرح طرح کی چیزیں اس نے پیدا کر دیں ۔ مختلف قسم کے حیوانات تمہارے نفع کے لئے پیدا کئے کشتیاں سمندروں کے سفر کے لئے اور چوپائے جانور خشکی کے سفر کے لئے مہیا کر دئیے ان میں سے بہت سے جانوروں کے گوشت تم کھاتے ہو بہت سے تمہیں دودھ دیتے ہیں بہت سے تمہاری سواریوں کے کام آتے ہیں ۔ تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں تم ان پر سواریاں لیتے ہو اور خوب مزے سے ان پر سوار ہوتے ہو ۔ اب تمہیں چاہیے کہ جم کر بیٹھ جانے کے بعد اپنے رب کی نعمت یاد کرو کہ اس نے کیسے کیسے طاقتور وجود تمہارے قابو میں کر دئیے اور یوں کہو کہ وہ اللہ پاک ذات والا ہے جس نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا اگر وہ اسے ہمارا مطیع نہ کرتا تو ہم اس قابل نہ تھے نہ ہم میں اتنی طاقت تھی ۔ اور ہم اپنی موت کے بعد اسی کی طرف جانے والے ہیں اس آمدورفت سے اور اس مختصر سفر سے سفر آخرت یاد کرو جیسے کہ دنیا کے توشے کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے آخرت کے توشے کی جانب توجہ دلائی اور فرمایا توشہ لے لیا کرو لیکن بہترین توشہ آخرت کا توشہ ہے اور دنیوی لباس کے ذکر کے موقعہ پر اخروی لباس کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا لباس تقوٰی افضل و بہتر ہے ، ـ سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعاؤں کی حدیثیں حضرت علی بن ربیعہ فرماتے ہیں حضرت علی جب اپنی سواری پر سوار ہونے لگے تو رکاب پر پیر رکھتے ہی فرمایا ( بسم اللہ ) جب جم کر بیٹھ گئے تو فرمایا دعا ( الحمد للہ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون ) پھر تین مرتبہ ( الحمد للہ ) اور تین مرتبہ ( اللہ اکبر ) پھر فرمایا دعا ( سبحانک لا الہ الا انت قد ظلمت نفسی فاغفرلی ) پھر ہنس دئیے ۔ میں نے پوچھا امیر المومنین آپ ہنسے کیوں ؟ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے یہ سب کچھ کیا پھر ہنس دئیے تو میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب دیا کہ جب بندے کے منہ سے اللہ تعالیٰ سنتا ہے کہ وہ کہتا ہے ( رب اغفرلی ) میرے رب مجھے بخش دے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور فرماتا ہے میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا ۔ یہ حدیث ابو داؤد ترمذی نسائی اور مسند احمد میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ٹھیک جب بیٹھ گئے تو آپ نے تین مرتبہ ( اللہ اکبر ) کا تین مرتبہ ( سبحان اللہ ) اور ایک مرتبہ ( لا الہ الا اللہ ) کہا پھر اس پر چت لیٹنے کی طرح ہو کر ہنس دئیے اور حضرت عبد اللہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے جو شخص کسی جانور پر سوار ہو کر اس طرح کرے جس طرح میں نے کیا تو اللہ عزوجل اس کی طرف متوجہ ہو کر اسی طرح ہنس دیتا ہے جس طرح میں تیری طرف دیکھ کر ہنسا ( مسند احمد ) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی اپنی سواری پر سوار ہوتے تین مرتبہ تکبیر کہہ کر ان دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کرتے پھر یہ دعا مانگتے ( اللھم انی اسئلک فی سفری ھذا البر والتقوی و من العمل ما ترضی اللھم ھون علینا السفر اطولنا البعد اللھم انت الصاحب فی السفر و الخلیفۃ فی الاھل اللھم اصبحنا فی سفرنا واخلفنا فی اھلنا ) یا اللہ میں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری کا طالب ہوں اور ان اعمال کا جن سے تو خوش ہو جائے اے اللہ ہم پر ہمارا سفر آسان کر دے اور ہمارے لئے دوری کو لپیٹ لے پروردگار تو ہی سفر کا ساتھی اور اہل و عیال کا نگہباں ہے میرے معبود ہمارے سفر میں ہمارا ساتھ دے اور ہمارے گھروں میں ہماری جانشینی فرما ۔ اور جب آپ سفر سے واپس گھر کی طرف لوٹتے تو فرماتے دعا ( ائبون تائبون ان شاء اللہ عابدون لربنا حامدون ) یعنی واپس لوٹنے والے توبہ کرنے والے انشاء اللہ عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی تعریفیں کرنے والے ( مسلم ابو داؤد نسائی وغیرہ ) ابو لاس خزاعی فرماتے ہیں صدقے کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سواری کے لئے ہمیں عطا فرمایا کہ ہم اس پر سوار ہو کر حج کو جائیں ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نہیں دیکھتے کہ آپ ہمیں اس پر سوار کرائیں ۔ آپ نے فرمایا سنو ہر اونٹ کی کوہان میں شیطان ہوتا ہے تم جب اس پر سوار ہو تو جس طرح میں تمہیں حکم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو پھر اسے اپنے لئے خادم بنا لو ، یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہی سوار کراتا ہے ۔ ( مسند احمد ) حضرت ابو لاس کا نام محمد بن اسود بن خلف ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر اونٹ کی پیٹھ پر شیطان ہے تو تم جب اس پر سواری کرو تو اللہ کا نام لیا کرو پھر اپنی حاجتوں میں کمی نہ کرو ۔
1 ۔ ولئن سالتہم من خلق السموات والارض : یہاں سے کفار کے قول و فعل کا تضاد واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہونے کو ناممکن قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ یقیناً کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ تو پھر یہ کیا ستم ہے کہ یہ لوگ اس ذات کے ساتھ جس نے آسمان و زمین اور پوری کائنات کو پیدا کیا، ایسی ہستیوں کو شریک کر رہے ہیں جنہوں نے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ پھر ظاہر ہے کہ یہ بات کہ آسمانوں اور زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، پہلے رسولوں کے بتانے ہی سے لوگوں کو معلوم ہوئی۔ اہل عرب کو بھی اس بات کا علم ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بتانے سے ہوا، کیونکہ عوام الناس اتنی اہلیت ہی نہیں رکھتے کہ کائنات کی حقیقتیں خود معلوم کرسکیں، تو جب پہلے رسولوں کو مانتے ہیں تو انہی کی تعلیم لے کر آنے والے اس پیغمبر پر کیوں ایمان نہیں لاتے، ایک طرف تو یہ اللہ تعالیٰ کو اس وقت آسمان و زمین پیدا کرنے پر قادر مانتے ہیں جب ان کا وجود ہی نہیں تھا تو دوسری طرف اسے اتنا بےبس قرار دیتے ہیں کہ وہ اس چیز کو دوبارہ نہیں بنا سکتا جو اس نے پہلے بنائی تھی۔- 2 ۔ لیقولن خلقہن العزیز العلیم : مشرکین عرب کی طرف سے اس سوال کا جواب کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا۔ یہی تھا کہ انہیں اللہ نے پیدا کیا ہے، جیسا کہ سورة لقمان 25 اور سورة زمر 38 میں فرمایا : ولئن سالتہم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ۔ اور بلا شبہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ یہاں اسی بات کو ان الفاظ میں ادا فرمایا کہ وہ کہیں گے کہ انہیں اسی عزیز و حلیم نے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ ان کے اس اعتراف کا کہ انہیں اللہ نے پیدا کیا۔ لازمی تقاضا ہے کہ وہ یہ اعتراف بھی کریں گے کہ وہ عزیز و حلیم ہے، کیونکہ کامل غلبے اور کمال علم کے بغیر آسمان و زمین کا پیدا کرنا ممکن نہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور ہی کہیں گے کہ ان کو زبردست جاننے والے (خدا) نے پیدا کیا ہے (اور ظاہر ہے کہ جس ذات نے تنہا یہ عظیم مخلوقات پیدا کی ہوں عبادت بھی تنہا اسی کی کرنی چاہئے، لہٰذا توحید خود ان کے اعتراف سے ثابت ہوگئی۔ آگے اللہ تعالیٰ توحید کو مزید مدلل کرنے کے لئے اپنے وہ افعال بیان فرماتے ہیں جو توحید پر دلالت کرنیوالے ہیں یعنی یہ زمین و آسمان اس نے پیدا کیے ہے) جس نے تمہارے (آرام کے) لئے زمین کو (مثل) فرش (کے) بنایا (کہ اس پر آرام کرتے ہو) اور اس (زمین) میں اس نے تمہارے (منزل مقصود تک پہنچنے کے) لئے رستے بنائے تاکہ (ان راستوں پر چل کر) تم منزل مقصود تک پہنچ سکو اور جس نے آسمان سے پانی ایک انداز (خاص) سے (اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق) برسایا پھر ہم نے اس (پانی) سے خشک زمین کو (اس کے مناسب) زندہ کیا (اور اس سے توحید و دلالت کے علاوہ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ) اسی طرح تم (بھی اپنی قبروں سے) نکالے جاؤ گے اور جس نے (مختلف اجناس و انواع میں) تمام (مختلف) اقسام (یعنی اصناف) بنائیں اور تمہاری وہ کشیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان (کشتیوں اور چارپایوں) کی (سطح اور) پیٹھ پر جم کر (اطمینان سے) بیٹھو پھر جب اس پر بیٹھ چکو تو اپنے رب کی (اس) نعمت کو (دل سے) یاد کرو (اور زبان سے استحباباً ) یوں کہو کہ اس کی ذات پاک ہے جس نے ان چیزوں کو ہمارے بس میں کردیا اور ہم تو ایسے (طاقتور اور ہنر مند) نہ تھے جو ان کو قابو میں کرلیتے (کیونکہ جانور سے زیادہ طاقت نہیں، اور الہام حق کے بغیر کشتی چلانے کی تدبیر سے واقف نہیں، دونوں کے متعلق حق تعالیٰ نے تدبیر سکھا دی) اور ہم کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے (اس لئے ہم اس پر سوار ہو کر شکر سے غفلت یا تکبر نہیں کرتے) اور (باوجود دلائل توحید کے واضح ہونے کے) ان لوگوں نے (شرک اختیار کر رکھا ہے اور وہ بھی کیسا قبیح کہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں پس ایک خرابی تو یہ ہوئی کہ انہوں نے) خدا کے بندوں میں سے (جو مخلوق ہوتے ہیں) خدا کا جزو ٹھہرایا (حالانکہ خدا کا کوئی جزو ہونا عقلاً محال ہے) واقعی (ایسا) انسان صریح ناشکرا ہے (کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا بڑا کفر کرتا ہے کہ اس کو صاحب جزو قرار دیتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا معاذ اللہ ہونا حادث ہونا لازم آتا ہے۔ غرض ایک خرابی تو یہ ہوئی اور دوسری خرابی یہ کہ یہ لوگ لڑکی کو ناقص سمجھتے ہیں اور پھر خدا کے لئے بیٹیاں مانتے ہیں تو) کیا خدا نے اپنی مخلوق میں سے (تمہارے زعم میں اپنے لئے تو) بیٹیاں پسند کیں اور تم کو بیٹوں کے ساتھ مخصوص کیا حالانکہ (تم بیٹیوں کو اتنا برا سمجھتے ہو کہ) جب تم میں کسی کو اس چیز کے ہونے کی خبر دی جاتی ہے جس کو خدائے رحمان کا نمونہ (یعنی اولاد) بنا رکھا ہے (مراد بیٹی ہے) تو (اس قدر ناراض ہو کہ) سارے دن اس کا چہرہ بےرونق رہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہے (تو حیرت ہے کہ خدا کی طرف سے نقص کی نسبت کرتے ہو۔ یہاں تک ان کے فاسد عقیدے کی الزامی تردید تھی جس کی تشریح سورة صافات میں گزر چکی ہے۔ آگے اسی عقیدے کی تحقیقی تردید کی جاتی ہے کہ اگرچہ لڑکی ہونا بذات خود کوئی ذلت یا عار کی بات نہیں جیسے تم سمجھتے ہو، لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے ناقص العقل اور ضعیف الرائے ضرور ہے جب یہ بات ہے تو) کیا (خدا نے اولاد بنانے کے لئے لڑکی کو پسند کیا ہے) جو کہ (عادتاً ) آرائش (و زیبائش) میں نشوونما پائے (جو زیورات اور بناؤ سنگھار کی طرف اس کی رغبت کا سبب ہوتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ عقل و رائے کی ناپختگی ہے) اور وہ (فکری وقت کے ضعف کی بناء پر) مباحثہ میں قوت بیانیہ (بھی) نہ رکھے (چنانچہ عورتیں عموماً اپنے مافی الضمیر کو قوت اور وضاحت کے ساتھ بیان کرنے پر مردوں کی بہ نسبت کم قادر ہوتی ہیں، اکثر ادھوری بات کہیں گی اور اس میں فضول باتیں ملا دیں گی جن کا اصل مقصد میں کچھ دخل نہ ہو، یہ دو خرابیاں ہوئیں) اور (تیسری خرابی شرک لازم آنے سے قطع نظر یہ ہے کہ) انہوں نے فرشتوں کو جو کہ خدا کے (مخلوق) بندے ہیں (اس لئے اللہ کو ان کی پوری حالت معلوم ہے اور چونکہ وہ نظر نہیں آتے اس لئے ان کی کوئی صفت بغیر اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی اور اللہ نے کہیں یہ نہیں بتلایا کہ فرشتے عورت ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان کو بلا دلیل) عورت قرار دے رکھا ہے (اور ان کے عورت ہونے پر نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے نہ نقلی، لہٰذا مشاہدہ ہونا چاہئے تو) کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے (اور دیکھ رہے تھے، جواب ظاہر ہے کہ انہوں نے فرشتوں کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کیا، لہٰذا ان کے اس احمقانہ دعوے کی حقیقت واضح ہوگئی) ان کا یہ دعویٰ (جو بلا دلیل ہے اعمال کے دفتر میں) لکھ لیا جاتا ہے اور (قیامت میں) ان سے باز پرس ہوگی (یہ گفتگو تو فرشتوں کے بیٹیاں ہونے سے متعلق تھی) اور (آگے ان کے معبود ہونے کے متعلق بیان ہے کہ) وہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ (اس بات کو خوشی سے) چاہتا (کہ ملائکہ کی عبادت نہ ہو، یعنی اس عبادت سے وہ ناخوش ہوتا) تو ہم (کبھی) ان کی عبادت نہ کرتے (کیونکہ وہ کرنے ہی نہ دیتا، بلکہ جبراً روک دیتا، جب نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ وہ ان کی عبادت نہ کرنے سے خوش نہیں بلکہ عبادت کرنے سے خوش ہے آگے ان کی تردید ہے کہ) ان کو اس (بات) کی کچھ تحقیق نہیں (ہے) محض بےتحقیق بات کر رہے ہیں (کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو کسی فعل پر قدرت دے دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اس فعل پر راضی بھی ہے جیسے کہ پارہ ہشتم کے نصف سے پہلے ( آیت) سیقول الذین اشرکوا الخ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے اب یہ بتلاویں کہ) کیا ہم نے ان کو اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب دے رکھی ہے کہ یہ (اس دعوے میں) اس سے استدلال کرتے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ نہ ان کے پاس دلیل عقلی ہے نہ دلیل نقلی) بلکہ (محض اپنے باپ دادوں کی اتباع ہے، چنانچہ) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے رستہ چل رہے ہیں اور (جس طرح یہ لوگ بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل اپنی قدیم رسم کو بطور سند پیش کرتے ہیں) اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں نے (اولاً اور متبعین نے ثانیاً ) یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم بھی انہی کے پیچھے پیچھے چلے جا رہے ہیں (اس پر) ان کے (اس) پیغمبر نے (ایسے) کہا کہ کیا (آبائی رسوم ہی کا اتباع کئے جاؤ گے) اگرچہ میں اس سے اچھا (منزل) مقصود پر پہنچا دینے والا طریقہ تمہارے پاس لایا ہوں کہ جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہو، وہ (براہ عناد) کہنے لگے کہ ہم تو اس (دین) کو مانتے ہی نہیں جس کو دے کر (بزعم تمہارے) تم کو بھیجا گیا ہے سو (جب عناد حد سے بڑھ گیا اس وقت) ہم نے ان سے انتقام لیا، سو دیکھئے، تکذیب کرنے والوں کا کیسا (برا) انجام ہوا۔
وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ٩ ۙ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
اور اگر آپ ان مکہ والوں سے دریافت کریں کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے تو یقینا یہ لوگ یہی کہیں گے کہ اس اللہ نے پیدا کیا ہے جو اپنی سلطنت اور بادشاہت میں زبردست اور خلق و تدبیر سے بخوبی واقف ہے۔
آیت ٩ وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ ” اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں گے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو وہ لازماً یہی کہیں گے کہ انہیں بنایا ہے اس ہستی نے جو العزیز اور العلیم ہے۔ “