معارف و مسائل - آیت مذکورہ میں جس دخان مبین کا ذکر بطور پیشین گوئی کے آیا ہے کہا آپ انتظار کریں اس واضح دھوئیں کا جو آسمان پر ہوگا اور لوگوں پر چھا جائے گا، اس کے متعلق حضرات صحابہ وتابعین سے تین قول منقول ہیں۔ اول یہ کہ یہ علامات قیامت میں سے ایک علامت ہے جو قیامت کے بالکل قریب واقع ہوگی۔ یہ قول حضرت علی مرتضیٰ اور ابن عباس، ابن عمر، ابوہریرہ اور زید بن علی اور حسن بصری، ابن ابی ملیکہ وغیرہ کا ہے اور حضرت ابوسعید خدری اور حذیفہ بن اسید غفاری سے یہ قول مرفوعاً بھی روایت کیا گیا ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ پیش گوئی واقع ہوچکی ہے اور اس کا مصداق مکہ مکرمہ کا قحط ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے ان پر مسلط ہوا تھا وہ بھوکوں مرنے لگے مردار جانور تک کھانے لگے، آسمان پر بجائے بارش بادل کے ان کو دھواں نظر آتا تھا یہ قول حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ کا ہے تیسرا قول یہ ہے کہ اس دخان سے مراد وہ گرد و غبار ہے جو فتح مکہ کے روز مکہ مکرمہ کے آسمان پر چھا گیا تھا، یہ قول عبدالرحمن اعرج وغیرہ کا ہے (قرطبی) زیادہ معروف پہلے ہی دو قول ہیں، تیسرے قول کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا : ہذا القول غریب جدا بل منکر۔ باقی دونوں کا ذکر احادیث صحیحہ میں آیا ہے روح المعانی نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے اور مذکورہ الصدر خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے ابن کثیر اور قرطبی سے پہلے قول کی ترجیح معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم، دونوں اقوال کی روایات حسب ذیل ہیں۔- صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ بن اسید سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بالا خانے سے ہم پر نظر فرمائی، ہم آپس میں علامات قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم دس علامتیں نہ دیکھ لو۔ آفتاب کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا اور دخان اور دابہ اور یاجوج ماجوج کا خروج اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول اور دجال کا خروج اور تین خسف یعنی زمین میں دھنس جانا ایک خسف مشرق میں دوسرا مغرب میں تیسرا جزیرة العرب میں اور آگ جو قعر عدن سے نکلے گی لوگوں کو ہنکا کرلے چلے گی جہاں رات کو لوگ سونے کے لئے ٹھہریں گے رک جاوے گی جہاں دوپہر کو آرام کے لئے رکیں گے یہ بھی رک جائیگی (ابن کثیر) - ابن جریر نے ابومالک اشعری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں تین چیزوں سے ڈراتا ہوں ایک دخان (یعنی دھواں) جو مومن کے لئے صرف ایک طرح کا زکام پیدا کر دے گا اور کافر کے تمام بدن میں بھر جائے گا یہاں تک کہ اس کے ہر مسمع اور مسام سے نکلنے لگے گا اور دوسری چیز دابہ (یعنی دابتہ الارض کوئی عجیب قسم کا جانور زمین سے نکلے گا) اور تیسرے دجال اس روایت کو ابن کثیر نے نقل کر کے فرمایا (ہذا اسناد جید) اسی مضمون کی ایک روایت بحوالہ ابن ابی حاتم حضرت ابو سعید خدری سے بھی ابن کثیر نے نقل کی ہے اور بحوالہ ابن ابی حاتم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ دخان کی پیشین گوئی گزری نہیں (بلکہ قرب قیامت میں) یہ دھواں مومن کے لئے ایک طرح کا زکام پیدا کر دے گا اور کافر کے اندر بھر جائے گا یہاں تک کہ اس کے ہر منفذ سے نکلنے لگے گا اسی طرح کا مضمون بحوالہ ابن جریر حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن عباس سے بھی نقل کیا ہے جس کو نقل کر کے ابن کثیر نے فرمایا :- حضرت ابن عباس حبرامت اور ترجمان القرآن تک یہ اسناد صحیح ہے اور یہی قول دوسرے حضرات صحابہ وتابعین کا ہے جنہوں نے ابن عباس کی موافقت فرمائی ہے اس کے ساتھ وہ احادیث مرفوعہ جن میں بعض صحیح بعض حسن ہیں وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ دخان ان علامات قیامت میں سے ہے جن کا انتظار ہے ابھی آئی نہیں، خصوصاً جبکہ ظاہر الفاظ قرآن بھی اس پر شاہد ہیں اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی تفسیر مشہور ہیں جس دھوئیں کا ذکر ہے وہ تو ایک خیالی دھواں تھا جو بھوک کی شدت سے ان کی آنکھوں کو محسوس ہوتا تھا اس کے لئے لفظ یغشی الناس بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ خیالی دھواں تو اہل مکہ کے لئے مختصوص تا اور یغشی الناس کے الفاظ یہ بتلاتے ہیں کہ وہ سب لوگوں پر عام طور پر چھا جائے گا۔- اور پہلے یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کی روایات صحیحین اور مسند احمد اور ترمذی نسائی وغیرہ میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت مسروق نے روایت کیا ہے کہ ایک روز ہم کوفہ کی مسجد میں داخل ہوئے جو ابواب کندہ کے قریب ہے وہاں دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کو وعظ سنا رہا ہے اور اس آیت یعنی (آیت) یوم تاتی السمآء بدخان مبین۔ کے متعلق اس نے مخاطبین سے سوال کیا کہ تم جانتے ہو کہ اس دخان سے کیا مراد ہے پھر فرمایا کہ یہ ایک دھواں ہوگا جو قیامت کے روز نکلے گا جو منافقین کے کانوں اور آنکھوں کو لے گا اور مومن کو اس سے صرف زکام کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔- مسروق کہتے ہیں کہ واعظ کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس گئے ان سے اس کا ذکر کیا وہ لپٹے ہوئے تھے گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ (آیت) قل ما اسلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین، یعنی میں تم سے تمہاری خدمت تعلیم و تبلیغ کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بتکلف کوئی بات بنائیں اس لئے علم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو نہیں جانتا صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اس کا علم اللہ ہی کو ہے (تکلف سے بات نہ بنا دے) پھر فرمایا کہ اب تمہیں اس آیت کی تفسیر کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب قریش نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار اور اپنے کفر پر اصرار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے بددعا فرمائی کہ یا اللہ ان پر ایسا قحط ڈال دے جیسا کہ آپ نے یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں ڈالا تھا۔ اس بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ یہ لوگ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ ہڈیاں اور مردار جانور تک کھانے لگے۔ یہ لوگ آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے تو دھوئیں کے سواکچھ نہیں آتا اور ایک روایت میں ہے کہ ان کا کوئی آدمی آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو بھوک کی شدت سے اس کو دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس کے بعد عبداللہ ابن مسعود نے استدلال میں یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ جب واقعہ پیش آیا تو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ اپنے قبیلہ مضر کے لئے اللہ سے بارش کی دعا کریں ورنہ وہ سب ہلاک ہوجاویں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی تو اللہ نے بارش دے دی اس پر آیت نازل ہوئی (آیت) انا کاشف العذاب قلیلاً انکم عائدون۔ یعنی ہم تمہارے اس عذاب کو چند روز کے لئے ہٹائے لیتے ہیں (مگر جب تم مصیبت سے نکل جاؤ گے) تو پھر اپنے کفر کی طرف لوٹ جاؤ گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا پھر وہ اپنے پچھلے حال کی طرف لوٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) یوم نبطش البطشتہ الکبری انا منتقمون، یعنی جس دن ہم سخت پکڑ پکڑیں گے اس دن سے ڈرو، پھر ابن مسعود نے فرمایا کہ یہ بطشہ کبریٰ یعنی بڑی سخت پکڑ غزوہ بدر میں ہوچکی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ پانچ چیزیں گزر چکی ہیں، یعنی دخان، روم، قمر بطشہ لزام (از ابن کثیر) دخان سے مراد اس تفسیر پر مکہ کا قحط ہے اور روم سے مراد وہ پیشن گوئی ہے جو سورة روم میں ان کے غلبہ کے متعلق آئی ہے وھم من بعد غلبھم سیغلبون اور قمر سے انشقاق قمر مرا ہے جس کا ذکر (آیت) اقتربت الساعۃ وانشق القمر میں ہے اور بطشہ تفسیر مذکور کے مطابق غزوہ بدر میں کفار قریش کا انجام ہے اور لزام سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے (آیت) فسوف یکون لزاما۔- آیات مذکورہ میں غور کیجئے تو ان میں چند پیشین گوئیاں ہیں۔ اول دھوئیں کا آسمان پر ظاہر ہونا اور سب لوگوں پر چھا جانا دوسرے مشرکین کا اس عذاب سے عاجز آ کر ایمان کا وعدہ کر کے اللہ سے دعائیں مانگنا۔ تیسرے ان کے وعدہ کا جھوٹا ہونا اور بعد میں مکر جانا۔ چوتھے اللہ تعالیٰ کا ان کے جھوٹے وعدہ پر بھی بطور اتمام حجت کے کچھ عرصہ کے لئے ان سے عذاب کا ہٹا دینا اور یہ جتلا دینا کہ تم اس وعدہ پر قائم نہ رہو گے پانچویں پھر دوبارہ ان کو سخت پکڑ میں پکڑ لینا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تفسیر کے مطابق یہ سب کی سب پیشین گوئیاں پوری ہوچکی ہیں۔ پہلی چار تو مکہ والوں پر قحط شدید مسلط ہونے اور پھر اس کے رفع ہونے کے دوران پوری ہوئیں اور پانچویں غزوہ بدر میں پوری ہوگئی لیکن اس تفسیر پر ظاہر الفاظ قرآنی سے یہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ بھوک کی شدت کے سبب آسمان پر خیالی دھواں نظر آنے کو قرآن کریم نے تاتی السماء اور دخان مبین اور نغشی الناس کے الفاظ سے تعبیر کیا ہو کیونکہ بظاہر ان الفاظ سے عام آسمان پر کھلا ہوا دھواں چھا جانا اور سب لوگوں کا اس دھوئیں سے متاثر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ تفسیر مذکور میں نہ آسمان پر دھوئیں کا چھا جانا ثابت ہوتا ہے اور نہ لوگوں کا اس دھوئیں سے متاثر ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ دھواں تو خود ان کی اپنی شدت مصیبت کا اثر تھا۔ اسی لئے حافظ ابن کثیر نے ظاہر قرآن کے مطابق اس کو ترجیح دی کہ یہ دخان مبین علامات قیامت میں سے ہے اور اس کو ترجیح اس لئے بھی ہے کہ وہ روایات مرفوعہ سے ثابت ہے۔ یہ صرف حضرت عبداللہ ابن مسعود کا اپنا قول ہے مگر اس تفسیر پر بظاہر (آیت) انا کاشف العذاب قلیلاً انکم عائدون سے یہ اشکال ہوتا ہے کہ قیامت میں تو کفار سے کوئی عذاب نہیں ہٹایا جائیگا۔ یہاں چند روز کے لئے عذاب ہٹا دینے کا ذکر کیسے درست ہوگا ؟ ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مراد اس سے یہ ہو کہ اگر ہم تمہارے کہنے کے مطابق عذاب ہٹا دیں اور تمہیں پھر دنیا میں لوٹا دیں تو تم پھر وہی کفر و انکار کرنے لگو گے جیسا کہ دوسری ایک آیت میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے (آیت) ولو رحمناھم وکشفنا مابھم من ضر للجوا فی طغیانھم یعمھون۔ اور ایک اور آیت میں فرمایا ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ، دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ کاشف العذاب میں کشف عذاب سے مراد یہ ہو کہ اگرچہ عذاب آنے کے اسباب مکمل ہوچکے اور عذاب تمہارے قریب آ چکا ہے مگر کچھ روز کے لئے ہم اس کو موخر کردیتے ہیں جیسا کہ قوم یونس (علیہ السلام) کے بارے میں آیا ہے (آیت) کشفنا عنھم العذاب حالانکہ قوم یونس (علیہ السلام) پر عذاب آ نہیں چکا تھا صرف آثار عذاب نظر آئے تھے اس کو کشف عذاب سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ خلاص یہ ہے کہ اگر دخان کی پیشن گوئی کو علامات قیامت میں شمار کیا جائے تو کاشف العذاب کے الفاظ سے اس پر بھی کوئی اشکال نہیں رہتا اور اس تفسیر یر (آیت) یوم نبطش البطشتہ الکبریٰ سے مراد روز قیامت کی پکڑ ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی تفسیر میں جو غزوہ بدر کی پکڑ کر فرمایا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے وہ بھی ایک پکڑ سخت ہی تھی لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آگے قیامت میں اس سے بڑی پکڑ نہ ہو اور اس میں بھی کچھ بعد نہیں معلوم ہوتا کہ قرآن کریم نے کفار مکہ کو ایک آنیوالے عذاب سے ان آیات میں ڈرایا ہے اس کے بعد جو بھی عذاب ان پر آیا اس کو کسی درجہ میں اس کا مصداق سمجھ کر صحابہ کرام نے ان آیات کا ذکر فرما دیا ہو جس سے اس کے علامات قیامت میں سے ہونے کی نفی نہیں ہوتی جیسا کہ روح المعانی میں علامہ سفارینی کی کتاب البحور الزاخرہ کے حوالہ سے خود حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔- دخان دو ہیں ایک گزر چکا (یعنی قحط مکہ کے وقت) اور دوسرا جو باقی ہے وہ آسمان اور زمین کی درمیانی فضا کو بھر دے گا اور مومن کو اس سے صرف زکام کی کیفیت پیدا ہوگی اور کافر کے تمام منافذ کو پھاڑ ڈالے گا اس وقت اللہ تعالیٰ یمن کی طرف سے جنوبی ہوا بھیج دیں گے جو ہر مومن کی روح قبض کرلے گی اور صرف کفار شرار الناس باقی رہ جائیں گے۔- اگرچہ صاحب روح المعانی نے اپنی مختار تفسیر کے مطابق اس روایت کی صحت کے متعلق اپنے شک کا اظہار کیا ہے مگر یہ روایت ثابت ہوجائے تو ظواہر قرآن اور روایت مرفوعہ کیساتھ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
يَّغْشَى النَّاسَ ٠ ۭ ھٰذَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١١- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(١١۔ ١٢) جو ان سب پر عام ہوجائے یہ دھواں بھی ایک دردناک سزا ہے جو ان کو بھول کی حالت میں پیش آئے گی پھر یہ عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم سے اس بھوک کی مصیبت کو دور کردیجیے ہم آپ پر اور آپ کی کتاب اور آپ کے رسول پر ایمان لے آئیں گے۔
آیت ١١ یَّغْشَی النَّاسَط ہٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ” وہ ڈھانپ لے گا لوگوں کو۔ یہ ایک درد ناک عذاب ہوگا۔ “
3: اس آیت کی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے یہ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو متنبہ کرنے کے لیے انہیں ایک سخت قحط میں مبتلا فرما دیا تھا، اس وقت لوگ بھوک کی شدت کے عالم میں جب آسمان کی طرف دیکھتے تو انہیں آسمان پر دھواں ہی دھواں چھایا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس آیت میں اس قحط سالی کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ کافروں کو سزا کے طور پر ایسے قحط میں مبتلا کیا جائے گا کہ انہیں بھوک کی وجہ سے آسمان پر دھواں ہی دھواں نظر آئے گا، اور اس وقت یہ لوگ وعدہ کریں گے کہ اگر یہ قحط ہم سے دور ہوگیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، لیکن جب قحط دور ہوگا تو اپنے وعدے سے پھر کر دوبارہ شرک کی طرف لوٹ جائیں گے۔