10۔ 1 یہ کافروں کے لئے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔
[٨] قریش پر قحط کا عذاب :۔ آیت نمبر ١٠ سے نمبر ١٦ تک تفسیر میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) بڑے زور شور اور یقین کے ساتھ ان آیات کی تفسیر درج ذیل الفاظ میں پیش کرتے ہیں :- عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ کی بات نہ مانی اور شرارتوں پر کمر باندھی تو آپ نے یوں بددعا فرمائی اے اللہ ان پر سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کی طرح سات سال کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ آخر ان پر ایسا سخت قحط نازل ہوا کہ وہ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے اور نوبت بانیجا رسید کہ ان میں سے اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں آسمان کی طرف دیکھتا تو ایک دھواں سا دکھائی دیتا۔ اس وقت ابو سفیان آپ کے پاس آکر کہنے لگا : محمد تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، دعا کرو اللہ یہ قحط ختم کر دے۔ چناچہ آپ نے دعا فرمائی۔ اور مشرک بھی کہنے لگے : پروردگار ہم پر یہ عذاب دور کردے۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا۔ دیکھو جب یہ عذاب موقوف ہوا تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگیں گے۔ خیر آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب اٹھا لیا تو وہ پھر کفر شرک کرنے لگے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ 16) 44 ۔ الدخان :16) میں بطشۃ سے مراد بدر کی سزا ہے۔ رہا آخرت کا عذاب تو وہ ان سے کبھی موقوف نہ ہوگا۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ پانچ چیزیں ہیں جو گزر چکیں۔ لزام (بدر میں قیدیوں کی گرفتاری) روم کا دوبارہ غلبہ بطشۃ (بدر کی ذلت آمیز شکست) چاند (کا پھٹنا) اور دخان (دھوئیں کا عذاب) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- خ دخان مبین سے کون سا دھواں مراد ہے ؟:۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) آیت نمبر ١٠ میں مذکور دھوئیں سے مراد وہ دھواں لیتے ہیں جو قیامت کے قریب چھا جائے گا اور وہ قیامت کی ایک علامت ہوگا روایات کے مطابق یہ دھواں چالیس دن زمین کو محیط رہے گا۔ نیک آدمی پر اس کا اثر خفیف ہوگا جس سے انہیں زکام سا ہوجائے گا اور کافر و منافق کے لیے یہ دھواں سخت تکلیف دہ ثابت ہوگا۔ یہ دھواں شاید وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر (ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ 11) 41 ۔ فصلت :11) میں ہوا ہے اور وہ (يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرٰى ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ 16) 44 ۔ الدخان :16) سے مراد قیامت کا عذاب لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب، تاہم ان آیات میں مذکور واقعات رسول اللہ کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) ہی کی تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔
فازتقب یوم تاتی السمآء بدخان مبین…: اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دلائی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ پریشان نہ ہوں، بلکہ اس دن کا انتظار کریں جس میں آسمان کی جانب سے ایک واضح دھواں ان لوگوں کو ڈھانپ لے گا جو نہایت تکلیف دہ عذاب ہوگا۔ واضح ہونے اور ڈھانپ لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خییالی دھواں نہیں ہوگا بلکہ حقیقی ہوگا اور سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ” یوم “ سے مراد وہ وقت ہے جس میں دھواں رہا، کیونکہ وہ دھواں ایک دن تو نہیں رہا، بلکہ کئی دن اور مہینے رہا۔ اس دھوئیں سے کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے اس سے قیامت کے دن کا دھواں مراد نہیں ہوسکتا، کیونکہ ان آیات میں کفار کو اسے دور کرنے کی دعا کے بعد اسے کچھ دور کرنے اور ان کے دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کا ذکر ہے، جب کہ قیامت کے دن کا عذاب کسی صورت دور ہونے والا نہیں۔ اس لئے اس سے مراد ایسا دھواں ہے جو جلدی دنیا میں انھیں ڈھانپنے والا ہے۔ اس دھوئیں کے متعلق دو قول ہیں، عبداللہ بن مسعود (رض) نہایت جزم کے ساتھ اسے اس قحط کے نتیجے میں پھیلنے والا دھواں قرار دیتے ہیں جو ہجرت کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے مکہ میں واقع ہوا۔ چناچہ وہ فرماتے ہیں :(انما کان ھذا لان قریشاً لما استعضوا علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا علیھم بسنین کسنی یوسف، فاضابھم قحط وجھد حتی اکلوا العظام ، فجعل الرجل ینظر الی السمآء فیری ما بینہ وبینھا کھیئۃ الدخان من الجھد ، فانزل اللہ تعالیٰ ۔ (فارتقب یوم تاتی السمآء بدخان مبین یغشی الناس ھذا عذاب الیم) فال فاتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقیل یا رسول اللہ استسق اللہ لمضر، فانھا قد ھلکت قال لمضر ؟ انک لجزی، فاستفی فسقوا قنزلت (انکم عآئدون) فلما اصابتھم منتقبون) (قال یعبی یوم بدر) (بخاری، التفسیر، سورة الدخان :3821)” اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سخت سرکشی کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر قحط سالیوں کی بد دعا کی، جیسے یوسف (علیہ السلام) کے قحط کے سال تھے۔ تو انھیں قحط اور بھوک نے آلیا، حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھا گئے۔ آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :(فارتقب یوم تاتی السمآء بدخان مبین یغشی الناس، ھذا عذاب الیم) (الدخان :11 10)” سو انتظار کر جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ درد ناک عذاب ہے۔ “ تو ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے کہا :” یا رسول اللہ مضر (قبیلے) کے لئے بارش کی دعا کریں، کیونکہ وہ تو ہلاک ہوگئے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مضر کے لئے (وہ تو سخت کافر و مشرک ہیں ؟ ) تو بڑا جرأت والا ہے۔ “ خیر، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارش کے لئے دعا کردی اور ان پر بارش ہوگئی تو یہ آیت اتری :(انکم عآئدون) (الدخان :10) ” بیشک تم دوبارہ وہی کچھ کرنے والے ہو۔ “ پھر جب انہیں خوش حالی ملی تو وہ اپنی پہلی حلات کی طرف پلٹ گئے ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(یوم نبطش البطشۃ الکبریٰ ، انا منتقمون) (الدخان :16)” جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، بیشک ہم انتقام لینے والے ہیں۔ “ ابن مسعود (رض) نے فرمایا :” اس سے مراد یوم بدر ہے۔ “ ابن مسعود (رض) کی تفسیر کو امام طبری اور بہت سے مفسرین نے راجح قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق یہ عذاب گزر چکا ہے۔- دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا۔ حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آپ سے میں کسی بات کا ذکر کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماتذاکرون ؟ قالوا تذکر الساعۃ، قال انھا لن تقوم حتی ترون قبلھا عشر آیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ و طلوع الشمس من معربھا و نزول عیسیٰ ابن مریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و یاجوج و ماجوج و ثلاثہ خسوف، خسف بالمشرق و خسف بالمغرب وخشف بجریرۃ العرب وآخر ذلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الی محشرھم ) (مسلم ، الفتن و اشراط الساعۃ ، باب فی الایات التی تکون قبل الساعۃ :2901) ” تم کس بات کا ذکر کر رہے ہو ؟ “ ہم نے کہا :” ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان نشانیوں کا ذکر فرمایا، (جو یہ ہیں) دھواں، دجال، دابہ، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ ابن مریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نزول، یاجوج و ماجوج، تین خسف (زمین میں دھنس جانا) ایک خسف مشرق میں، ایک خسف مغرب میں اور ایک خسف جزیرہ عرب میں اور ان سب کے آخر میں ایک آگ ہوگی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے حشر کے مقام کی طرف ہانک کرلے جائے گی۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (بادروا بالاعمال ستا، طلوع الشمس من مغربھا اوالدخان او الدجال او الدابہ او خاصۃ احدکم او امر العامۃ) (مسلم، الفش و اشراط الساعۃ باب فی بقیۃ من احادیث الدجال :2938)” چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے اعمال میں جلدی کرلو، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا دھواں یا دجال یا دابہ یا تم میں سے کسی پر انفرادی عذاب یا سب پر اجتماعی عذاب ۔ “- ابن کثیررحمتہ اللہ نے اس دوسرے قول کو ترجیح دی ہے کہ اس دخان سے مراد قیامت کے قریب نمودار ہونیو الا دھواں ہے، جس کا ابھی انتظار ہے، مگر ابن مسعود (رض) کی بات ہی صحیح ہے، کیونکہ آیات میں اس دھوئیں کا ذکر ہے جو تھوڑا سا دور کیا جائے گا اور اس میں کفار کے لئے ایمان لانے کا موقع ہوگا، جب کہ قیامت کے قریب والی نشانیوں کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا :(یوم یاتی بعض ایت ربک لاینفع نفساً ایمانھالم تکن امنت من قبل او کسبت فی ایمانھا خیراً ) (الانعام :158)” جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہ بات بھی بطور دلیل پیش فرمائی کہ بھلا قیامت کا عذا بھی دور ہوسکتا ہے ؟
خلاصہ تفسیر - (اور جب یہ لوگ حق کے واضح ہونے کے باوجود نہیں مانتے) سو آپ (ان کے لئے) اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف سے ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو ان سب لوگوں پر عام ہوجاوے یہ (بھی) ایک درد ناک سزا ہے (جو ان کو ہوگی، اس سے مراد غلہ کا قحط ہے جس میں اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مبتلا ہوگئے تھے۔ اور یہ بددعا ایک مرتبہ مکہ میں ہوئی تھی اور ایک بار مدینہ میں، اور قاعدہ ہے کہ بھوک کی شدت اور خشکی میں آسمان و زمین کے درمیان آنکھوں کے سامنے دھواں سا نظر آیا کرتا ہے۔ غرض اہل مکہ اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور لگے عاجزی کرنے، چناچہ پیشین گوئی کے طور پر فرماتے ہیں کہ اس وقت جناب باری میں عرض کریں گے کہ) اے ہمارے رب ہم سے اس مصیبت کو دور کر دیجئے ہم ضرور ایمان لے آویں گے (چنانچہ پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ ابوسفیان اور دیگر قریش نے آپ کو لکھا بھی اور آئے بھی کہ آپ دعا کریں اور ثمامہ رئیس یمامہ کو جس نے غلہ بند کردیا تھا سمجھاویں، اور صاحب روح نے ابوسفیان کا وعدہ ایمان بھی نقل کیا ہے، آگے ان کے اس وعدے کا صدق دل سے نہ ہونا ارشاد فرماتے ہیں کہ) ان کو (اس سے) کب نصیحت ہوتی ہے (جس سے ان کے ایمان کی توقع کی جاوے) حالانکہ (اس کے قبل) ان کے پاس ظاہر شان کا پیغمبر آیا (یعنی جس کی شان نبوت ظاہر تھی) پھر بھی یہ لوگ اس سے سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ (کسی دوسرے بشر کا) سکھایا ہوا ہے (اور) دیوانہ ہے (پس جب اتنے بڑے رسول کے آنے پر جس کے دلائل رسالت میں کوئی تاویل ہی نہیں ہو سکتی، یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو قحط کے ہونے پر جس میں بےانصاف آدمی یہ بھی احتمال نکال سکتا ہے کہ یہ ایک معمولی واقعہ ہے جو طبعی اسباب کے تحت ہوا ہے اور کفر کی سزا نہیں ہے کہ کب ایمان لانے کی امید ہے، ان کا یہ کہنا محض دفع الوقتی ہے مگر خیر) ہم (حجت تمام کرنے کے لئے) چندے اس عذاب کو ہٹا دیں گے (مگر) تم پھر اپنی اسی (پہلی) حالت پر آجاؤ گے (چنانچہ یہ پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ آپ نے دعا فرمائی، بارش ہوئی، اور ثمامہ کو بھی خط لکھا کہ غلہ آنے دیں، اور اہل مکہ کو فارغ البالی میسر ہوئی مگر ایمان تو کیا لاتے وہ نرمی اور شکستگی بھی جاتی رہی، پھر وہی زور اور وہی شور اور ” چندے “ اس لئے فرمایا کہ اس عذاب کے ٹلنے کی مدت صرف دنیوی زندگی تک ہے۔ پھر مرنے کے بعد جو مصیبت آوے گی اس کا کہیں خاتمہ نہیں، چناچہ ارشاد ہے کہ) جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم (پورا) بدلہ لے لیں گے (یعنی آخرت میں پوری سزا ہوگی) ۔
فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ١٠ ۙ- رقیب - والرَّقِيبُ : الحافظ، وذلک إمّا لمراعاته رقبة المحفوظ، وإما لرفعه رقبته، قال تعالی: وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93]- ( ر ق ب ) الرقبۃ - اسی سے نگران کو رقیب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظو رہوتی ہے اور یا اس لئے ک وہ نگرانی کے لئے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] تم بھی منتظر رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- دخن - الدّخان کالعثان : المستصحب للهيب، قال : ثُمَّ اسْتَوى إِلَى السَّماءِ وَهِيَ دُخانٌ [ فصلت 11] ، أي : هي مثل الدّخان، إشارة إلى أنه لا تماسک لها، ودَخَنَتِ النار تَدْخُنُ : كثر دخانها والدُّخْنَة منه، لکن تعورف فيما يتبخّر به من الطّيب . ودَخِنَ الطّبيخ : أفسده الدّخان . وتصوّر من الدّخان اللّون، فقیل : شاة دَخْنَاء، وذات دُخْنَةٍ ، ولیلة دَخْنَانَة، وتصوّر منه التّأذّي به، فقیل : هو دَخِنُ الخُلُقِ ، وروي :«هدنة علی دَخَنٍ» أي : علی فساد دخلة .- ( د خ ن ) الدخان ۔ یہ الشنان کے ہم معنی ہے یعنی اس دہوئیں کو کہتے ہیں جو آگ کے شعلہ کے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ اسْتَوى إِلَى السَّماءِ وَهِيَ دُخانٌ [ فصلت 11] پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ دھوئیں کی مثل تھا یعنی اس میں تماسک نہیں تھا ۔ آگ کا کثرت سے دھواں دینا اسی سے دخنۃ ہے لیکن عرف میں اس خوشبو کو دخنۃ کہا جاتا ہے جس سے دہونی دی جاتی ہے پکی ہوئی چیز کا دہوئیں سے خراب ہوجانا ۔ اور دخان سے لون ( رنگ ) کے معنی لے کرجاتا ہے ۔ ( ہوئیں جیسی سیاہ بکری ۔ تاریک رات ۔ اور اس سے ایذا رسانی کے معنی لیکر کا محاورہ استعمال کرتے ہیں یعنی وہ بد خلق ہے ۔ ایک روایت میں ہے یعنی صلھ ہوجائے گی لیکن دلوں میں کنیہ ہوگا ۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
اب آپ اے نبی کریم ان کے لیے اس دن کے عذاب کا انتظار کیجیے کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک دھواں پیدا ہو۔- شان نزول : فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ (الخ)- امام بخاری نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ جب قریش رسول اکرم پر زیادتیاں کیں تو آپ نے ان کے لیے قحط سالی کی بددعا کی جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں قحط سالی ہوئی تھی۔ چناچہ ان پر ایسا قحط آیا کہ انہوں نے ہڈیاں تک کھالیں اور آدمی جب اس حالت میں آسمان کی طرف دیکھتا تھا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے دھواں سا نظر آتا تھا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ آیات نازل فرمائی۔- چناچہ اس کے بعد یہ لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مضر کے لیے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ تو ہلاک ہوگئے چناچہ آپ نے بارش کی دعا فرمائی بارش ہوگئی اس کے بارے میں یہ جملہ نازل ہوا۔ انکم عائدون۔ اس کے بعد جب ان پر فراخی کا دور آیا تو پھر اپنی پچھلی حالت پر آگئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یوم نبطش (الخ) یعنی غزوہ بدر کے دن ہم ان سے بدلہ لیں گے۔
آیت ١٠ فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ ” تو آپ انتظار کیجیے اس دن کا جس دن آسمان لائے گا واضح دھواں۔ “- اس آیت کے مفہوم کے بارے میں مفسرین ّکے درمیان شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام (رض) کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت علی ‘ ابن عمر ‘ ابن عباس اور ابوسعید خدری (علیہ السلام) اور حسن بصری (رح) جیسے اکابر کی رائے ہے کہ اس سے وہ دھواں مراد ہے جو قیامت سے پہلے نمودار ہوگا۔ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت سے فوراً پہلے نمودار ہونے والی جن دس نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں دھویں (دخان) کا ذکر بھی ہے۔ اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بڑی شدت کے ساتھ یہ رائے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں جو قحط پڑا تھا اس آیت میں اس قحط کے بارے میں پیشگی خبردار کیا گیا ہے۔ صحرائی علاقوں میں اگر طویل مدت تک بارش نہ ہو تو پوری فضا گرد سے اٹ جاتی ہے اور آسمان کی طرف دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے دھویں کے بادل چھا رہے ہیں۔ قحط کا یہ عذاب دراصل اسی قانونِ خداوندی کے تحت اہل مکہ پر مسلط ہوا تھا جس کا ذکر سورة الانعام میں اس طرح ہوا ہے : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ۔ ” اور ہم نے بھیجا ہے (دوسری) امتوں کی طرف بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل (رسولوں کو) ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے شاید کہ وہ عاجزی کریں “۔ تابعین میں سے مجاہد ‘ قتادہ ‘ ابراہیم نخعی وغیرہ حضرات نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ بہر حال میں نے یہاں جلیل القدر صحابہ (رض) کی آراء بیان کردی ہیں۔ ان صحابہ (رض) کے عظیم مراتب کے پیش نظر ان آراء میں محاکمہ کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔