Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دھواں ہی دھواں اور کفار فرماتا ہے کہ حق آچکا اور یہ شک شبہ میں اور لہو لعب میں مشغول و مصروف ہیں انہیں اس دن سے آگاہ کر دے جس دن آسمان سے سخت دھواں آئے گا حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ کوفے کی مسجد میں گئے جو کندہ کے دروازوں کے پاس ہے تو دیکھا کہ ایک حضرت اپنے ساتھیوں میں قصہ گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جس دھوئیں کا ذکر ہے اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کے دن منافقوں کے کانوں اور آنکھوں میں بھر جائے گا اور مومنوں کو مثل زکام کے ہو جائے گا ۔ ہم وہاں سے جب واپس لوٹے اور حضرت ابن مسعود سے اس کا ذکر کیا تو آپ لیٹے لیٹے بےتابی کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمانے لگے اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں ۔ یہ بھی علم ہے کہ انسان جس چیز کو نہ جانتا ہو کہہ دے کہ اللہ جانے سنو میں تمہیں اس آیت کا صحیح مطلب سناؤں جب کہ قریشیوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے لگے تو آپ نے ان پر بددعا کی کہ یوسف کے زمانے جیسا قحط ان پر آپڑے ۔ چنانچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ایسی خشک سالی آئی کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار چبانا شروع کیا ۔ اور آسمان کی طرف نگاہیں ڈالتے تھے تو دھویں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ بوجہ بھوک کے ان کی آنکھوں میں چکر آنے لگے جب آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو درمیان میں ایک دھواں نظر آتا ۔ اسی کا بیان ان دو آیتوں میں ہے ۔ لیکن پھر اس کے بعد لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی ہلاکت کی شکایت کی ۔ آپ کو رحم آگیا اور آپ نے جناب باری تعالیٰ میں التجا کی چنانچہ بارش برسی اسی کا بیان اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ عذاب کے ہٹتے ہی پھر کفر کرنے لگیں گے ۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ دنیا کا عذاب ہے کیونکہ آخرت کے عذاب تو ہٹتے کھلتے اور دور ہوتے نہیں ۔ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ پانچ چیزیں گذر چکیں ۔ دخان ، روم ، قمر ، بطشہ ، اور لزام ( صحیحین ) یعنی آسمان سے دھوئیں کا آنا ۔ رومیوں کا اپنی شکست کے بعد غلبہ پانا ۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا بدر کی لڑائی میں کفار کا پکڑا جانا اور ہارنا ۔ اور چمٹ جانے والا عذاب بڑی سخت پکڑ سے مراد بدر کے دن لڑائی ہے حضرت ابن مسعود ، نخعی ، ضحاک ، عطیہ ، عوفی ، وغیرہ کا ہے اور اسی کو ابن جریر بھی ترجیح دیتے ہیں ۔ عبدالرحمن اعرج سے مروی ہے کہ یہ فتح مکہ کے دن ہوا ۔ یہ قول بالکل غریب بلکہ منکر ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں یہ گذر نہیں گیا بلکہ قرب قیامت کے آئے گا ۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ صحابہ قیامت کا ذکر کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ۔ تو آپ نے فرمایا جب تک دس نشانات تم نہ دیکھ لو قیامت نہیں آئے گی سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، یاجوج ماجوج کا آنا ، مشرق مغرب اور جزیرۃ العرب میں زمین کا دھنسایا جانا ، آگ کا عدن سے نکل کر لوگوں کو ہانک کر ایک جا کرنا ۔ جہاں یہ رات گذاریں گے آگ بھی گذارے گی اور جہاں یہ دوپہر کو سوئیں گے آگ بھی قیلولہ کرے گی ۔ ( مسلم ) بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے دل میں آیت ( فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ 10۝ۙ ) 44- الدخان:10 ) چھپا کر اس سے پوچھا کہ بتا میں نے اپنے دل میں کیا چھپا رکھا ہے ؟ اس نے کہا ( دخ ) آپ نے فرمایا بس برباد ہو اس سے آگے تیری نہیں چلنے کی ۔ اس میں بھی ایک قسم کا اشارہ ہے کہ ابھی اس کا انتظار باقی ہے اور یہ کوئی آنے والی چیز ہے چونکہ ابن صیاد بطور کاہنوں کے بعض باتیں دل کی زبان سے بتانے کا مدعی تھا اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لئے آپ نے یہ کیا اور جب وہ پورا نہ بتا سکا تو آپ نے لوگوں کو اس کی حالت سے واقف کر دیا کہ اس کے ساتھ شیطان ہے کلام صرف چرا لیتا ہے اور یہ اس سے زیادہ پر قدرت نہیں پانے کا ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے اولین نشانیاں یہ ہیں ۔ دجال کا آنا اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نازل ہونا اور آگ کا بیچ عدن سے نکلنا جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی قیلولے کے وقت اور رات کی نیند کے وقت بھی ان کے ساتھ رہے گی اور دھویں کا آنا ۔ حضرت حذیفہ نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دھواں کیسا ؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ دھواں چالیس دن تک گھٹا رہے گا جس سے مسلمانوں کو تو مثل نزلے کے ہو جائے گا اور کافر بیہوش وبدمست ہو جائے گا اس کے نتھنوں سے کانوں سے اور دوسری جگہ سے دھواں نکلتا رہے گا ۔ یہ حدیث اگر صحیح ہوتی تو پھر دخان کے معنی مقرر ہو جانے میں کوئی بات باقی نہ رہتی ۔ لیکن اس کی صحت کی گواہی نہیں دی جا سکتی اس کے راوی رواد سے محمد بن خلف عسقلانی نے سوال کیا کہ کیا سفیان ثوری سے تو نے خود یہ حدیث سنی ہے ؟ اس نے انکار کیا پوچھا کیا تو نے پڑھی اور اس نے سنی ہے ؟ کہا نہیں ۔ پوچھا اچھا تمہاری موجودگی میں اس کے سامنے یہ حدیث پڑھی گئی ؟ کہا نہیں کہا پھر تم اس حدیث کو کیسے بیان کرتے ہو ؟ کہا میں نے تو بیان نہیں کی میرے پاس کچھ لوگ آئے اس روایت کو پیش کی پھر جا کر میرے نام سے اسے بیان کرنی شروع کر دی بات بھی یہی ہے یہ حدیث بالکل موضوع ہے ابن جریر اسے کئی جگہ لائے ہیں اور اس میں بہت سی منکرات ہیں خصوصًا مسجد اقصیٰ کے بیان میں جو سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے واللہ اعلم ۔ اور حدیث میں ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تین چیزوں سے ڈرایا ، دھواں جو مومن کو زکام کر دے گا اور کافر کا تو سارا جسم پھلا دے گا ۔ روئیں روئیں سے دھواں اٹھے گا دابتہ الارض اور دجال ۔ اس کی سند بہت عمدہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دھواں پھیل جائے گا مومن کو تو مثل زکام کے لگے گا اور کافر کے جوڑ جوڑ سے نکلے گا یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری کے قول سے بھی مروی ہے اور حضرت حسن کے اپنے قول سے بھی مروی ہے حضرت علی فرماتے ہیں دخان گذر نہیں گیا بلکہ اب آئے گا ۔ حضرت ابن عمر سے دھویں کی بابت اوپر کی حدیث کی طرح روایت ہے ابن ابی ملکیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضرت ابن عباس کے پاس گیا ۔ تو آپ فرمانے لگے رات کو میں بالکل نہیں سویا میں نے پوچھا کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ لوگوں سے سنا کہ دم دار ستارہ نکلا ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہی دخان نہ ہو پس صبح تک میں نے آنکھ سے آنکھ نہیں ملائی ۔ اس کی سند صحیح ہے اور ( حبرالامتہ ) ترجمان القرآن حضرت ابن عباس کے ساتھ صحابہ اور تابعین بھی ہیں اور مرفوع حدیثیں بھی ہیں ۔ جن میں صحیح حسن اور ہر طرح کی ہیں اور ان سے ثابت ہوتا ہے کہ دخان ایک علامت قیامت ہے جو آنے والی ہے ظاہری الفاظ قرآن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے واضح اور ظاہر دھواں کہا ہے جسے ہر شخص دیکھ سکے اور بھوک کے دھوئیں سے اسے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ تو ایک خیالی چیز ہے بھوک پیاس کی سختی کی وجہ سے دھواں سا آنکھوں کے آگے نمودار ہو جاتا ہے جو دراصل دھواں نہیں اور قرآن کے الفاظ ہیں آیت ( دخان مبین ) کے ۔ پھر یہ فرمان کہ وہ لوگوں کو ڈھانک لے گی یہ بھی حضرت ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتا ہے کیونکہ بھوک کے اس دھوئیں نے صرف اہل مکہ کو ڈھانپا تھا نہ کہ تمام لوگوں کو پھر فرماتا ہے کہ یہ ہے المناک عذاب یعنی ان سے یوں کہا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے ( يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا 13؀ۭ ) 52- الطور:13 ) ، جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے جسے تم جھٹلا رہے تھے یا یہ مطلب کہ وہ خود ایک دوسرے سے یوں کہیں گے کافر جب اس عذاب کو دیکھیں گے تو اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا کریں گے جیسے کہ اس آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) ، یعنی کاش کے تو انہیں دیکھتا جب یہ آگ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کاش کے ہم لوٹائے جاتے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور باایمان بن کر رہتے اور آیت میں ہے لوگوں کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کر دے جس دن ان کے پاس عذاب آئے گا اس دن گنہگار کہیں گے پروردگار ہمیں تھوڑے سے وقت تک اور ڈھیل دے دے تو ہم تیری پکار پر لبیک کہہ لیں اور تیرے رسولوں کی فرمانبرداری کرلیں پس یہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے لئے نصیحت کہاں ؟ ان کے پاس میرے پیغامبر آچکے انہوں نے ان کے سامنے میرے احکام واضح طور پر رکھ دئیے لیکن ماننا تو کجا انہوں نے پرواہ تک نہ کی بلکہ انہیں جھوٹا کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا ان کی تعلیم کو غلط کہا اور صاف کہہ٠ دیا کہ یہ تو سکھائے پڑھائے ہیں ، انہیں جنوں ہو گیا ہے جیسے اور آیت میں ہے اس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا لیکن اب اس کے لئے نصیحت کہاں ہے ؟ اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَّقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ۚ وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 52؀ښ ) 34- سبأ:52 ) ، یعنی اس دن عذابوں کو دیکھ کر ایمان لانا سراسر بےسود ہے پھر جو ارشاد ہوتا ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اگر بالفرض ہم عذاب ہٹا لیں اور تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں تو بھی تم پھر وہاں جا کر یہی کرو گے جو اس سے پہلے کر کے آئے ہو جیسے فرمایا آیت ( وَلَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّـــلَجُّوْا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ 75؀ ) 23- المؤمنون:75 ) ، یعنی اگر ہم ان پر رحم کریں اور برائی ان سے ہٹا لیں تو پھر یہ اپنی سرکشی میں آنکھیں بند کر کے منہمک ہو جائیں گے اور جیسے فرمایا آیت ( وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ 28؀ ) 6- الانعام:28 ) ، یعنی اگر یہ لوٹائے جائیں تو قطعًا دوبارہ پھر ہماری نافرمانیاں کرنے لگیں گے اور محض جھوٹے ثابت ہوں گے ۔ دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر عذاب کے اسباب قائم ہو چکنے اور عذاب آ جانے کے بعد بھی گو ہم اسے کچھ دیر ٹھہرا لیں تاہم یہ اپنی بد باطنی اور خباثت سے باز نہیں آنے کے اس سے یہ لازم آتا کہ عذاب انہیں پہنچا اور پھر ہٹ گیا جیسے قوم یونس کی حضرت حق تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قوم یونس جب ایمان لائی ہم نے ان سے عذاب ہٹا لیا ۔ گویا عذاب انہیں ہونا شروع نہیں ہوا تھا ہاں اس کے اسباب موجود و فراہم ہو چکے تھے ان تک اللہ کا عذاب پہنچ چکا تھا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ اپنے کفر سے ہٹ گئے تھے پھر اس کی طرف لوٹ گئے ۔ چنانچہ حضرت شعیب اور ان پر ایمان لانے والوں سے جب قوم نے کہا کہ یا تو تم ہماری بستی چھوڑ دو یا ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ تو جواب میں اللہ کے رسول نے فرمایا کہ گو ہم اسے برا جانتے ہوں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے رکھی ہے پھر بھی اگر ہم تمہاری ملت میں لوٹ آئیں تو ہم سے بڑھ کر جھوٹا اور اللہ کے ذمے بہتان باندھنے والا اور کون ہو گا ؟ ظاہر ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اس سے پہلے بھی کبھی کفر میں قدم نہیں رکھا تھا اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ تم لوٹنے والے ہو ۔ اس سے مطلب اللہ کے عذاب کی طرف لوٹنا ہے بڑی اور سخت پکڑ سے مراد جنگ بدر ہے حضرت ابن مسعود اور آپ کے ساتھ کی وہ جماعت جو دخان کو ہو چکا مانتی ہے وہ تو ( بطشہ ) کے معنی یہی کرتی ہے بلکہ حضرت ابن عباس سے حضرت ابی بن کعب سے ایک اور جماعت سے یہی منقول ہے گو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے لیکن بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قیامت کے دن کی پکڑ ہے گو بدر کا دن بھی پکڑ کا اور کفار پر سخت دن تھا ابن جریر میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ گو حضرت ابن مسعود اسے بدر کا دن بتاتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس سے مراد قیامت کا دن ہے اس کی اسناد صحیح ہے حضرت حسن بصری اور عکرمہ سے بھی دونوں روایتوں میں زیادہ صحیح روایت یہی ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی حق اور اس کے دلائل کے سامنے آگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزاء اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] اس شک کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس معاملہ کے مقدمہ میں بھی شک میں مبتلا ہیں۔ محض باپ دادا کی تقلید میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی پورا یقین نہیں ہے۔ لہذا اس مقدمہ کا نتیجہ بھی ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا ہے اور وہ ان سب باتوں کو محض کھیل تماشا ہی سمجھتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ بڑے زور شور سے اس بات کے مدعی ہیں کہ قیامت اور آخرت وغیرہ کوئی چیز نہیں اور نہ ہی ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ مگر ان کے دلوں کے اندر یہ شک موجود رہتا ہے کہ اگر قیامت کا عقیدہ درست ہوا تو ہماری شامت آجائے گی۔ لہذا وہ دونوں طرف سے شک و شبہ میں پڑے ہوتے ہیں۔ انہیں کسی چیز کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ اور جو قیامت کے متعلق باتیں بناتے اور مذاق اڑاتے ہیں یہ سب کچھ شغل اور کھیل تماشے کے طور پر کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بل ھو فی شک یلعبون : اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین ، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشاؤں تک اور گھسا کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک ، یہ حیرت انگیز اور حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اسی طرح ایک مشرک انسان اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہوسکتے۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انھیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہوجائے اور نہ یہی ہوتا ہے کہ انھیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین اور اطمینان حاصل رہے۔ اس کے بجائے اس کا دین درحقیقت شک پر قائم ہوتا ہے، خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ شک کی بےچینی سے نکل کر یقین و اطمینان کے سکون سے بہرہ ور ہو سکیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے، جس کی فکر ہیں وہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی طاری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل، تو وہ حقیقت میں ان کے لئے ایک کھیل، ایک تفریح اور ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے، جن پر وہ سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی صرف نہیں کرسکتے ، مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کئے جا رہے ہیں، انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تو تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔ (تفہیم القرآن بادنیٰ تصرف)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلْ ہُمْ فِيْ شَكٍّ يَّلْعَبُوْنَ۝ ٩- شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

مگر یہ کفار مکہ قیامت کے قیام کے بارے میں شک میں ہیں اور اس کے استہزاء میں مصروف ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ یَّلْعَبُوْنَ ” لیکن یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اہل ِمکہ ّکے سامنے قرآن پیش کرتے تھے تو ان میں سے اکثر لوگ اسے کلام اللہ ماننے کے بجائے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے۔ پھر اسی بنا پر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق بھی اڑاتے تھے کہ دیکھیں جی یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :10 اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ دہریے ہوں یا مشرکین ، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے ۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر خواہ کتنا ہی سخت ہو ، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشانوں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک یہ حیرت انگیز ، حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا ۔ اسی طرح ایک مشرک اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو ، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی یہ پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے ۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہو جائے ، نہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین و اطمینان حاصل رہے ۔ اس کے بجائے ان کا دین در حقیقت شک پر قائم ہوتا ہے خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ شک ان کے اندر بے چینی کیوں نہیں پیدا کرتا ، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ یقین کی اطمینان بخش بنیاد انہیں مل سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے جس کی فکر میں وہ اپنے دل اور دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ رہے دین کے مسائل ، تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل ، ایک تفریح ، ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے جن پر سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی وہ غور و فکر میں صرف نہیں کر سکتے ۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں ۔ انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں ۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani