20۔ 1 اس دعوت و تبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔
[١٥] فرعون کا سیدنا موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ :۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اندر ہی اندر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پھیل رہی تھی۔ بنی اسرائیل کے علاوہ قوم فرعون کے بھی بہت سے آدمی درپردہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاچکے تھے اور فرعون کو اپنی سلطنت کے چھن جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور اس نے اپنے درباریوں سے اور قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کئے دیتا ہوں ورنہ وہ تمہارا دین بھی تباہ کر دے گا اور ملک میں سخت بدامنی پھیلا دے گا اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آچکا ہوں۔ لہذا تم میرا بال بھی بیکا نہ کرسکو گے۔ مجھے رجم کرنا تو دور کی بات ہے۔
وانی عذت بربی و ربکم ان ترجمون، یہ اس وقت کی بات ہے جب موسیٰ کی دعوت اندر ہی اندر دور تک پھیل گئی، حتیٰ کہ فرعون کی قوم کے کئی آدمی بھی پوشیدہ طور پر ان پر ایمان لے آئے، اس وقت فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ فرعونیوں کا ارادہ انھیں سنگسار کر کے بدترین طریقے سیق تل کرنے کا ہے، تو اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اس بات سے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ پکڑتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو، کیونکہ وہ میرا ہی نہیں تمہارا بھی مالک ہے، تم اس سے زبردست ہو کر مجھے رجم نہیں کرسکتے۔ سورة مومن (27 26) میں فرعون کے قتل کے اعلان اور موسیٰ علیہ کی دعا اور اللہ کی پناہ میں جانے کا مفصل ذکر ہے۔
معارف و مسائل - (آیت) وَاِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ (میں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں اس سے کہ تم مجھے رجم کرو) رجم کے معنی سنگسار کرنے یعنی پتھر مار مار کردینے کے بھی آتے ہیں اور کسی کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کے بھی۔ یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں لیکن راجح یہ ہے کہ یہاں سنگسار کرنے کے معنی مراد ہیں کیونکہ فرعون کی قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل وغیرہ کی دھمکیاں دے رہی ہوگی۔
وَاِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ ٢٠ ۡ- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔
(٢٠۔ ٢١) اور میں اپنے پروردگار کی اور تمہارے پروردگار کی پناہ حاصل کرتا ہوں اس سے کہ تم لوگ مجھے قتل کرو اور اگر تم میری رسالت کی تصدیق نہیں کرتے تو مجھ سے علیحدہ رہو۔ لالی ولا علی
آیت ٢٠ وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ ” اور میں نے پناہ پکڑ لی ہے اپنے اور تمہارے رب کی اس بات سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ “
6: فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی دعوت کے جواب میں قتل کی دھمکیاں دی تھیں۔ یہ ان کا جواب ہے۔