22۔ 1 یعنی جب انہوں دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کی بجائے، اس کا کفر وعناد بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیئے۔
[١٧] سیدناموسیٰ کی اپنے اللہ سے فریاد :۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ فریاد ویسی ہی فریاد ہے جو انبیائے کرام اپنی قوم کو سمجھانے اور ان کی طرف سے پوری طرح مایوس ہوجانے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ گویا اس فریاد کا زمانہ ٹھیک وہی زمانہ ہے۔ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل اور ایمانداروں کے ہمراہ ہجرت کرنے کا حکم ملا تھا۔
فدعا ربہ ان ھولآ قوم مجرمون، یہاں ایک لمبا قصہ حذف کردیا گیا ہے جو کئی سال تک موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت، ہر طرح کی آزمائشوں کے باوجود فرعون کی سرکشی، بنی اسرائیل پر بےپناہ مظالم اور ان کے بےمثال صبر پر مشتمل ہے۔ ” فدعا ربہ “ کے ساتھ اس قصے کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے تمام معجزے دیکھنے، ہر بار ایمان لانے کا عہد کرنے اور اسے توڑ دینے کے بعد صاف لفظوں میں کہہ دیا :(مھما تاتنا بہ من ایۃ لتسحرنا بھا، فما نحن لک بمومنین) (الاعراف :132)” تو ہمارے پاس جو نشانی بھی لے آئے، تاکہ ہم پر اس کے ساتھ جادو کرے تو ہم تیری بات ہرگز ماننے والے نہیں۔ “ تو ان کے ایمان لانے سے پوری طرح مایوس ہونے کے بعد نوح (علیہ السلام) کی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کے خلاف اپنے رب سے دعا کی کہ یہ لوگ مجرم ہیں، کسی طرح ماننے والے نہیں۔ سورة یونس میں ہے :(وقال موسیٰ ربنا انک اتیت فرعون وملاہ زینۃ و اموالا فی الحیوۃ الدنیا ، ربنا لیصلوا عن سبیلک ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم فلا یومنوا حتی یروا العذاب الالیم) (یونس : ٨٨) ” اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب بیشک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں بہت سی زینت اور اموال عطا کئے ہیں، اے ہمارے رب تاکہ وہ تیرے راستے سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں۔ “
فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ ٢٢- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
(٢٢۔ ٢٣) مگر جب انہوں نے اپنی ہلاکت خود ہی مول لے لی تب موسیٰ نے دعا کی کہ پروردگار یہ تو مشرکین ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم کیا کہ تم بنی اسرائیل کو رات ہی رات میں لے کر چلے جاؤ کیونکہ تم لوگوں کا دریا پر تعاقب ہوگا۔
آیت ٢٢ فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ ” پھر اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم قوم ہے۔ “- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیاـ:
سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :20 یہ حضرت موسیٰ کی آخری رپورٹ ہے جو انہوں نے اپنے رب کے سامنے پیش کی ۔ یہ لوگ مجرم ہیں یعنی ان کا مجرم ہونا اب قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے ۔ کوئی گنجائش ان کے ساتھ رعایت برتنے اور ان کو اصلاح حال کا مزید موقع دینے کی باقی نہیں رہی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ حضور آخری فیصلہ فرمائیں ۔