Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہوجانا یا کردینا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] کفارکایہ اعتراض کہ مارے آباء کو زندہ کرکے دکھاؤ :۔ کفار کا یہ مطالبہ تین وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ ایک یہ کہ رسول کی ذمہ داری صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ خدائی اختیارات کا نہ وہ کبھی دعویٰ کرتا ہے اور نہ اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ جب کوئی کافر ایسا مطالبہ کرے تو اس کا کوئی بڑا بزرگ اسے دوبارہ زندہ کرکے دکھا دے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی نبی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اسی دنیا میں بھیجا جائے گا بلکہ وہ جہاں ہی دوسرا ہوگا جس میں مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ نبی یہ خبر دیتا ہے کہ تمہاری دوبارہ زندگی قیامت کے دن ہوگی تو کیا یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ہی ایک اور قیامت آجائے۔ حالانکہ قیامت کا وقت مقرر ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ پھر جب ان کے باپ دادا یا یہ خود زندہ ہوں گے تو انہیں اپنے اس مطالبہ کی ہوش بھی رہے گی بلکہ دوسرے کئی قسم کے فکر دامن گیر ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فاتوا با بآئنا ان کنتم صدقین : یعنی ہم نے آج تک کسی فوت شدہ کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا، اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ دوسری زندگی ہے تو ہمارے آبا و اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ، اگر تم سچے ہو، ورنہ ہم تمہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ وہ اپنی اس دلیل کو بہت مضبوط سمجھتے تھے حالانکہ یہ کئی وجہوں سے بالکل فضول ہے، کیونکہ انھیں یہ کس نے کہا کہ وہ اسی دنیا میں آئے گی ؟ وہ تو ایک نئی دنیا ہوگی، جس میں تمام مردے بیک وقت اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر انھیں یہ کس نے کہا ہے کہ مردوں کا زندہ کرنا پیغمبر کے اختیار میں ہے ؟ اس کا کام تو صرف پیغام پہنچانا ہے، مردے زندہ کرنا یا معجزوں کے مطالبے پورے کرنا نہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے وہ اسی وقت آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اب قیامت سے پہلے قیامت کا مطالبہ کون سی دانش مندی ہیڈ اگر کسی کو آئندہ ہونے والے کسی کام کی اطلاع دی جائے تو کیا یہ کہہ کر اسے جھٹلایا جاسکتا ہے کہ یہ کام فوراً کر کے دکھاؤ، اگر ابھی نہیں ہوتا تو کبھی بھی نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے یہ نہایت بےعقلی کی بات ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - (آیت) فَاْتُوْا بِاٰبَاۗىِٕنَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادوں کو لا موجود کرو) قرآن کریم نے ان کے اس اعتراض کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ بالکل ظاہر تھا اور وہ یہ کہ تمام انسانوں کی دوبارہ زندگی کا دعویٰ آخرت میں کیا جا رہا ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ سب کو زندہ کرے گا۔ دنیا میں موت وحیات قدرت کے مخصوص قوانین اور مصالح کی پابند ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس وقت کسی کو دوسری زندگی عطا نہیں فرما رہا تو یہ اس بات کی دلیل کیسے بن گئی کہ آخرت میں بھی وہ دوبارہ زندہ نہ کرسکے گا۔ منطقی اصطلاح میں اس جواب کو یوں تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ مقید کا عدم وقوع مطلق کے عدم وقوع کو مستلزم نہیں ہوسکتا (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاْتُوْا بِاٰبَاۗىِٕنَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٣٦- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تو ہمارے آباؤ اجداد کو لاکر زندہ کرو تاکہ ہم خود ہی ان سے دریافت کرلیں کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ فَاْتُوْا بِاٰبَآئِنَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ” تو لائو ذرا ہمارے آباء و اَجداد کو ‘ اگر تم سچے ہو “- اپنے موقف کے حمایت میں وہ لوگ یہ دلیل دیتے کہ اگر تم بعث بعد الموت کے عقیدے کو سچ مانتے ہو تو ذرا ہمارے فوت شدہ آباء و اَجداد کو زندہ کر کے دکھائو

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :31 ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم نے کبھی مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ہے ، اس لیے ہم یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہوگی ۔ تم لوگ اگر دعویٰ کرتے ہو کہ دوسری زندگی ہوگی تو ہمارے اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ تاکہ ہمیں زندگی بعد موت کا یقین آ جائے ۔ یہ کام تم نے نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ یہ گویا ان کے نزدیک حیات بعد الموت کی تردید میں بڑی پختہ دلیل تھی ۔ حالانکہ سراسر مہمل تھی ۔ آخر ان سے یہ کہا کس نے تھا کہ مرنے والے دوبارہ زندہ ہو کر اسی دنیا میں واپس آئیں گے؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مسلمان نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ ہم مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani