Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی یہ کفار مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد وثمود وغیرہ سے زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کردیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] قوم تبع کا ذکر :۔ تُبع شاہان یمن کا لقب ہے۔ جو حمیری قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسے ایران کے بادشاہوں کا لقب کسریٰ ، روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر اور حبشہ کے بادشاہوں کا لقب نجاشی تھا۔ تبع قوم تبع کے جدامجد کا نام تھا۔ یہ بذات خود ایک ایماندار آدمی تھا اور اپنے وقت میں اس کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس نے بہت سے علاقے بھی فتح کرلیے تھے۔ مگر اس کے بعد میں آنے والے لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے اور اللہ سے سرکشی کی راہ اختیار کرلی تھی۔ ان بادشاہوں کا زمانہ ١١٥ ق م سے ٣٠٠ ء تک ہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے۔- [٢٨] کفار کے اعتراض کا پہلاجواب تاریخ سے متعلق :۔ پہلے کے لوگوں سے مراد قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم نیز نمرود، شداد اور فراعنہ مصر وغیرہ ہیں۔ اپنے اپنے دور میں ان سب قوموں کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اور یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور آخرت کے منکر تھے اور یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ اخلاقی انحطاط فتنہ و فساد اور ظلم و جور میں مبتلا ہوگئی اور بالآخر اسے تباہ کردیا گیا۔ کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ ان قوموں نے جب آخرت کا انکار کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان کو ہلاک کر ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ وہ تم سے ہر لحاظ سے بہتر تھے تو پھر تم کس کھیت کی مولی ہو کہ تم اپنے انجام سے بچ جاؤ گے۔ یہ گویا کفار مکہ کی اس کٹ حجتی کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباء واجداد کو لاکے دکھا دو کا پہلا جواب ہے جو تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) اھم خیرام قوم تبع :، تبع یمن کے قبیلہ حمیز ہ کے بادشاہوں کا لقب تھا، جیسے کرسیٰ ایران کے بادشاہوں کا، قیصر روم کے بادشاہوں کا، فرعون مصر کے بادشاہوں کا اور نجاشی حبشہ کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ یہ حمیز کا بادشاہ تبع مومن تھا اور اس کی قوم کافر تھی، اس لئے اس کی قوم کی مذمت کی ہے، اس کی نہیں۔- (٢) والذین من قبلھم : پہلے لوگوں سے مراد عاد وثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط ، اصحاب مدین اور قوم فرعون وغیرہ ہے۔- (٣) اھلکتھم انھم کانوا مجرمین : یہ کفار کے اعتراض کا تاریخ سے جواب ہے کہ جو شخص یا قوم آخرت کا انکار کرے گی اسے کوئی چیز مجرم بننے سے روک نہیں سکتی، کیونکہ اسے باز پرس کی فکر ہی نہیں ہوتی، وہ اپنی خواہشات کے پیچھے بےلگام دوڑے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کی سرکشی، ظلم و زیادتی اور حد سے بڑھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ” یہ لوگ بہتر ہیں یا قوم تبع اور اس سے پہلے کے لوگ “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ تو اس خوش حالی اور قوت و شوکت کو پہنچ ہی نہیں سکے جو تبع کی قوم اور اس سے پہلے کی اقوام کو حاصل رہی ہے، جب ان کی خوش حالی انھیں اس زوال سے نہیں بچا کسی جو قیامت کے انکار کی وجہ سے ان پر آیا تو ان بےچاروں کی کیا حیثیت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قوم تبع کا واقعہ : (آیت) اَهُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّــعٍ ، (کیا یہ لوگ شان و شوکت کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں یا تبع کی قوم) قرآن کریم میں قوم تبع کا ذکر دو جگہ آیا ہے۔ ایک یہاں اور دوسرے سورة ق میں لیکن دونوں مقامات پر اس کا صرف نام ہی مذکور ہے کوئی مفصل واقعہ مذکور نہیں۔ اس لئے اس بارے میں مفسرین نے طویل بحیثیں کی ہیں کہ اس سے کون مراد ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ تبع کسی فرد معین کا نام نہیں، بلکہ یہ یمن کے ان حمیری بادشاہوں کا متواتر لقب رہا ہے جنہوں نے ایک عرصہ دراز تک یمن کے مغربی حصہ کو دارالسلطنت قرار دے کر عرب، شام، عراق اور افریقہ کے بعض حصوں پر حکومت کی۔ اسی لئے تبع کی جمع تبابعہ آتی ہے اور ان بادشاہوں کو تبابعہ یمن کہا جاتا ہے یہاں ان تبابعہ میں سے کونسا تبع مراد ہے ؟ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی تحقیق زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد تبع اوسط ہے جس کا نام اسعد ابوکریب بن ملے کرب یمانی ہے۔ یہ بادشاہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے کم از کم سات سو سال پہلے گزرا ہے اور حمیری بادشاہوں میں اس کی مدت سلطنت سب سے زیادہ رہی ہے۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں بہت سے علاقے فتح کئے یہاں تک کہ سمر قند تک پہنچ گیا۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ انہی فتوحات کے دوران وہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی بستی سے گزرا اور اس پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ اہل مدینہ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دن کے وقت اس سے جنگ کرتے اور رات کو اس کی مہمانی کرتے۔ اس سے اس کو شرم آئی اور اس نے مدینہ والوں سے لڑائی کا ارادہ منسوخ کردیا۔ اسی دروان وہاں کے دو یہودی عالموں نے اسے تنبیہ کی کہ اس شہر پر اس کا بس نہیں چل سکتا اس لئے کہ یہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام ہجرت ہے، چناچہ وہ ان یہودیوں کو ساتھ لے لے کر یمن چلا آیا اور ان یہودیوں کی تعلیم و تبلیغ سے متاثر ہو کر اس نے دین موسوی کو قبول کرلیا جو اس وقت دین برحق تھا، پھر اس کی قوم بھی اس سے متاثر ہو کر اسلام لے آئی لیکن اس کی وفات کے بعد یہ قوم پھر گمراہ ہوگئی اور اس نے بت پرستی اور آتش پرستی شروع کردی جس کے نتیجے میں ان پر وہ قہر الٰہی نازل ہوا جس کا مفصل ذکر سورة سبا میں آ چکا ہے (خلاصہ از تفسیر ابن کثیر ص 144 ج 4) اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس تبع کا یہاں ذکر ہے وہ بذات خود اسلام لے آیا تھا البتہ اس کی قوم بعد میں گمراہ ہوگئی تھی یہی وجہ ہوئی کہ قرآن کریم میں دونوں جگہ قوم تبع کا ذکر کیا گیا ہے، تبع کا نہیں، اس کی تائید حضرت سہل بن سعد اور حضرت ابن عباس کی روایتوں سے بھی ہوتی ہے جنہیں ابن ابی حاتم، امام احمد اور طبرانی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، لاتسبوا تبعا فانہ قد کان اسلم تبع۔ کو برا بھلا مت کہو، اس لئے کہ وہ اسلام لے آیا تھا۔ (حوالہ مذکور)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَہُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ۝ ٠ ۙ وَّالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۭ اَہْلَكْنٰہُمْ۝ ٠ ۡاِنَّہُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ۝ ٣٧- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - تُبَّعٌ- وتُبَّعٌ کانوا رؤساء، سمّوا بذلک لاتباع بعضهم بعضا في الریاسة والسیاسة، وقیل : تُبَّع ملك يتبعه قومه، والجمع التَّبَابِعَة قال تعالی: أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ [ الدخان 37] ، والتُّبَّعُ : الظل .- تبع ۔ روساء ( یمن ) کا لقب تھا کیونکہ وہ سیاست دریاست میں ایک دوسرے کی اتباع کرتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تبع ایک بادشاہ کا لقب ہے جس کی رعیت اس کی مطیع اور فرمانبردار تھی اس کی جمع تبابعۃ قرآن میں ہے :۔ أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ [ الدخان 37] بھلا یہ اچھے ہیں یا تبع کی قوم ۔ التبع ( ایضا) سا یہ کیونکہ وہ دھوپ کے پیچھے لگا رہتا ہے ۔ هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں محمد آپ کی قوم شان و شوکت میں بڑھی ہوئی ہے یا تبع یعنی حمیر کی قوم اس کا نام اسعد بن ملیکوب اور کنیت ابو کرب تھی، متبعین کی کثرت کی وجہ سے تبع نام پڑگیا اور جو قومیں قوم تبع سے پہلے گزری ہیں مگر ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا اس لیے وہ مشرک تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ اَہُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍلا وَّالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ” کیا یہ بہتر ہیں یا ُ تبع ّکی قوم اور وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے ؟ “- یمن کے قدیم بادشاہ ” تبع “ کہلاتے تھے۔ جس طرح پرانے زمانے میں مصر کے بادشاہوں کا لقب ” فرعون “ اور عراق کے بادشاہوں کا لقب ” نمرود “ تھا اسی طرح یمن کے بادشاہوں کا لقب ” تبع “ تھا۔- اَہْلَکْنٰہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ ” ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا ‘ بیشک وہ سب کے سب مجرم تھے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :32 تبع قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا ، جیسے کسریٰ ، قیصر ، فرعون وغیرہ القاب مختلف ممالک کے بادشاہوں کے لیے مخصوص رہے ہیں ۔ یہ لوگ قوم سبا کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے 115 قبل مسیح میں ان کو سبا کے ملک پر غلبہ حاصل ہوا اور 300 عیسیوی تک یہ حکمراں رہے ۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے ہیں ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ سبا ، حاشیہ نمبر 37 ) سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :33 یہ کفار کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انکار آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص ، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی ۔ اخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور تاریخ انسانی شاہد ہے کہ زندگی کے اس نظریہ کو جس قوم نے بھی اختیار کیا ہے وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور اس سے پہلے کے لوگ ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ تو اس خوش حالی و شوکت و حشمت کو پہنچ ہی نہیں سکے ہیں جو تبع کی قوم ، اور اس سے پہلے سبا اور قوم فرعون اور دوسری قوموں کو حاصل رہی ہے ۔ مگر یہ مادی خوشحالی اور دنیاوی شان و شوکت اخلاقی زوال کے نتائج سے ان کو کب بچا سکتی تھی ۔ یہ اپنی ذرا سی پونجی اور اپنے ذرائع و وسائل کے بل بوتے پر بچ جائیں گے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ سباء ، حواشی نمبر 25 ۔ 36 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: تبع دراصل یمن کے بادشاہوں کا لقب تھا، قرآن کریم نے یہ متعین نہیں فرمایا کہ یہاں کونسا تبع مراد ہے، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں مراد وہ تبع ہے جس کا نام اسعد ابوکریب تھا، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے سات سو سال پہلے گزرا ہے، یہ خود دین موسوی پر تھا، جو اس وقت دین برحق تھا، ایمان لے آیا تھا ؛ لیکن اس کی قوم نے بعد میں بت پرستی اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا۔