صور پھونکنے کے بعد یہاں اللہ عزوجل اپنے عدل کا بیان فرما رہا ہے اور بےفائدہ لغو اور عبث کاموں سے اپنی پاکیزگی کا اظہار فرماتا ہے جیسے اور آیت میں ارشاد ہے کہ ہم نے اپنی مخلوق کو باطل پیدا نہیں کیا ایسا گمان ہماری نسبت صرف ان کا ہے جو کفار ہیں اور جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور ارشاد ہے آیت ( افحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون ) الخ ، یعنی کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار و عبث پیدا کیا ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف آنے ہی کے نہیں ؟ اللہ حق مالک بلندیوں اور بزرگیوں والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے فیصلوں کا دن یعنی قیامت کا دن جس دن باری تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان حق فیصلے کرے گا کافروں کو سزا اور مومنوں کو جزا ملے گی ۔ اس دن تمام اگلے پچھلے اللہ کے سامنے جمع ہوں گے یہ وہ وقت ہوگا کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گا رشتے دار رشتے دار کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١ ) 23- المؤمنون:101 ) یعنی جب صور پھونک دیا جائے گا تو نہ تو کوئی نسب باقی رہے گا نہ پوچھ گچھ ۔ اور آیت میں ہے کوئی دوست اس دن اپنے دوست کو پریشان حالی میں دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہ پوچھے گا اور نہ کوئی اس دن کسی کی کسی طرح کی مدد کرے گا نہ اور کوئی بیرونی مدد آئے گی مگر ہاں اللہ کی رحمت جو مخلوق پر شامل ہے وہ بڑا غالب اور وسیع رحمت والا ہے ۔
38۔ 1 یہی مضمون اس سے قبل (وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۚ فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ 27ۭ ) 38 ۔ ص :27) (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ 115 فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ 116) 23 ۔ المؤمنون :116-115) (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ ۭ وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ 85) 15 ۔ الحجر :85) و غیرہا میں بیان کیا گیا ہے۔
وما خلقنا السموت والارض …: یہ منکرین قیامت کے اعتراض کا عقلی جواب ہے کہ اگر سب لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کا اور نیک و بد کی جزا و سزا کا کوئی دن نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی عظیم کائنات محض کھیلنے کیلئے بنائی ہے، اس کا کوئی مقصد نہیں، اس کے ہاں نیک و بد اور ظالم و مظلوم برابر ہیں، نہ اس کے ہاں عدل ہے نہ حکمت۔ فرمایا ایسا نہیں ہے، ہم نے آسمان و زمین کو حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور قیامت قائم کرنا ہماری حکمت اور عدل کا تقاضا ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے، اس لئے آخرت کی تیاری سے غافل ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے، دیکھیے سورة انبیاء (16 تا 18) مومنوں (١١٥، ١١٦) اور سورة قیامہ (٣٦ تا ٤٠)
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا لٰعِبِيْنَ ٣٨- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - لعب - أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ،- ( ل ع ب ) اللعب - ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64]
(٣٨۔ ٤٠) تو پھر آپ کی قوم ان کی ہلاکت اور ان کے عذاب سے بھی نہیں ڈرتی اور ہم نے تمام مخلوقات کو بےکار نہیں بنایا ہم نے حق قبول کرنے کے لیے بنایا ہے باطل قبول کرنے کے لیے نہیں، مگر مکہ والے نہ اس چیز کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں بیشک مخلوق کے درمیان فیصلہ کے دن ان سب کا وقت مقرر ہے۔
آیت ٣٨ وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ ” اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے مابین ہے محض کھیل کے طور پر تو تخلیق نہیں فرمایا۔ “