[١٨] ایام اللہ کا مفہوم اور تذکیر بایام اللہ :۔ ایام اللہ کا لفظی اور لغوی معنی صرف اللہ کے دن ہے۔ مگر اس سے مراد عموماً وہ دن لیے جاتے ہیں جو کسی قوم کے تاریخی یادگار دن ہوں۔ اور یہ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ بلکہ بسا اوقات وہی دن ایک کے لیے برے اور دوسرے کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً جس دن فرعون اور آل فرعون غرق ہوئے تو یہ دن ان کے لیے سب سے برا دن تھا لیکن وہی دن بنی اسرائیل کے لیے سب سے اچھا دن تھا کہ انہیں فرعون جیسے ظالم اور جابر حکمران سے نجات نصیب ہوئی۔ اور عرفاً ایام اللہ سے مراد عموماً برے ہی دن لیے جاتے ہیں۔ تذکیر بایام اللہ ایک شرعی اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن جن قوموں پر اللہ کا عذاب آیا تھا اس کی وجوہ تلاش کرکے انسان ان واقعات سے عبرت اور سبق حاصل کرے۔ اور یہ قرآن کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اور بار بار اس کا ذکر ہوا ہے۔- [١٩] اس سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جو نہ اللہ کا عذاب آنے پر یقین رکھتے ہیں، نہ آخرت پر، بلکہ اللہ کے عذاب کے وعدوں کا مذاق اڑاتے اور پیغمبر کو کہتے کہ جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ؟ ایسے ہی لوگوں کے متعلق مومنوں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ان کی باتوں کا برا نہ منائیں۔ ان سے الجھیں نہیں۔ بلکہ درگزر سے کام لیں۔ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور ان کے اعمال کی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ اس آخری جملہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر مومن صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے ان کافروں سے درگزر کریں گے تو اللہ انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔
(١) قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون :” رجا برجو رجآئ “ (ي) کا معنی امید کرنا ہے۔ اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کر لئے جاتے ہیں۔- (٢)” ایام اللہ “ (اللہ کے دنوں) سے مراد کسی قوم کے یادگار تاریخی دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے، یا اپنے فرماں بردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ایک ہی دن کچھ لوگوں کے لئے سزا اور کچھ لوگوں کے لئے عطا کا دن ہوتا ہے، جیسے آل فرعون کا غرق ہونا ان کے لئے سزا کا دن تھا اور بنی اسرائیل کے لئے نجات کچھ لوگوں کے لئے عطا کا دن ہوتا ہے، جیسے آل فرعون کا غرق ہونا ان کے لئے سزا کا دن تھا اور بنی اسرائیل کے لئے نجات کا۔ صحیح مسلم میں ابی بن کعب (رض) سے مروی لمبی حدیث ہے، جس کے شروع میں ہے :(سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول انہ بینما موسیٰ (علیہ السلام) فی قومہ یذکر ھم بایام اللہ، وایام اللہ نعما وہ بلاوہ) (مسلم الفضائل، باب من فضائل الخضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 182 2380)” میں نے رسول الل ہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : ” ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم میں انھیں اللہ کے ایام کے ساتھ نصیحت کر رہے تھے اور ایام اللہ سے مراد اس کی نعمتیں اور اس کی مصیبتیں ہیں۔ “ لہذا ” جو لوگ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے “ یا ” جو لوگ اللہ کے دنوں کا خوف نہیں رکھتے “ سے مراد کفار ہیں جو اسک ی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بےخوف ہیں۔ مومن تو ہر وقت اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے غضب سے ڈرتے رہتے ہیں۔- (٣) یعنی ایمان والوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے دنوں سے بےخوف لوگ یعنی کفار ان پر جو زیادتی کریں یا تکلیف پہنچائیں تو اس کے بدلے کی فکر کے بجائے ان سے درگزر کریں اور انہیں معاف کردیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا تھا جب کفار کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، بعد میں جب قتال کی اجازت مل گئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہے، کیونکہ زیادتی برداشت کرنے کی تلقین اب بھی باقی ہے۔ رہی اسلام کی بنا پر کفار سے جنگ، تو اس کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہی بات درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہجرت اور کفار سے لڑائی کی اجازت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا جیسا کہ فرمایا :(لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتوا الکتب من قبلکم ومن الذین اشرکوا ذی کثیراً وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور) (آل عمران :186) ” یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ “ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ جا کر بھی جب آپ کے پاس قوت و سلطنت موجود تھی، کبھی اپنی ذات پر ہونے والی کسی زیادتی کا اتنقام نہیں لیا۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : (ما انتقم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لنفسہ فی شی یوتی الیہ حتی ینتھک من حرمات اللہ فینتقم اللہ) (بخاری، الحدود، باب کم التعزیر والادب ؟ 6853)” رسولا اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کسی چیز کا انتقام نہیں لیا، جس کا آپ سے معاملہ کیا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو چاک کیا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے لئے انتقام لیتے تھے۔ “- (٤) لیجزی قوماً بما کانوا یکسبون :” قوماً “ سے مراد کافر ہوں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے کہہ دے کر ان لوگوں کی زیادتی اور اذیت رسانی کو معاف کردیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ بجائے اس کے کہ وہ ان سے بدلا لیں خود اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کا بدلا دے جو وہ کماتے رہے تھے۔ ” قوما “ نکرہ ہے، اس لئے ترجمہ ” کچھ لوگوں کو “ کیا گیا ہے۔ اور اگر ” قوماً “ سے مراد مومن ہوں تو مطلب ہوگا کہ ایمان والوں سے کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کی زیادتی اور تکلیف کو معاف کردیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں اس صبر اور عفو و درگزر کا بدلا عطا فرمائے جو وہ کفار کی اذیت رسانی کے مقابل ی میں کرتے رہے تھے۔
(آیت) قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَّام اللّٰهِ (آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو خدا تعالیٰ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) اس آیت کے شان نزول میں دو روایت میں ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ مکرمہ میں کسی مشرک نے حضرت عمر (رض) پر دشنام طرازی کی تھی۔ حضرت عمر نے اس کے بدلے میں اسے کچھ تکلیف پہنچانے کا ارادہ فرمایا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے مطابق یہ آیت مکی ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ غزوہ بنو المصطلق کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے مریسیع نامی ایک کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی بھی مسلمانوں کے لشکر میں شامل تھا اس نے اپنے غلام کو کنوئیں سے پانی بھرنے کے لئے بھیجا، اسے واپسی میں دیر ہوگئی۔ عبداللہ بن ابی نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ حضرت عمر کا ایک غلام کنوئیں کے ایک کنارے پر بیٹھا ہوا تھا اس نے کسی کو اس وقت تک پانی بھرنے کی اجازت نہیں دی جب تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے مشکیزے نہیں بھر گئے اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ” ہم پر اور ان لوگوں پر تو وہی مثل صادق آتی ہے سمن کلبک یاکلک (اپنے کتے کو موٹا کرو تو وہ تم کو کھا جائے گا) “ حضرت عمر کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ تلوار سنبھال کر عبداللہ بن ابی کی طرف چلے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس روایت کے مطابق یہ آیت مدنی ہے (قرطبی و روح المعانی) ان روایتوں کی اسنادی تحقیق سے اگر دونوں کی صحت ثابت ہو تو دونوں میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ دراصل یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوچکی تھی، پھر جب غزوہ بنو المصطلق کے موقع پر اسی سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو اس موقع پر بھی تلاوت فرما کر واقعہ کو اس پر بھی منطبق فرمایا اور شان نزول کی روایات میں ایسا بکثرت ہوا ہے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یاد دہانی کے لئے غزوہ بنوالمصطلق کے واقعہ میں دوبارہ یہ آیت لے آئے ہوں کہ یہ موقع اس آیت پر عمل کرنے کا ہے۔ اصول تفسیر کی اصطلاح میں اسے ” نزول مکرر “ کہا جاتا ہے اور آیت میں ایام اللہ کے لفظ سے مراد بیشتر مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے وہ معاملات ہیں جو وہ آخرت میں انسانوں کے ساتھ کرے گا یعنی جزا و سزا کیونکہ ” ایام ‘ کا لفظ ” واقعات و معاملات “ کے معنی میں عربی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔- یہاں دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ بات یوں بھی کہی جاسکتی تھی کہ ” آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ وہ مشرکین سے درگزر کریں۔ “ اس کے بجائے کہ یوں کہا گیا ہے کہ ” ان لوگوں سے درگزر کریں، جو خدا تعالیٰ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے۔ “ اس سے شاید اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ ان لوگوں کو اصل سزا آخرت میں دی جائے گی اور چونکہ یہ لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے اس لئے یہ سزا ان کے لئے غیر متوقع اور اچانک ہوگی اور غیر متوقع تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اسلئے ان کو پہنچنے والا عذاب بہت سخت ہوگا اور اس کے ذریعہ ان کی تمام بدعنوانیوں کا پورا پورا بدلہ لے لیا جائے گا۔
قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَّامَ اللہِ لِيَجْزِيَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ١٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے
مشرکین سے کیسا برتائو کیا جائے - ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے قتادہ سے قول باری (قل للذین امنوا یغفروا للذین لا یرجون ایام اللہ، جو لوگ ایمان لے آئے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اسے قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم مشرکین کو قتل کرو انہیں جہاں بھی پائو) نے منسوخ کردیا ہے۔
آپ حضرت عمر فاروق اور ان کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ مکہ والوں سے جو کہ عذاب الہی سے نہیں ڈرتے، درگزر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ حضرت عمر اور ان کے ساتھیوں کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دے اور یہ درگرز کرنے کا حکم ہجرت سے پہلے کا تھا پھر سب کو قتال کا حکم دے دیا گیا۔
آیت ١٤ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ - اہل ِایمان سے کہہ دیجیے کہ وہ ذرا درگزر کریں ان لوگوں سے جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے “- اس آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے تقریباً وسط میں نازل ہوئی ہے۔ گویا اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو شروع ہوئے پانچ چھ سال ہی ہوئے تھے ‘ یعنی ابھی اہل ِمکہ ّپر اتمامِ حجت نہیں ہوا تھا اور ابھی ان کے لیے مزید مہلت درکار تھی۔ چناچہ اہل ایمان کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ مشرکین کے مخالفانہ روییّسے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ یہ جہالت میں ڈوبے ہوئے گمراہ لوگ ہیں ‘ انہیں ” ایام اللہ “ کے بارے میں کوئی کھٹکا اور اندیشہ ہے ہی نہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ جس عذاب نے ماضی کی بڑی بڑی اقوام کو نیست و نابود کردیا تھا وہ ان پر بھی آسکتا ہے۔ لہٰذا ا بھی آپ لوگ ان سے درگزر کریں اور ان کے معاملے میں جلدی کرتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ نہ معلوم اللہ نے انہیں اس قدر ڈھیل کیوں دے رکھی ہے اور یہ کہ ان پر عذاب موعود آ کیوں نہیں جاتا ؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ابھی مزید مہلت دینا چاہتا ہے۔- لِیَجْزِیَ قَوْمًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ” تاکہ اللہ بدلہ دے ایک قوم کو ان کی اپنی کمائی کے مطابق۔ “
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں اَلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللہِ ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ وہ یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں ۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں ۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ، یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی ، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :19 مفسریں نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں ، اور آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے ۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں ان کا اجر عطا فرمائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی ۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ۔ لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ درگزر کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے ، بلکہ اس موقع پر صبر ، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں درگزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے ۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے ۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے ۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں ۔ جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو ، اس سے پرہیز نہ کیا جائے ۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے ۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا ۔ درگزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا ۔
2: اللہ کے دنوں سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دے، چاہے دنیا میں یا آخرت میں، اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس بات سے بے فکر ہیں، بلکہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی ایسے دن آنے والے ہیں۔ 3: درگزر کرنے کا مطلب یہاں یہ ہے کہ ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچائی جائیں ان کا بدلہ نہ لیں، یہ حکم مکی زندگی میں دیا گیا تھا جہاں مسلمانوں کو مسلسل صبر کی تلقین کی جارہی تھی، اور ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا تھا۔ 4: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ کافر لوگ ان پر جو ستم ڈھارہے ہیں تم ان کا فی الحال بدلہ نہ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کا بدلہ لے لے گا، چاہے وہ اسی دنیا میں ہو یا آخرت میں، اور ساتھ ہی یہ مطلب بھی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں صبر سے کام لیں گے، اور بدلہ نہیں لیں گے، اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کا بدلہ آخرت کی نعمتوں کی صورت میں ضرورعطا فرمائے گا۔