Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات کا تذکرہ بنی اسرائیل پر جو نعمتیں رحیم و کریم اللہ نے انعام فرمائی تھیں ان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کتابیں ان پر اتاریں رسول ان میں بھیجے حکومت انہیں دی ۔ بہترین غذائیں اور ستھری صاف چیزیں انہیں عطا فرمائیں اور اس زمانے کے اور لوگوں پر انہیں برتری دی اور انہیں امر دین کی عمدہ اور کھلی ہوئی دلیلیں پہنچا دیں اور ان پر حجت اللہ قائم ہو گئی ۔ پھر ان لوگوں نے پھوٹ ڈالی اور مختلف گروہ بن گئے اور اس کا باعث بجز نفسانیت اور خودی کے اور کچھ نہ تھا اے نبی تیرا رب ان کے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود ہی کر دے گا اس میں اس امت کو چوکنا کیا گیا ہے کہ خبردار تم ان جیسے نہ ہونا ان کی چال نہ چلنا اسی لئے اللہ جل و علا نے فرمایا کہ تو اپنے رب کی وحی کا تابعدار بنا رہ مشرکوں سے کوئی مطلب نہ رکھ بےعلموں کی ریس نہ کر یہ تجھے اللہ کے ہاں کیا کام آئیں گے ؟ ان کی دوستیاں تو ان میں آپس میں ہی ہیں یہ تو اپنے ملنے والوں کو نقصان ہی پہنچایا کرتے ہیں ۔ پرہیز گاروں کا ولی و ناصر رفیق و کار ساز پروردگار عالم ہے جو انہیں اندھیروں سے ہٹا کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور کافروں کے دوست شیاطین ہیں جو انہیں روشنی سے ہٹا کر اندھیریوں میں جھونکتے ہیں یہ قرآن ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں دلائل کے ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت و بادشاہت یا فہم و قضا کی وہ صلاحیت ہے جو فضل خصوصیات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] حکم کے مختلف مفہوم :۔ حَکَم کا ایک معنی تو حکومت ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے، اس کا دوسرا معنی حکمت ہے۔ اور حکمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جس سے دینی معاملات اور احکام کی سمجھ اور فہم بھی شامل ہے۔ احکام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علمی ذرائع بھی اور عملی تدابیر اور طریق کار کا علم بھی۔ اور حکم کا تیسرا معنی فیصلہ اور قوت فیصلہ ہے۔ یعنی فریقین مقدمہ کا بیان لینے کے بعد ان کے درمیان صحیح اور مبنی بر عدل فیصلہ کرنے کا ملکہ۔- خ بنی اسرائیل پر اللہ کے احسانات :۔ یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو تمام دینی اور دنیوی نعمتوں سے نوازا تھا۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں پیغمبر مبعوث کئے گئے۔ ان میں سے کئی بادشاہ بھی تھے۔ انہیں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے کتاب تورات بھی دی تھی۔ اور کھانے پینے کو بہت وافر اور پاکیزہ رزق عطا کیا تھا۔ گویا اپنے دور میں بنی اسرائیل کو بقایا تمام اقوام پر ترجیح دے کر انہیں ہم ہی نے اپنے خصوصی انعامات سے نوازا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد اتینا بنی اسرآئیل الکتب …: پچھلی آیات ” اللہ الذی سخرلکم البحر “ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چند نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے تمام انسانوں پر فرمائی ہیں، تاکہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور کفر و شرک سے اجتناب کریں اور اس آیت میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو اس نے خصوصاً بنی اسرائیل پر کیں۔” الکتب “ سے مراد کوئی ایک کتاب نہیں بلکہ جنس کتاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے صاحب کتاب انبیاء مبعوث فرمائے ۔ تو رات، انجیل اور زبور تو عام معروف ہیں، ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے انھیں کتنی کتابیں عطا فرمائیں۔- (٢) والحکم :” الحکم “ کا معنی فیصلہ اور قوت فیصلہ ہے۔ یہاں مراد یہ ہے ک ہم نے بنی اسرائیل کو آزادی اور حکومت بخشی، جس میں وہ اپنے فیصلے خود کرسکتے تھے، کیونکہ اپنی حکومت کے بغیر اسلام پر پوری طرح عمل ہو نہیں سکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے نجات اور آزادی ملنے پر بنی اسرائیل کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بادشاہ بنادیا، کیونکہ آزادق کم کا ہر فرد ہی بادشاہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(واذ قال موسیٰ لقومہ یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیآء وجعلکم ملواک ، واتکم مالم یوت احداً من العلمین) (المائدہ : ٢٠)” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنادیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ “ بعد میں داؤد (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) اور دوسرے اسرائیلی حکمرانوں کی حکومتیں بھی انھیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ” الحکم “ میں شامل ہیں۔- (٢) ” والنبوۃ : بنی اسرائیل میں جتنے نبی مبعوث ہوئے کسی اور قوم میں اتنے زیادہ نبیوں کے آنے کا کہیں ذکر نہیں۔- (٤) ورزقنھم من الطیبت : ان طیبات میں صحرا کے اندر کھانے کے لئے من وسلویٰ ، پینے کیلئے بارہ چشمے اور بادلوں کا سایہ بھی شامل ہے اور بعد میں شام و مصر کی زرخیز و بابرکت زمین کی حکومت اور وہاں سے حاصل ہونے والی بیشمار نعمتیں بھی شامل ہیں۔- (٥) وفضلنھم علی العلمین : اس کیو ضاحت کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (٤٧) اور سورة دخان (٣٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (نبوت کوئی انوکھی چیز نہیں جو اس کا انکار کیا جائے، چناچہ اس کے قبل) ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (آسمانی) اور حکمت (یعنی علم احکام) اور نبوت دی تھی (یعنی ان میں انبیاء پیدا کئے تھے) اور ہم نے ان کو نفیس نفیس چیزیں کھانے کو دی تھیں (اس طرح کہ میدان تیہ میں من وسلویٰ نازل کیا اور ان کو ملک شام کا مالک بنایا جو برکات ارضیہ کا معدن ہے) اور ہم نے (بعض امور میں مثلاً سمندر کو چیر دینا، ابر کا سایہ کرنا وغیرہ) ان کو دنیا جہان والوں پر فوقیت دی اور ہم نے ان کو دین کے بارے میں کھلی کھلی دلیلیں دیں (یعنی ان کو بڑے صریح معجزات دکھلائے، غرض حسی معنوی، علمی ہر طرح کی نعمتیں دیں) سو (چاہئے تو یہ تھا کہ خوب اطاعت کرتے مگر) انہوں نے علم ہی کے آنے کے بعد باہم اختلاف کیا بوجہ آپس کی ضدا ضدی کے (جس کا بیان پارہ دوم رکوع (آیت) سل بنی اسرائیل الخ میں ہوچکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو علم اختلافات ختم کرنے کا سبب ہونا چاہئے تھا انہوں نے نفسا نفسی ان امور میں (عملی) فصلہ کر دے گا جن میں یہ باہم اختلاف کیا کرتے تھے، پھر (بنی اسرائیل میں دور نبوت ختم ہونے کے بعد) ہم نے آپ کو (نبوت دی اور آپ کو) دین کے ایک خاص طریقے پر کردیا، سو آپ اسی طریقے پر چلے جائیے (یعنی عمل میں بھی اور تبلیغ میں بھی) اور ان جہلاء کی خواہشوں پر نہ چلئے (یعنی ان کی خواہش تو یہ ہے کہ آپ تبلیغ ترک کردیں اور اسی لئے یہ طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں تاکہ آپ تنگ ہو کر تبلیغ چھوڑ دیں۔ سو آپ سے گو یہ احتمال نہیں مگر امر تبلیغ کے اہتمام کے لئے آپ کو پھر اس کا حکم ہوتا ہے۔ آگے اسی طرز پر اس حکم کی علت فرماتے ہیں کہ) یہ لوگ خدا کے مقابلے میں آپ کے ذرا کام نہیں آسکتے (پس ان کا اتباع نہ ہونے پائے) اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں (اور ایک دوسرے کا کہنا مانتے ہیں) اور اللہ دوست ہے اہل تقویٰ کا (اور اہل تقویٰ اس کا کہنا مانا کرتے ہیں۔ سو جب آپ ظالم نہیں ہیں بلکہ سردار متقین ہیں تو آپ کو ان کی اتباع سے کیا نسبت ؟ البتہ احکام الٰہی کی اتباع سے خاص نسبت ہے، غرض آپ صاحب نبوت و شریعت حقہ ہیں اور) یہ قرآن (جو آپ کو ملا ہے یہ) عام لوگوں کے لئے دانشمندیوں کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے اور یقین (یعنی ایمان) لانے والوں کے لئے بڑی رحمت (کا سبب) ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ١٦ ۚ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے بنی اسرائیل کو علم و فہم عطا کیا تھا اور ان میں انبیاء کرام اور کتابیں بھی بھیجی تھیں اور من وسلوی یا یہ کہ غنیمتیں ان کو عطا کی تھیں اور ان کے زمانہ کے علماء پر ان کو کتاب و رسول کے ذریعے فضیلت دی تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کی کتاب ‘ حکومت اور نبوت “- وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ” اور ہم نے انہیں عطا کیں بہت سی پاکیزہ چیزیں ‘ اور انہیں ہم نے تمام جہان کی قوموں پر فضیلت دی۔ “- ان لوگوں کا نسبی تعلق اگرچہ حضرت ابراہیم سے ہے ‘ لیکن جس قوم کا نام بنی اسرائیل ہے وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کا لقب ” اسرائیل “ (اللہ کا بندہ) تھا اور آپ ( علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کہلائے۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو فضیلت سے نوازے جانے کا ذکر تکرار سے آیا ہے۔ اس فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں نبوت کا وہ سلسلہ جو دو پیغمبروں (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) سے شروع ہوا ‘ چودہ سو برس تک بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے جاری رہا۔ اس دوران ان کے ہاں پے در پے نبی آئے اور نبوت کی کڑی کے ساتھ کڑی یوں ملتی گئی کہ ایک مسلسل زنجیر بن گئی۔ پھر جس طرح اس زنجیر کا آغاز دو پیغمبروں سے ہوا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی دو پیغمبروں یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا۔ بہر حال جتنے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف آئے ‘ دنیا میں کسی اور قوم کی طرف اتنے انبیاء نہیں آئے۔ اقوامِ عالم پر بنی اسرائیل کی یہ فضیلت آج بھی قائم ہے۔- بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمارے لیے اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جب دین کی طرف پیٹھ پھر کر ‘ دنیا میں منہمک ہوگئے ‘ عیاشیوں میں پڑگئے اور آخرت کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضیلت کی حامل اس قوم پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ اور اس فیصلے کا اعلان قرآن میں دو مرتبہ ( البقرۃ : ٦١ اور آلِ عمران : ١١٢) کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل تاریخ میں آج ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اس نے اپنے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بنایا اور اپنی آخری کتاب سے نوازا۔ مگر ہم نے بھی جب دین کی طرف سے پیٹھ پھیرلی اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا ‘ بچھونا بنا لیا تو ہمارے حصے میں بھی ویسی ہی ذلت و مسکنت آئی۔ چناچہ آج دنیا میں ڈیڑھ سو کروڑ مسلمان ہیں مگر اقوامِ عالم کے درمیان ان کی حیثیت یہ ہے کہ ع ” کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی ؟ “ آج بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کسی بھی فورم پر مسلمان ممالک کی رائے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے اپنے معاملات کی باگ ڈور بھی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری انگریزی تقریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ‘ جبکہ اردو میں تو اس موضوع پر میری بہت سی تقاریر دستیاب ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :20 حکم سے مراد تین چیزیں ہیں ۔ ایک ، کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ ۔ دوسرے ، کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت ۔ تیسرے ، معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :21 یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کر دی ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں دنیا کی تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ کے حامل ہوں اور خدا پرستی کے علمبردار بن کر اٹھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani