Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 شریعت کے لغوی معنی ہیں، ملت اور منہاج۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتا ہے کہ وہ مقصد اور منزل تک پہنچاتی ہے پس شریعت سے مراد، وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کرلیں۔ آیت کا مطلب ہے ہم نے آپ کو دین کے ایک واضح راستے یا طریقے پر قائم کردیا ہے جو آپ کو حق تک پہنچا دے گا۔ 18۔ 2 جو اللہ کی توحید اور اس کی شریعت سے ناواقف ہیں۔ مراد کفار مکہ اور ان کے ساتھی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] بنی اسرائیل سے امت محمدیہ کو اقامت دین کی پیشوائی :۔ اس آیت میں امر سے مراد اقامت دین ہے۔ یعنی اے نبی ہم نے پہلے اہل عالم کی رہنمائی کے لیے بنی اسرائیل کو اقامت دین کا علمبردار بنایا تھا۔ وہ آپس میں ہی کئی فرقوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ اس حال میں وہ اقامت دین کا فریضہ کیا سرانجام دے سکتے تھے۔ بلکہ اس قابل ہی نہ رہ گئے تھے۔ اب ہم نے آپ کو اقامت دین کی پیشوائی کے منصب پر سرفراز فرمایا ہے۔ اور جو تمہیں شریعت دی جارہی ہے اس میں اقامت دین کے لیے مکمل اور واضح ہدایات موجود ہیں۔ آپ بس ان احکام و ہدایات کے مطابق عمل کرتے جائیے۔ بنی اسرائیل کا ہر فرقہ آپ سے یہ توقع رکھے گا کہ آپ اس کے موقف کی حمایت کریں۔ آپ ان میں سے کسی کی بات نہ مانئے کیونکہ ان لوگوں نے یہ فرقے علم کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے بنائے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ثم جعلنک علی شریعۃ من الامر :” شریعۃ “ کا معنی صاف راستہ اور واضح طریقہ ہے۔” الامر “ سے مراد ” امر دین “ ہے۔ یعنی بنی اسرائیل جب اپنی سرکشی، ضد اور عناد کی وجہ سے دین کے واضح احکام پر قائم نہ رہے بلکہ بہت سے گمراہ فرقوں میں بٹ گئے اور واضح اور صحیح دین کی دعوت دینے والوں سے عداوت اور گمراہی میں اس حد تک بڑھ گئے کہا نہوں نے مسیح (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ پیغمبر کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہ کیا، بلکہ اپنے گمان میں انھیں صلیب پر چڑھا کر دم لیا۔ جب وہ سرکشی کی اس حد تک آپہنچے تو اس فضیلت سے محروم کردیئے گئے جو انھیں دنیا کی امامت کی صورت میں حاصل تھی۔ پھر اے محمد ہم نے تجھے اس امر (یعنی دین) کے واضح راستے اور طریقے پر لگا دیا اور وہ خدمت جو پہلے پیغمبروں کے سپرد تھی وہ آپ کے سپرد کردی۔- (٢) فاتبعھا ولا تتبع اھوآء الذین لایعلمون : اس لئے آپ ہمارے مقرر کردہ طریقے پر چلیں اور ہمارے نازل کردہ احکام کی پیروی کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو نہیں جانتے، یعنی وحی الٰہی کا علم نہیں رکھتے، یا عمل کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے، کیونکہ وہ ابھی انھی لوگوں میں شامل ہیں جو نہیں جانتے۔ ان سے مراد اہل کتاب اور مشرکین عرب ہیں۔ صرف اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کی تاکید اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة مائدہ (٤٨ تا ٥٠) اور سورة اعراف (٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پچھلی امتوں کی شریعتوں کا حکم ہمارے لئے :۔- (آیت) ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ (پھر ہم نے آپ کو دین کے ایک خاص طریقے پر کردیا یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دین اسلام کے چھ تو اصولی عقائد ہیں مثلاً توحید و آخرت وغیرہ اور کچھ عملی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ جہاں تک اصولی عقائد کا تعلق ہے وہ تو ہر نبی کی امت میں یکساں رہے ہیں اور ان میں کبھی ترمیم اور تبدیلی نہیں ہوئی لیکن عملی احکام مختلف انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہے ہیں، آیت مذکورہ میں انہی دوسری قسم کے احکام کو ” دین کے ایک خاص طریقے “ سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور اسی وجہ سے فقہاء نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہا مت محمدیہ کے لئے صرف شریعت محمدی ہی کے احکام واجب العمل ہیں۔ پچھلی امتوں کو جو احکام دیئے گئے تھے وہ ہمارے لئے اس وقت تک واجب العمل نہیں ہیں جب تک قرآن و سنت سے ان کی تائید نہ ہوجائے۔ پھر تائید کی ایک شکل تو یہ ہے کہ قرآن یا حدیث میں صراحتہ یہ فرمایا گیا ہو کہ فلاں نبی کی امت کا یہ حکم ہمارے لئے بھی واجب العمل ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ قرآن کریم یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پچھلی امت کا کوئی حکم بطور تحسین و مدح بیان فرمائیں اور اس کے بارے میں یہ نہ فرمائیں کہ یہ حکم ہمارے زمانے میں منسوخ ہوگیا ہے۔ اس سے بھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حکم ہماری شریعت میں بھی جاری ہے اور درحقیقت اس حکم کا واجب العمل ہونا بھی اس صورت میں شریعت محمدی کا ایک جز ہونے کی حیثیت ہی سے ہوتا ہے۔ یہاں اتنی بات مسئلہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ تفصیلات اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٨- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- شرع - الشَّرْعُ : نهج الطّريق الواضح . يقال : شَرَعْتُ له طریقا، والشَّرْعُ : مصدر، ثم جعل اسما للطریق النّهج فقیل له : شِرْعٌ ، وشَرْعٌ ، وشَرِيعَةٌ ، واستعیر ذلک للطریقة الإلهيّة . قال تعالی:- لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ، - فذلک إشارة إلى أمرین :- أحدهما : ما سخّر اللہ تعالیٰ عليه كلّ إنسان من طریق يتحرّاه ممّا يعود إلى مصالح العباد وعمارة البلاد، وذلک المشار إليه بقوله : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] .- الثاني : ما قيّض له من الدّين وأمره به ليتحرّاه اختیارا ممّا تختلف فيه الشّرائع، ويعترضه النّسخ، ودلّ عليه قوله : ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] . قال ابن عباس : الشِّرْعَةُ : ما ورد به القرآن، والمنهاج ما ورد به السّنّة وقوله تعالی: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] ، فإشارة إلى الأصول التي تتساوی فيها الملل، فلا يصحّ عليها النّسخ کمعرفة اللہ تعالی: ونحو ذلک من نحو ما دلّ عليه قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] . قال بعضهم : سمّيت الشَّرِيعَةُ شَرِيعَةً تشبيها بشریعة الماء من حيث إنّ من شرع فيها علی الحقیقة المصدوقة روي وتطهّر، قال : وأعني بالرّيّ ما قال بعض الحکماء : كنت أشرب فلا أروی، فلمّا عرفت اللہ تعالیٰ رویت بلا شرب .- وبالتّطهّر ما قال تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، وقوله تعالی: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً- [ الأعراف 163] ، جمع شارع . وشَارِعَةُ الطّريق جمعها : شَوَارِعُ ، وأَشْرَعْتُ الرّمح قبله، وقیل : شَرَعْتُهُ فهو مَشْرُوعٌ ، وشَرَعْتُ السّفينة : جعلت لها شراعا ينقذها، وهم في هذا الأمر شَرْعٌ ، أي : سواء .- أي : يَشْرَعُونَ فيه شروعا واحدا . و ( شرعک) من رجل زيد، کقولک : حسبک . أي : هو الذي تشرع في أمره، أو تشرع به في أمرك، والشِّرْعُ خصّ بما يشرع من الأوتار علی العود .- ( ش ر ع ) الشرع سیدھا راستہ جو واضح ہو یہ اصل میں شرعت لہ طریقا ( واضح راستہ مقرر کرنا ) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے ۔ پھر استعارہ کے طور پر طریق الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چناچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے ۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر قائم ) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباس (علیہ السلام) کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھا وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الہی اور وہ امور جن کا بیان آیت . تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر ہم نے آپ کو اپنے حکم اور اطاعت کے خاص طریقہ پر منتخب کرلیا، آپ اسی پر قائم رہیے اور اسی کے مطابق عمل کرتے رہیے یا یہ کہ اسلام کے ساتھ ہم نے آپ کو اعزاز عطا کیا اور اس چیز کا حکم دیا کہ اللہ کی مخلوق کو اسی کی طرف بلائیں اور ان مشرکین اور یہود و نصاری کے طریقہ پر نہ چلیے جو توحید الہی کو نہیں جانتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا “ پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ کو قائم کردیا دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر ‘ تو آپ اسی کی پیروی کریں “- حضرت آدم سے لے کر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء رسل (علیہ السلام) اسی دین کی دعوت کے لیے مبعوث ہوئے۔ سورة الشوریٰ میں اس نکتے کی وضاحت ہم پڑھ چکے ہیں : شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی… (آیت ١٣) ” (اے مسلمانو ) اس نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح ( علیہ السلام) کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کی طرف کی ہے اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم (علیہ السلام) کو ‘ موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو ‘ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو…“ بہر حال ” امر اللہ “ یعنی اللہ کا دین تو شروع سے ایک ہی ہے۔ البتہ ہر زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے شریعتیں مختلف رہی ہیں ‘ مثلاً شریعت ِموسوی ( علیہ السلام) کے بعض احکام شریعت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ کا مفہوم لفظ ” شَرِیْعَۃٍ “ کے حوالے سے یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل کے بعد ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے دین کا آخری اور تکمیلی ایڈیشن شریعت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے اس سند کے ساتھ عطا کیا ہے کہ : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا (المائدۃ : ٣) ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے “۔ چناچہ اب آپ اور آپ کے پیروکار اسی شریعت کا اتباع کریں۔- وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ “ اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے جن کے پاس کوئی علم ہی نہیں ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :23 مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا وہ اب تمہارے سپرد کیا گیا ہے ۔ انہوں نے علم پانے کے باوجود اپنی نفسا نفسی سے دین میں ایسے اختلافات بر پا کیے ، اور آپس میں ایسی گروہ بندیاں کر ڈالیں جن سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیا کو خدا کے راستے پر بلا سکیں ۔ اب اسی دین کی صاف شاہراہ پر تمہیں کھڑا کیا گیا ہے تا کہ تم وہ خدمت انجام دو جسے بنی اسرائیل چھوڑ بھی چکے ہیں اور ادا کرنے کے اہل بھی نہیں رہے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، الشوریٰ ، آیات 13 تا 15 مع حواشی 20 تا 26 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani