[١] بطور تمہید سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب کسی انسان کی تالیف یا اختراع نہیں ہے بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے کوئی اس کے فیصلوں میں نہ دخل دے سکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ نیز وہ حکیم بھی ہے۔ اس کے فیصلوں اور احکام میں کسی جھول اور غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ اس کے تمام فیصلے اور احکام بنی نوع انسان کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔
تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم : اس آیت میں وہ باتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ یہ کتاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصنیف نہیں بلکہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتدریج نازل کی گئی ہے، کیونکہ ” تنزیل “ کے مفہوم میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا بھی ہے۔ دوسری یہ کہ اسے نازل کرنے والی کوئی معمولی ہستی نہیں کہ چاہو تو اس کی بات مان لو، چاہو تو نہ مانو، بلکہ اسے نازل کرنے والا وہ ہے جو سب پر غالب ہے، کوئی اس کے حکم سے سرتابین ہیں کرسکتا اور اگر کرتا ہے تو اس کی سزا سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ وہ کمال حکمت والا ہے، اس کے کسی کام میں غلطی نہیں نکالی جاسکتی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة زمر اور سورة مومن کی ابتداء۔
معارف و مسائل - یہ پوری سورت مکی ہے، صرف ایک قول یہ ہے کہ ( آیت) قل للذین امنوا یغفروا للذین لا یرجون ایام اللہ مدنی ہے اور باقی مکی، لیکن جمہور کے قول کے مطابق پوری سورت قبل الہجرة ہی نازل ہوئی ہے اور دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا بنیادی مضمون عقائد ہی کی اصلاح ہے، چناچہ اس میں توحید، رسالت اور آخرت کے عقاد ہی کو مختلف طریقوں سے مدلل کیا گیا ہے، خاص طور سے آخرت کے اثبات کے دلائل، منکرین کے شبہات اور دہریوں کی تردید اس میں زیادہ تفصیل سے آئی ہے۔
آیت ٢ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ” اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورے کی مختصر تمہید ہے جس میں سامعین کو دو باتوں سے خبردار کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ کتاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسے وہ خدا نازل کر رہا ہے جو زبردست بھی ہے اور حکیم بھی ۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اس کے فرمان سے سرتابی کی جرأت نہ کرے ، کیونکہ نافرمانی کر کے وہ اس کی سزا سے کسی طرح بچ نہیں سکتا ۔ اور اس کا حکیم ہونا اس کا متقاضی ہے کہ انسان پورے اطمینان کے ساتھ برضا و رغبت اس کی ہدایات اور اس کے احکام کی پیروی کرے ، کیونکہ اس کی کسی تعلیم کے غلط یا نامناسب یا نقصان دہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔