[٢] توحید کے دلائل :۔ تمہید کے بعد توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر دلائل کا آغاز ہوا ہے۔- خ توحید کی پہلی نشانی کائنات کا نظم ونسق :۔ پہلی دلیل یہ کائنات اور اس کا نظام ہے اسی کے ایک پہلو پر ہی اگر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ بادلوں کا دیوتا کوئی اور ہو، ہواؤں کا کوئی دوسرا ہو، بارشوں کا کوئی تیسرا ہو، سورج کا کوئی اور ہو۔ اگر ایسی بات ہوتی تو اس کائنات کے نظام میں کبھی باقاعدگی اور ہم آہنگی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ مگر اس کائنات میں ایسی نشانیاں تو اس شخص کے لیے ہی سود مند ہوسکتی ہیں جو خود ہدایت کا طالب ہو اور اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ لیکن جو اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت پر ایمان ہی نہ لانا چاہتا ہو۔ اس کے لیے اس میں کوئی نشانی نہیں۔
ان فی السموت ولارض لایت للمومنین : سورة بقرہ (١٦٤) میں ” ان فی خلق السموت والارض “ فرمایا، جبکہ یہاں ” ان فی السموت والارض “ فرمایا، تو یہ اس سے عام ہے، کیونکہ اس میں آسمان و زمین ک پیدائش بھی شامل ہے اور ان کی ذات بھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اور ان کے بعد مذکور چیزوں میں کس چیز کی نشانیاں ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات معلوم تھی کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی توحید کو اور قیامت کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے، کچھ دہریے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے وجود ہی کو نہیں مانتے تھے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (٢٤) میں آرہا ہے :(وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا ومایھلکنا الا الدھر)” اور انہوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی (زندگی) نہیں ، ہم (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔ “ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی توحید اور قیامت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں سب سے پہلے آسمان و زمین کا ذکر فرمایا کہ ان کے وجود میں ایمان والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ نشانیوں کا فائدہ انھی کو ہوتا ہے جو ماننے کے لئے تیار ہوں، غفلت میں پڑے ہوئے لوگ اور ہٹ دھرم لوگ ، جنہوں نے طے کر رکھا ہے کہ ماننا ہی نہیں ان کے لئے ان نشانیوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔- رہی یہ بات کہ آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت کی نشانیاں کس طرح ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کائنات اور اس کا نظام شاہد ہے کہ یہ سب کچھ خودبخود نہیں بن گیا، بلکہ اسے کسی بنانے والے نے بنایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، کیونکہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی گنجائش ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا) (الانبیائ : ٢٢)” اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔ اس آیت کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ آسمان و زمین کا وجود اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے بےمقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ اس سنے یہ سب کچھ انسان کیف ائدے کے لئے پیدا کیا ہیا ور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دی جائے گی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا :(ان فی خلق السموت والارض و اختلاف الیل و النھار لایت الاولی الالباب الذین یذکرون اللہ قیماً وقعوداً و علی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض، ربنا ما خلقت ھذا باطلاً ، سبحنک فقنا عذاب النار) (آل عمران :191 190)” بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لئے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو ہمارے رب تو نے یہ بےمقصد پیدا نہیں کیا تو پاک ہے ، سو ہمیں آگ کے عذبا سے بچا۔ “ اور جیسا کہ اسی سورت میں آگے آرہا ہے :(وخلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجری کل نفس بما کسبت وھم لاظلمون) (الجاثیہ :22) ” اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “
(آیت) اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۔ ان آیات سے توحید کا اثبات مقصود ہے۔ اس سے ملتی جلتی آیتیں دوسرے پارے کے رکوع (آیت) ان فی خلق السموت والارض۔ میں گزر چکی ہیں۔ وہیں ان کی مفصل تفسیر مذکور ہے اور یہ بھی کہ ان چیزوں سے توحید کیونکہ ثابت ہوتی ہے دونوں مقامات میں عنوان کا جو تھوڑا تھوڑا فرق ہے اس سے متعلق نکات اہل علم امام رازی کی تفسیر کبیر میں دیکھ سکتے ہیں۔ البتہ ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہاں کائنات کی مختلف نشانیاں بیان فرما کر ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اس میں ” ایمان لانے والوں کے لئے “ نشانیاں ہیں، دوسری جگہ ا رشاد ہے کہ ” یقین کرنے والوں کے لئے “ نشانیاں ہیں اور تیسری جگہ ارشاد ہے کہ ” عقل رکھنے والوں “ کے لئے نشانیاں ہیں اس میں اسلوب کے تنوع کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان نشانیوں سے پورا فائدہ تو وہی اٹھا سکتے ہیں جو ایمان لے آئیں۔ دوسرے نمبر پر یہ ان لوگوں کے لئے مفید ہو سکتی ہیں جو خواہ فوراً ایمان نہ لائیں لیکن ان کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ یہ چیزیں توحید پر دلالت کر رہی ہیں کیونکہ یہ یقین کسی نہ کسی دن ایمان کا سبب بن سکتا ہے اور تیسرے درجہ میں ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو خواہ فی الحال نہ مومن ہوں نہ یقین رکھنے والے، لیکن عقل سلیم رکھتے ہوں اور ان میں بصیرت کے ساتھ غور کریں۔ کیونکہ عقل و بصیرت کے ساتھ جب بھی ان نشانیوں پر غور کیا جائے گا بالاخر اس سے ایمان و یقین ضرور پیدا ہو کر رہے گا۔ ہاں جو لوگ عقل سلیم نہ رکھتے ہوں یا ان معاملات میں عقل کو تکلیف دینا ہی گوارا نہ کریں ان کے سامنے ہزار دلائل پیش کرلیجئے۔ سب ناکافی رہیں گے۔
اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ٣ ۭ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
چاند سورج ستارے اور بادل جو آسمانوں میں ہیں اور درخت و پہاڑ اور سمندر جو زمین میں ہیں ان تمام چیزوں میں ان لوگوں کے لیے جو کہ اپنے ایمان میں سچے ہیں بڑے دلائل ہیں۔
آیت ٣ اِنَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ” یقینا آسمانوں اور زمین میں (بہت سی ) نشانیاں ہیں ماننے والوں کے لیے۔ “
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :2 تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے ۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھرا پڑا ہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک ، حاکم اور مدبر ہے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں ۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے ، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود ۔ لہٰذا بےکہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں ، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں ، اور ہٹ دھرم لوگ ، جو نہ ماننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں ، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے ۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے ۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا ۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے ۔