Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اصل دین چار چیزیں ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مومن و کافر برابر نہیں جیسے اور آیت میں ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں جنتی کامیاب ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کفر و برائی والے اور ایمان و اچھائی والے موت و زیست میں دنیا و آخرت میں برابر ہو جائیں ۔ یہ تو ہماری ذات اور ہماری صفت عدل کے ساتھ پرلے درجے کی بدگمانی ہے ۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت ابو ذر فرماتے ہیں چار چیزوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنا رکھی ہے جو ان سے ہٹ جائے اور ان پر عامل نہ بنے وہ اللہ سے فاسق ہو کر ملاقات کرے گا پوچھا گیا کہ وہ چاروں چیزیں کیا ہیں ؟ فرمایا یہ کہ کامل عقیدہ رکھے کہ حلال حرام حکم اور ممانعت یہ چاروں صرف اللہ کی اختیار میں ہیں اس کے حلال کو حلال اس کے حرام بتائے ہوئے کو حرام ماننا ، اس کے حکموں کو قابل تعمیل اور لائق تسلیم جاننا ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز آجانا اور حلال حرام امر و نہی کا مالک صرف اسی کو جاننا بس یہ دین کی اصل ہے ۔ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس طرح ببول کے درخت سے انگور پیدا نہیں ہو سکتے اسی طرح بدکار لوگ نیک کاروں کا درجہ حاصل نہیں کر سکتے یہ حدیث غریب ہے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ کعبتہ اللہ کی نیو میں سے ایک پتھر نکلا تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہوئے نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی خاردار درخت میں سے انگور چننا چاہتا ہو ۔ طبرانی میں ہے کہ حضرت تمیم داری رات بھر تہجد میں اسی آیت کو بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہ ہر ایک شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا اور کسی پر اس کی طرف سے ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ جل و علا فرماتا ہے کہ تم نے انہیں بھی دیکھا جو اپنی خواہشوں کو اللہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جس کام کی طرف طبیعت جھکی کر ڈالا جس سے دل رکا چھوڑ دیا ۔ یہ آیت معتزلہ کے اس اصول کو رد کرتی ہے کہ اچھائی برائی عقلی ہے ۔ حضرت امام مالک اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے دل میں جس کی عبادت کا خیال گذرتا ہے اسی کو پوجنے لگتا ہے اس کے بعد کے جملے کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر اسے مستحق گمراہی جان کر گمراہ کر دیا دوسرا معنی یہ کہ اس کے پاس علم و حجت دلیل و سند آگئی پھر اسے گمراہ کیا ۔ یہ دوسری بات پہلی کو بھی مستلزم ہے اور پہلی دوسری کو مستلزم نہیں ۔ اس کے کانوں پر مہر ہے نفع دینے والی شرعی بات سنتا ہی نہیں ۔ اس کے دل پر مہر ہے ہدایت کی بات دل میں اترتی ہی نہیں اس کی آنکھوں پر پردہ ہے کوئی دلیل اسے دکھتی ہی نہیں بھلا اب اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے ؟ کیا تم عبرت حاصل نہیں کرتے؟ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِيَ لَهٗ ۭ وَيَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١٨٦؁ ) 7- الاعراف:186 ) جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی دنیا اور آخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہوسکتا یا یہ مطلب ہے کہ جس دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی برابر رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید ؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان و عمل صالح کرنے والے کو انعام، ایسا نہیں ہوگا اس لئے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] آخرت پر عدل کے تقاضا سے دلیل :۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ روز آخرت پر یقین نہ رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اخلاقی پابندی کا پابند نہیں رہ سکتا۔ وہ بےلگام ہو کر اور بلاخوف و خطر دوسروں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے اور صرف اپنے ہی مفادات سوچنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ بدکرداروں اور نیک عمل کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے کہ سب مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں اور کسی سے اس کے اعمال کی بازپرس نہ ہو نہ ہی انہیں ان کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے ؟ کیا تم پروردگار عالم سے یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ ایسی بےانصافی کو گوارا کرے گا ؟ اگر فی الواقع تمہارا یہی گمان ہے تو اللہ کے متعلق تمہارا یہ گمان بہت برا ہے۔- [٣٠] بدکردار اور نیکوکار کی، دنیوی زندگی کا تقابل :۔ ان کا جینا کبھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو حیات طیبہ نصیب ہوتی ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی راستبازی پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کی زندگی میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس فریب کاروں، چوروں، ڈاکوؤں، زانیوں اور شراب خوروں کو کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہوتی۔ لوگوں میں بدنام ہوتے ہیں، ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کوئی شخص دل سے کبھی ان کی عزت نہیں کرتا۔ مقدمات اور حکومت کا ڈر الگ رہتا ہے۔ غرض کہ بدکاروں کی دنیوی زندگی بھی تلخیوں اور بےچینیوں میں گزرتی ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے کیسے مرجاتے ہیں۔ پھر ان دونوں کی زندگی ایک جیسی کیسے ہوئی ؟- [٣١] اگر ان کی زندگی ایک جیسی نہیں تو یقین جانو کہ مرنا بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ دنیوی مقدمات کا نتیجہ نکل کے رہے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ دونوں طرح کے انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ کسی سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہ نیک لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیا جائے نہ بدکاروں کو سزا دی جائے اور یہ معاد پر پہلی عقلی دلیل ہے جو اللہ کی صفت عدل کے تقاضا کے مطابق ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ام حسب الذین اجترحوا السیات…: توحید کی دعوت کے بعد یہاں سے آخرت پر کلام شروع وہ رہا ہے اور یہ آیت آخرت کے حق ہونے کے دلیل ہے۔ تفسیر کے لئے دیکھیے سورة ص (٢٨) اور سورة قلم (٣٤ تا ٣٨) ۔- (٢) سوآء محیاھم ومملتھم …: یعنی کفار زندگی میں اپنی مرضی کرتے رہے اور بےلگام ہو کر پانی خواہشات پوری کرتے رہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے زمین میں فساد برپا کئے رکھا اور لوگوں پر اور اپنی جانوں پر بےحساب ظلم کرتے رہے، جب کہ مومن اپنی خواہشات کو روک کر رب تعالیٰ کے احکام کے پابند رہے۔ اب اگر مرنے کے بعد بھی کفار کو ان کے جرائم کی سزا اور ایمان والوں کو ان کے اعمال صالحہ کی جزا نہ ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل اور صفت حکمت دونوں کے خلاف ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ ایمان و کفر ، نیکی و بدی اور ظلم و عدل کو برابر قرار دے رہے ہیں جو ان کا بہت بڑا فیصلہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ جو برے برے کام (کفر و شرک و ظلم و معصیت) کرتے (رہتے) ہیں، کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا کہ ان سب کا جینا اور مرنا یکساں ہوجائے (یعنی مومنین کا مرنا جینا بایں معنی یکساں ہوجائے کہ جس طرح زندگی میں لذتوں سے بہرہ اندوز نہ ہوئے اسی طرح موت کے بعد بھی محروم رہیں اور اسی طرح کافروں کا مرنا جینا بھی بایں معنی یکساں ہوجائے کہ جیسے اس زندگی میں عذاب اور تکلیفوں سے بچے رہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی عذاب سے مامون رہیں۔ مطلب یہ کہ انکار معاد سے یہ لازم آتا ہے کہ اطاعت شعار بندوں کو کہیں اطاعت کا پھل نہ ملے اور مخالفین پر کبھی مخالفت کا وبال نہ پڑے) یہ برا حکم لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا (ایک حکمت تو یہ ہے کہ ان عظیم الشان مخلوقات کی تخلیق پر قدرت مشاہدہ میں آجانے سے ہر ذی عقل یہ بھی سمجھ لے گا کہ جو پہلی مرتبہ ان چیزوں کو پیدا کرسکتا ہے وہ ان کو فنا کر کے دوبارہ بھی اسی طرح طرح موجود کرسکتا ہے جس سے قیامت و آخرت کا وجود ثابت ہوتا ہے) اور (دوسری حکمت یہ ہے کہ) تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے ( اور یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں پورا بدلہ ہے نہیں اس لئے آخرت کا ہونا ضروری ہوگیا) اور (اس بدلہ میں) ان پر ظلم نہ کیا جاوے گا۔- معارف و مسائل - عالم آخرت اور اس میں جزا و سزا عقلاً ضروری ہے مذکورہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت کا حاصل ایک عقلی استدلال ہے روز جزا کے ضروری ہونے پر وہ یہ ہے کہ یہ بات تو ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے کسی کو اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ دنیا میں اچھے برے اعمال کا بدلہ پورا نہیں ملتا، بلکہ عام طور سے کفار، فجار، دولت دنیا اور عیش و عشرت میں زندگی گزارتے ہیں اور اللہ کے اطاعت شعار بندے فقر و فاقہ اور مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اول تو دنیا میں بدکردار مجرموں کے جرم کا علم ہی اکثر نہیں ہوتا، علم بھی ہوگیا تو اکثر پکڑے نہیں جاتے کبھی پکڑے بھی گئے تو حلال حرام جھوٹ سچ کی پروا کئے بغیر سزا سے بچنے کے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں اور سینکڑوں میں کسی ایک کو سزا ہو بھی گئی تو وہ بھی اس کے عمل کی پوری سزا نہیں ہوتی۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے باغی اپنی خواہشات کے پیرو اس دنیا کی زندگی میں دندناتے پھرتے رہتے ہیں اور بیچارے مومن پابند شریعت بہت سی دولت اور لذتوں کو تو حرام سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور مصائب و آفات سے بچنے کے لئے بھی صرف جائز طریقے اختیار کرتے ہیں اس لئے دنیا میں ان کا بڑی راحتوں اور لذتوں سے محروم رہنا ظاہر ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس دنیا میں اعمال کی پوری جزا نہیں ملتی تو اب اگر اس دنیا کے بعد دوسرا عالم آخرت اور اس میں دوبارہ زندگی اور جزا و سزا کا نفاذ نہ ہو تو پھر دنیا میں کسی چوری، ڈاکے، زنا، قتل وغیرہ کو جرم کہنا حماقت کے سوا کیا ہے۔ یہ لوگ تو اکثر دنیا میں بڑی کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ ایک چور ڈاکو رات بھر میں اتنی دولت حاصل کرلیتا ہے جو ایک گریجویٹ سالوں کی ملازمت اور محنت سے حاصل نہیں کرسکتا تو اگر آخرت اور اس کا حساب کتاب کچھ نہ ہو تو اس چور ڈاکو کو اس شریف گریجویٹ سے بہتر اور افضل کہنا پڑے گا جو کوئی ذی عقل گوارا نہیں کرسکتا۔ رہا یہ کہنا کہ ان لوگوں پر دنیا میں سخت سزائیں ہر حکومت میں مقرر ہیں مگر آج کل کا تجربہ یہ بتلارہا ہے کہ مجرم صرف وہ پکڑا جاتا ہے جو بیوقوف ہو، ہوشیار عادی مجرم کے لئے سزا سے بچنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ ایک رشوت ہی کا چور دروازہ ان کے فرار کے لئے کافی ہے خلاصہ یہ ہے کہ یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ دنیا میں کوئی بھلائی برائی، نیکی بدی کوئی چیز نہیں، اپنا مطلب جس طرح حاصل ہو وہ عین ثواب ہے مگر اس کا دنیا میں کوئی قائل نہیں اور جب نیکی بدی کا امتیاز تسلیم کیا جائے تو پھر دونوں کا انجام برابر رہے بلکہ بد اور مجرم نیک سے زیادہ آرام میں رہے، اس کی برابر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اسی کو قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجرم اور غیر مجرم دونوں کو دنیا و آخرت میں برابر کردیا جائے (آیت) سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ یہ نہایت احمقانہ فیصلہ ہے جبکہ دنیا میں نیکی بدی کی جزا سزا پوری نہیں ملتی آخرت کی دوسری زندگی اور اس میں جزا سزا ہونا لازمی ہے۔ دوسری آیت میں بھی اسی مضمون کی تکمیل کے لئے فرمایا گیا (آیت) وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ، یعنی ظلم و جور کے مٹانے اور انصاف قائم کرنے کے لئے روز جزاء ہونا ضروری ہے۔ رہا یہ شبہ کہ دنیا ہی میں ہر عمل کا بدلہ ا چھا یا برا کیوں نہ نمٹا دیا گیا یہ اس حکمت تکوینی کے خلاف ہے کہ اس عالم کو حق تعالیٰ نے دارالعمل اور دارالامتحان بنایا ہے دارالجزا نہیں بنایا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ۝ ٠ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ۝ ٢١ ۧ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - جرح - الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] .- ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - ساء - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال :- سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما - [ الأعراف 20] .- ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا یہ لوگ جنہوں نے بڑے بڑے شرکیہ کام کیے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم آخرت میں ثواب اور درجات کے اعتبار سے انہیں ان لوگوں کے برابر رکھیں گے جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے جیسا کہ حضرت علی اور ان کے دونوں ساتھی۔ بدر کے دن جب کفار میں سے عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ میدان جنگ میں نکلے اور ان کے مقابلے کے لیے حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ تشریف لائے تو کفار نے کہا کہ محمد جو آخرت کے بارے میں ثواب کا ذکر فرماتے ہیں اگر وہ بات صحیح ہے تو ہمیں ان مسلمانوں پر آخرت میں بھی فوقیت ہوگی جیسا کہ اس دنیا میں ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے کہ ان کا یہ خیال غلط ہے۔- ایسا ممکن نہیں کہ دونوں گروہ برابر ہوجائیں کیونکہ مسلمانوں کی موت وحیات ایمان پر ہے اور کفار کا مرنا جینا دونوں چیزیں کفر پر ہیں۔- یا یہ کہ مسلمانوں کی موت وحیات اور ایمان اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر برابر سرابر ہے اور کافر کا مرنا جینا کفر و معصیت اور اللہ تعالیٰ کے غصے اور اس کی ناراضگی پر برابر سرابر ہے، یہ لوگ اپنے لیے برا فیصلہ کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ” جو لوگ ُ بری باتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ؟ “- سَوَآئً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ ” کہ ان کی زندگی اور موت ایک جیسی ہوجائے ؟ بہت برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں “- قیامت کے حساب اور آخرت کی زندگی کے بارے میں عقلی اور منطقی سطح پر یہ ایک مضبوط دلیل ہے۔ اگر دنیا کے نیکو کاروں کو کوئی اجر و انعام نہ ملے ‘ مجرموں کو اپنے جرائم کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور نیک و بد سب برابر ہوجائیں تو اس سے بڑا ظلم بھلا اور کیا ہوگا ؟ دنیا میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو حرام و حلال کی تمیز ختم کر کے اور جائز و ناجائز کی پابندیوں سے بےنیاز ہو کر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کے لیے کسی کا حق نہیں مارتے۔ وہ فاقوں سے رہنا برداشت کرلیتے ہیں مگر حرام نہیں کھاتے۔ اب فرض کریں کہ اگر دنیا کی زندگی ہی آخری زندگی ہو ‘ نہ آخرت ہو اور نہ ہی مرنے کے بعد بےلاگ حساب و کتاب کا کوئی مرحلہ درپیش ہو ‘ نہ نیک اور دیانت دار لوگوں کے لیے کوئی جزا ہو اور نہ برے لوگوں کے لیے کوئی سزا ‘ تو ایسی صورت میں قاتلوں ‘ لٹیروں اور ظالموں کے تو گویا وارے نیارے ہوگئے ‘ جبکہ نیک ‘ شریف اور دیانتدار قسم کے لوگ سرا سر گھاٹے میں رہ گئے۔ اس لیے اگر قیامت قائم نہیں ہوتی ‘ نیکوکاروں کو ان کے نیک اعمال کی جزا نہیں ملتی اور بدکاروں کو ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا تو یہ بنی نوع انسان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ چناچہ جو آخرت کو نہیں مانتا وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت ِعدل کا ہی منکر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :26 توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :27 یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے ۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو ، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں ۔ یہ بات اگر نہ ہو ، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو تو سرے سے اخلاق میں خوبی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے ۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو ، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے ۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے ۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر اخلاق کی پابندیاں لگائے رہا ۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا ۔ ناجائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا ۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا ۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں ، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا ۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا ، سمیٹتا چلا گیا ۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا ؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے ، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حواشی ۹ ۔ ۱۰ ، النمل ، حاشیہ ۳۵ ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ۹ ، النمل ، حاشیہ ۸٦ ، الروم ، حواشی ٦ تا ۸ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ ، صٓ ، آیت 28 ۔ حاشیہ نمبر 30 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: یہ آخرت کی زندگی کی ضرورت بتائی جا رہی ہے کہ اگر آخرت کی جزا و سزا نہ ہو تو اچھے برے سب لوگ برابر ہوجائیں، اور جن نیک لوگوں نے دنیا میں شریعت کے احکام پر عمل کر کے محنت اٹھائی، یا مخالفین کی طرف سے تکلیفیں برداشت کیں، ان کو مرنے کے بعد بھی اس قربانی کا کوئی انعام نہ ملے، اور ان کا مرنا جینا بالکل برابر ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نا انصافی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ کائنات اسی برحق مقصد کے لیے پیدا کی ہے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔