Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ۔ 23۔ 2 چناچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] اپنی خواہشات کو معبود بنانا :۔ یہ بھی وہی شخص ہوسکتا ہے جسے اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کا یقین نہ ہو۔ ایسے شخص کی زندگی کا مقصد بس یہی رہ جاتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرتا جائے۔ کوئی اخلاقی پابندی یا شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول نہ کرے۔ ایسا شخص نہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرنا گوارا کرسکتا ہے اور نہ نواہی سے اجتناب کرسکتا ہے وہ تو ظلم و عصیان میں شتر بےمہار کی طرح آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔- [٣٤] علم گمراہی کا سبب کیسے بنتا ہے :۔ (أضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ) کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے ازلی علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ گمراہ ہوگا۔ تو اللہ نے اسے اسی گمراہی کے راستہ پر چلا دیا جس پر وہ چل رہا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص خیروشر کی پوری تمیز اور اس کا علم رکھتا تھا۔ لیکن جب وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑگیا تو اللہ نے اسے اس کے علم کے باوجود گمراہ کردیا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے منکرین اور دہریوں کا بھی ایک فلسفہ ہوتا ہے جو انہیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اللہ بھی ایسے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ اور چوتھا یہ کہ سب مذہبی فرقوں کے بانی عموماً عالم اور ذہین لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر کتاب و سنت میں تاویل کرکے اپنا نظریہ کشید کرلیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) افرئیت من اتخذ الھہ ھولہ : سلسلہ کلام سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ آخرت کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں۔ آخرت کا عقیدہ ان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے، اس لئے وہ آخرت کا انکار کردیتے ہیں، پھر ان کے دل میں جو آتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں۔ جس طرح ایک مومن اپنے رب کو اپنا معبود مانتا ہے، اسی کے حکم پر چلتا ہے، اس کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتا ہے۔ اسی طرح آخرت کے منکروں کا معبود ان کے نفس کی خواہش ہی ہوتا ہے، وہ جو چاہے ان کے لئے حلال اور جو نہ چاہے ان کے ہاں حرام ہوتا ہے۔ پھر جب وہ آخرت کی باز پرس سے بےفکر ہوجاتے ہیں تو ان کی گمراہی بڑھتی ہی جاتی ہے، نہ کوئی چیز انہیں برائی سے روکنے والی ہوتی ہے نہ نیکی پر مائل کرنے والی۔- (٢) تفسیر قرطبی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی ” ھوی “ (خواہش نفس) کا ذکر فرمایا ہے، مذمت ہی کے طور پر فرمایا ہے، مثلاً فرمایا :(ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھوبہ فمثلہ کمثل الکلب) (الاعراف :186) ” مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا ، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے۔ “ اور فرمایا (ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واثبع ھوبہ کان افرہ فرطاً ) (الکھف : ٢٨)” اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ “ اور فرمایا :(بل اثبع الذین ظلموآ آھوآء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اللہ) (الروم : ٢٩)” بلکہ وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا وہ جانے بغیر اپنی خواہشوں کے پیچھے چل پڑے ، پھر اسے کون راہ پر لائے جسے اللہ نے گمراہ کردیا ہو۔ “ اور فرمایا :(ومن اضل ممن اتبع ھوبہ بغیر ھدی من اللہ) (القصص : ٥٠)” اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدیات کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ “ اور فرمایا :(ولا تتبع الھوی فیصلک عن سبیل اللہ) (ص : ٢٦) ” اور خواہش کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ “ اور فرمایا :(وما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ فان الجنۃھی الماوی) (النازعات :31 30)” اور باوجود اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔ تو بیشک جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ “- (٣) ” افرئیت من اتخذالھہ ھولہ “ کی مزید تشریح کے لئے دیکھیے سورة فرقان (٤٣) کی تفسیر۔- (٤) واضلہ اللہ علی علم : اس کی تفسیر دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ راہ راست پر آنے والا نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنانے والا اور آخرت کے انکار پر اصرار کرنے والا ہے، اس لئے اس نے اپنے علم کی بنا پر اسے گمراہی میں پھینک دیا۔ دوسری یہ کہ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور قیامت یقیناً قائم ہونے والی ہے فسق و فجور کی آزادی کے لئے قیامت کے انکار پر اڑ گیا۔ (دیکھیے قیامہ : ١ تا ٦) تو اللہ تعالیٰ نے بھی اسے گمراہی میں پھینک دیا، جیسا کہ فرمایا :(ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولی و نصلہ جھنم وسآء ت مصیراً ) (النسائ : ١١٥)” اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت خوب واضح ہوچکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرح وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ “- (٥) وختم علی سمعہ وقلبہ : اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٧) کی تفسیر۔- (٦) فمن یھدیہ من بعد اللہ :” ای من بعد ما اضلہ اللہ “ یعنی جب اللہ تعالیٰ ہی نے اسے گمراہ کردیا تو اب کون اسے ہدایت دے گا۔- (٥) افلا تذکرون :” تذکرون “ اصل میں ” تذکرون “ ہے، ایک تاء تخفیف کے لئے حذف کردی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - سو کیا (توحید و آخرت کے ان واضح بیانات کے بعد) آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے (کہ جو دل میں آتا ہے اسی کے پیچھے چلتا رہتا ہے) اور خدا تعالیٰ نے اس کو باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ کردیا ہے (کہ حق کو سنا اور سمجھا بھی مگر نفسانی خواہش کی پیروی سے گمراہ ہوگیا) اور (خدا تعالیٰ نے) اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے (یعنی نفس پرستی کی بدولت قبول حق کی صلاحیت نہایت کمزور ہوگئی) سو ایسے شخص کو بعد خدا کے (گمراہ کردینے کے) کون ہدایت کرے (اس میں تسلی بھی ہے۔ آگے ان منکرین کو زجر کے طور پر خطاب ہے کہ) کیا تم (ان بیانات کو سن کر) پھر بھی نہیں سمجھتے (یعنی ایسا سمجھنا جو نافع ہو۔ اگرچہ عام معنی کے اعتبار سے سمجھتے تھے) اور یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ یوں کہتے ہیں کہ بجز ہماری اس دنیاوی زندگی کے اور کوئی زندگی (آخرت میں) نہیں ہے ہم (یہی ایک مرنا) مرتے ہیں اور (یہی ایک جینا) جیتے ہیں (مقصود یہ کہ موت کی طرح زندگی بھی دنیا ہی کے ساتھ خاص ہے) اور ہم کو صرف زمانہ (کی گردش) سے موت آجاتی ہے (مطلب یہ کہ زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی قوتیں خرچ ہوتی رہتی ہیں اور ان اسباب طبعیہ سے موت آجاتی ہے اور اسی طرح حیات کا سبب بھی امور طبیعہ ہیں پس جب موت وحیات اسباب طبعیہ کے تابع ہیں اور اسباب طبعیہ آخرت کی زندگی کا تقاضا نہیں کرتے تو آخرت کی زندگی نہ ہوگی) اور ان لوگوں کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں ہے محض اٹکل سے ہانک رہے ہیں (یعنی اخروی زندگی کی نفی پر کوئی دلیل نہیں) اور (نہ اہل حق کی دلیل کا وہ کچھ جواب دے سکتے ہیں چنانچہ) جس وقت (اس بارہ میں) ان کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (جو مطلوب ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں) تو ان کا (اس پر) بجز اس کے اور کوئی جواب نہیں ہوتا کہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادوں کو (زندہ کر کے) سامنے لے آؤ اگر تم اس دعوے میں) سچے ہو ( اور اس جواب کے سوا کوئی اور جواب نہیں دے سکتے مثلاً یہ کہ کسی دلیل عقلی سے اس کا عقلاً محال ہونا ثابت کردیتے) آپ (ان کے جواب میں) یوں کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تم کو (جب تک چاہتا ہے) زندہ رکھتا ہے پھر (جب چاہے گا) تم کو موت دے گا، پھر قیامت کے دن جس (کے وقوع) میں ذرا شک نہیں تم کو (زندہ کر کے) جمع کرے گا (پس دعویٰ اس روز میں زندہ کرنے کا ہے اور دنیا میں مردوں کو زندہ نہ کرنے سے اس روز میں زندہ کرنے کی نفی لازم نہیں آتی) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (اور بلادلیل حق کا انکار کرتے ہیں۔ )- معارف و مسائل - (آیت) مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ ، یعنی وہ شخص جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی کافر بھی اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا خدا یا معبود نہیں کہتا مگر قرآن کریم کی اس آیت نے یہ بتلایا کہ عبادت در حقیقت اطاعت کا نام ہے جو شخص خدا کی اطاعت کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت اختیار کرے وہ ہی اس کا معبود کہلائے گا تو جس شخص کو حلال و حرام اور جائز ناجائز کی پروا نہ ہو خدا تعالیٰ نے جس کو حرام کہا ہے وہ اس میں خدا کا حکم ماننے کے بجائے اپنے نفس کی پیروی کرے تو گو وہ اپنے نفس کو زبان سے اپنا معبود نہ کہے مگر حقیقتہ وہی اس کا معبود ہوا اسی مضمون کو کسی عارف نے ایک شعر میں کہا ہے۔- سو وہ گشت از سجدہ راہ بتاں پیشانیم چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم - اس میں خواہشات نفسانی کو بتوں سے تعبیر کیا ہے۔ جس نے اپنی خواہشات کو ہی امام و مقتدا بنا لیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا تو گویا یہ خواہشات ہی اس کے بت ہیں۔ حضرت ابوامامہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ زیر آسمان دنیا میں جنتے معبودوں کی عبادت کی گئی ہے ان میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک ہوی ہے یعنی خواہش نفسانی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دانشمند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور ما بعد الموت کے واسطے عمل کرے اور فاجر وہ ہے جو اپنے نفس کو اس کی خواہش کے پیچھے چھوڑ دے اور اس کے باوجود اللہ سے آخرت کی بھلائی کی تمنا کرتا رہے اور حضرت سہل بن عبداللہ تستری نے فرمایا کہ تمہاری بیماری تمہاری نفسانی خواہشات ہیں۔ ہاں اگر تم ان کی مخالفت کرو تو یہ بیماری ہی تمہاری دوا بھی ہے (یہ سب روایات قرطبی سے لی گئی ہیں۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً۝ ٠ ۭ فَمَنْ يَّہْدِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ اللہِ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝ ٢٣- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- هوى- الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى.- ( ھ و ی ) الھوی - ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ - الھوی - ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت - وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ - وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔- وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ - الھوی - ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- ختم - الخَتْمُ والطّبع يقال علی وجهين : مصدر خَتَمْتُ وطبعت، وهو تأثير الشیء کنقش الخاتم - انتهيت إلى آخره، فقوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46] ، إشارة إلى ما أجری اللہ به العادة أنّ الإنسان إذا تناهى في اعتقاد باطل، أو ارتکاب محظور۔ ولا يكون منه تلفّت بوجه إلى الحقّ- يورثه ذلك هيئة تمرّنه علی استحسان المعاصي، وكأنما يختم بذلک علی قلبه، وعلی ذلك : أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] ، وعلی هذا النّحو استعارة الإغفال في قوله عزّ وجلّ : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] ، واستعارة الكنّ في قوله تعالی: وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، واستعارة القساوة في قوله تعالی: وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] ، قال الجبّائيّ «1» : يجعل اللہ ختما علی قلوب الکفّار، ليكون دلالة للملائكة علی كفرهم فلا يدعون لهم «2» ، ولیس ذلک بشیء فإنّ هذه الکتابة إن کانت محسوسة فمن حقّها أن يدركها أصحاب التّشریح، وإن کانت معقولة غير محسوسة فالملائكة باطّلاعهم علی اعتقاداتهم مستغنية عن الاستدلال . وقال بعضهم : ختمه شهادته تعالیٰ عليه أنه لا يؤمن، وقوله تعالی: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] ، أي : نمنعهم من الکلام، وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ- [ الأحزاب 40] ، لأنه خَتَمَ النّبوّة، أي : تمّمها بمجيئه . وقوله عزّ وجلّ : خِتامُهُ مِسْكٌ- [ المطففین 26] ، قيل : ما يختم به، أي : يطبع، وإنما معناه : منقطعه وخاتمة شربه، أي : سؤره في الطيّب مسك، وقول من قال يختم بالمسک «3» أي : يطبع، فلیس بشیء، لأنّ الشّراب يجب أن يطيّب في نفسه، فأمّا ختمه بالطّيب فلیس ممّا يفيده، ولا ينفعه طيب خاتمه ما لم يطب في نفسه .- ( خ ت م ) الختم والطبع ۔ کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہری کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جا تا ہے ۔ مجازا کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وتوق حاصل کرلینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية 23] اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ۔ اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کرلینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے ۔ یعنی قرآن ختم کرایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور آیت : ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام 46]( ان کافروں سے ) کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان یا دو آنکھیں چجین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔ چناچہ اس ی معنی میں فرمایا : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل 108] یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اسی طرح آیات کریمہ : ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف 28] اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة 13] اور ان کے دلوں سخت کردیا ۔ میں اعفال کن اور قساوۃ سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں ۔ جبائی کہتے ہیں کہ اللہ کے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے دلوں پر ایسی علامت قائم کردیتے ہیں کہ فرشتے انکے کفر سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح ( ) کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامات سے بےنیاز ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس 65] آج ہم ان کے موہوں پر مہر لگادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکیں گے اور آیت میں آنحضرت کو خاتم النبین فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کی مکمل کردیا ۔ ہے ( اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ) اور آیت کریمہ :۔ خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] جسکی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مایختم بہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برین میں باقی ماندہ جھوٹ مسک کی طرح مہ کے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی مگر یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذت ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذت لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خواہش نفس کی پیروی سے پرہیز کیا جائے - قول باری ہے : (افرایت من اتخذالھہ ھواہ۔ سو کیا آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی ہے جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا خدا بنا رکھا ہے) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی ہے ، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے قتادہ سے اس قول باری کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ وہ جس چیز کی خواہش کرتا ہے اس پر سوار ہوجاتا ہے اور اسے اللہ کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض روایات میں ہے کہ خواہش نفسانی ایک خدا ہے جس کی پرستش کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں درج بالا آیت کی تلاوت کی گئی یعنی وہ اپنی نفسانی خواہش کی اس طرح پیروی کرتا ہے جس طرح وہ اپنے خدا کی پیروی کرتا ہے۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ مشرکین کچھ عرصے تک عزیٰ کی پرستش کرتے رہے۔ یہ سفید رنگ کا ایک پتھر تھا، پھر جب انہیں کوئی اس سے اچھا پتھر نظر آتا تو اس کی پرستش شروع کردیتے اور پہلے پتھر کو چھوڑ دیتے۔- حسن کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو عقلی دلیل کی بنا پر نہیں پہچانتا بلکہ وہ اسے اپنی خواہش نفسانی کے تحت پہچانتا ہے۔- موت وحیات اتفاقی نہیں یہ قدرت کے ہاتھ میں ہیں

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی کریم آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی ہے جس نے اپنا معبود اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے کہ ان بتوں سے جس کو اس کا نفس چاہتا ہے پوجنا شروع کردیتا ہے اور وہ شخص نضر بن حارث یا ابوجہل یا حارث بن قیس ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کا گمراہوں میں سے ہونا معلوم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان سے گمراہ کردیا ہے۔- اور اس کے کان پر اور دل پر مہر لگا دی ہے تاکہ وہ حق بات کو نہ سن سکے اور نہ سمجھ سکے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے تاکہ وہ حق بات کو دیکھ نہ سکے سو اللہ تعالیٰ کے گمراہ کرنے کے بعد ایسے شخص کو کون دین کا راستہ بتا سکتا ہے پھر بھی تم قرآن کریم سے نصیحت نہیں حاصل کرتے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔- شان نزول : اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ (الخ)- ابن منذر اور ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ قریش ایک زمانہ تک ایک پتھر کو پوجتے تھے پھر جب اس سے اچھا پتھر مل جاتا تو اس پہلے پتھر کو پھینک دیتے اور دوسرے کو پوچنا شروع کردیتے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُ ” کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟ “- اس سے قبل یہ مضمون سورة الفرقان کی آیت ٤٣ میں بھی آچکا ہے۔ یہاں اس کا اعادہ دراصل زیر مطالعہ آٹھ سورتوں (سورۃ الزمر تا سورة الاحقاف) کے مرکزی مضمون کے سیاق وسباق میں ہوا ہے۔ چناچہ آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مضمون کے ذیلی عنوانات کی ترتیب کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیا جائے۔ ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی چار سورتوں (الزمر تا الشوریٰ ) میں ” توحید ِعملی “ کا مضمون ایک خاص ترتیب اور تدیج کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سورة الزمر میں تکرار کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے : قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے : مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے “۔ اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ کر کسی اور کی اطاعت کرنا شرک ہے اور مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت کرنا بھی شرک ہے جس سے خالق کی معصیت کا ارتکاب ہوتا ہو۔ اس کے بعد سورة المومن میں توحید عملی کے داخلی پہلو (دعا) کو اجاگر کیا گیا ہے اور بار بار حکم دیا گیا ہے : فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کہ اللہ سے دعا کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس طرح ان دونوں سورتوں میں توحید عملی کا مضمون اپنے خارجی اور داخلی دونوں پہلوئوں سے ایک فرد کی حد تک مکمل ہوگیا ہے۔- اس کے بعد اگلی دو سورتوں ( سورة حٰمٓ السجدۃ اور سورة الشوریٰ ) میں توحید عملی کو فرد سے اجتماعیت کی طرف بڑھایا گیا ہے۔ چناچہ سورة حٰمٓ السجدۃ میں توحید کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس دعوت کی فضیلت کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ” اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں “ اس دعوت کا ذریعہ ( ) چونکہ قرآن ہے اس لیے اسی نسبت سے سورة حٰمٓ السجدۃ میں قرآن کی عظمت کا ذکر تکرار کے ساتھ (چھ مرتبہ) آیا ہے۔ اس کے بعد سورة الشوریٰ کا مرکزی مضمون اقامت دین ہے۔ تدریج کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں ہوگی کہ جو لوگ توحید کی دعوت پر لبیک کہیں انہیں منظم کر کے ایک قوت میں تبدیل کیا جائے۔ پھر یہ سب لوگ مل کر باطل کے تسلط کو ختم کرنے اور معاشرے میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس طرح ان چار سورتوں میں ” توحید عملی “ کے مضمون کو فرد سے لے کر ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ اجتماعی نظام کی سطح تک مکمل کردیا گیا ہے۔- اس کے بعد سورة الزخرف اور سورة الجاثیہ میں اس مضمون (توحید فی الاطاعت) کے تقابل کے طور پر شرک فی الاطاعت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سورة الزخرف میں اجتماعیت کی بلند ترین سطح یعنی حاکمیت کی سطح کے شرک کا حوالہ ہے جبکہ سورة الجاثیہ میں (خصوصی طور پر آیت زیر مطالعہ میں ) انفرادی سطح کے شرک کا ذکر ہے۔ جہاں تک اجتماعیت کی سطح پر شرک کا تعلق ہے اس کو یوں سمجھئے کہ ” انسانی حاکمیت “ کا تصور شرک کی بد ترین شکل ہے ‘ کیونکہ حاکم مطلق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ سورة یوسف میں ہم پڑھ چکے ہیں : اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط (آیت ٤٠) کہ اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ اس حوالے سے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کا یہ اعلان : وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ ” اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں “ اور سورة الکہف کی آیت ٢٦ کے یہ الفاظ وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا۔ ” اور وہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو بھی “ اپنے معانی و مفہوم میں بہت واضح ہیں۔ اب ایسے واضح احکام کے بعد اگر کوئی انسان ” حاکمیت مطلق “ کا دعویٰ کرے تو یہ گویا خدائی کا دعویٰ ہے اور یوں یہ شرک کی بد ترین شکل ہے۔ اسی شرک کا علمبردار نمرود تھا اور اسی جرم کا مرتکب فرعون بھی ہوا تھا۔ سورة الزخرف میں فرعون کے نعرہ شرک کا ذکر یوں آیا ہے : وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ ” اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا ‘ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اور یہ تمام نہریں میرے حکم کے تحت نہیں بہتی ہیں ؟ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ “- شرک فی الاطاعت کا دوسرا پہلو انفرادی ہے ‘ جس کا ذکر آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ اس آیت میں ایک ایسے شخص کی مثال بیان ہوئی ہے جس نے اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہش پر چلنے کا طرز عمل اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے نفس کے تقاضوں اور اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حلال و حرام کی تمیز روا نہیں رکھتا۔ ایسے شخص نے اپنے عمل سے گویا ثابت کردیا ہے کہ اس کا معبود اللہ نہیں ‘ بلکہ اس کا نفس ہے۔ اور وہ حقیقت میں اللہ کا نہیں اپنے نفس کا ” بندہ “ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے ہی شخص کو درہم و دینار کا بندہ قرار دیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ ) (١) ” ہلاک ہوجائے درہم و دینار کا بندہ “۔ یہ دراصل وہ شخص ہے جو دولت کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی تمیز کو بالکل پس پشت ڈال چکا ہے۔ اب اس کے والدین نے اس کا نام ” عبدالرحمن “ ہی کیوں نہ رکھا ہو ‘ لیکن اس کے عمل سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں وہ ” عبدالدینار “ ہے۔- بہر حال سورة الزخرف میں شرک فی الاطاعت کا ذکر معاشرے کی بلند ترین سطح یعنی ریاست اور حاکمیت کی سطح پر ہوا ہے ‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت کی اس آیت میں اس کی دوسری انتہا یعنی انفرادی سطح کے شرک کا بیان ہے۔ شرک کی باقی تمام صورتیں ان دونوں انتہائوں کے درمیان ہیں۔ آیت میں استفسار کے اسلوب سے زور کلام خاص طور پر زیادہ ہوگیا ہے کہ کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کی عبرتناک حالت پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ؟- وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ” اور اللہ نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اس کے علم کے باوجود “- ہوسکتا ہے وہ کوئی بہت بڑا عالم ہو یا اعلیٰ پائے کا محقق ہو یا کوئی نامور سائنسدان ہو ‘ مگر جس انسان نے اپنے نفس کا بندہ بن کر رہنا قبول کرلیا ہو اس کی علمی اہلیت ‘ تحقیقی استعداد اور سائنٹیفک اپروچ اسے نہ تو اللہ کی اطاعت کی راہ دکھا سکتی ہے ‘ اور نہ ہی اس کے دل کو ایمان اور اللہ کی معرفت کے نور سے منور کرسکتی ہے۔ ایسے بدقسمت لوگوں پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے جاتے ہیں : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز (البقرۃ : ٧) ۔ سورة البقرۃ کی اس آیت کے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ دیکھئے یہاں بھی آگئے ہیں :- وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ” اور اللہ نے اس کی سماعت اور اس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ “- اس مہر اور اس پردے کی کیفیت کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو آج کے سائنسدانوں کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے سات سمندروں کے پانیوں کو کھنگال مارا ہے ‘ روئے ارضی کے ذرّے ذرّے کی چھان پھٹک وہ کرچکے ہیں۔ خلا کی وسعتوں کے اندر دور دور تک وہ جھانک آئے ہیں۔ غرض سائنسی کرشموں کے سبب انہوں نے کائنات کے بڑے بڑے رازوں کو طشت ازبام کردیا ہے ‘ لیکن اس پوری کائنات میں اگر انہیں نظر نہیں آیا تو ایک اللہ نظر نہیں آیا مذکورہ ” پردہ “ ان کی آنکھوں پر اس قدر دبیز ہوچکا ہے کہ اس پوری کائنات میں کائنات کے خالق کا انہیں کہیں سراغ نہیں ملا۔- فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْم بَعْدِ اللّٰہِط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ” تو اللہ کے (اس فیصلے کے ) بعداب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے ‘ تو کیا تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :30 خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے ۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے ، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو ، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے ، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو ۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو ، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے ۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے ۔ ابن جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا ۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا ۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا ، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا ۔ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے ۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے ، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۵٦ ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 63 ۔ یٰس ، حاشیہ 53 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 38 ) سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :31 اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا ، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے ، اسے گمراہی میں پھینک دیا ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :32 اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۱۰ ۔ ۱٦ ، الانعام ، حواشی ۱۷ ۔ ۲۷ ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ۸۰ ، التوبہ ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۳ ، یونس ، حاشیہ ۷۱ ، الرعد ، حاشیہ ٤٤ ، ابراہیم ، حواشی ٦ ۔ ۷ ۔ ٤۰ ، النحل ، حاشیہ ۱۱ ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۵۱ ، جلد سوم ، الروم ، حاشیہ ۸٤ ، جلد چہارم ، فاطر ، آیت 8 ، حواشی 16 ۔ 17 ، المومن ، حاشیہ 54 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :33 جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں ۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں ۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں ۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا ۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے ، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں ، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے ۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کارگر نہیں ہوتا ۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے ، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی ، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں ، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے ۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا عالم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بدتر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani