Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس دن ہر شخص گھٹنوں کے بل گرا ہو گا اب سے لے کر ہمیشہ تک اور آج سے پہلے بھی تمام آسمانوں کا کل زمینوں کا مالک بادشاہ سلطان اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اللہ کے اور اس کی کتابوں کے اور اس کے رسولوں کے منکر قیامت کے روز بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ حضرت سفیان ثوری جب مدینے شریف میں تشریف لائے تو آپ نے سنا کہ معافری ایک ظریف شخص ہیں لوگوں کو اپنے کلام سے ہنسایا کرتے ہیں تو آپ نے انہیں نصیحت کی اور فرمایا کیوں جناب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک دن آئے گا جس میں باطل والے خسارے میں پڑیں گے ۔ اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور حضرت معافری مرتے دم تک اس نصیحت کو نہ بھولے ( ابن ابی حاتم ) وہ دن ایسا ہولناک اور سخت تر ہوگا کہ ہر شخص گھٹنوں پر گر جائے گا ۔ یہاں تک کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور روح اللہ حضرت عیسیٰ بھی ۔ ان کی زبان سے بھی اس وقت ( نفسی نفسی نفسی ) نکلے گا ۔ صاف کہدیں گے کہ اللہ آج ہم تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے صرف اپنی سلامتی چاہتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ آج میں اپنی والدہ کے لئے بھی تجھ سے کچھ عرض نہیں کرتا بس مجھے بچا لے ۔ گو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہر گروہ جداگانہ الگ الگ ہو گا لیکن اس سے اولیٰ اور بہتر وہی تفسیر ہے جو ہم نے کی یعنی ہر ایک اپنے زانو پر گرا ہوا ہوگا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا کہ میں تمہیں جہنم کے پاس زانو پر جھکے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اور مرفوع حدیث میں جس میں صور وغیرہ کا بیان ہے یہ بھی ہے کہ پھر لوگ جدا جدا کر دئیے جائیں گے اور تمام امتیں زانو پر جھکیں پڑیں گی یہی اللہ کا فرمان ہے آیت ( وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً ۣ كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 28؀ ) 45- الجاثية:28 ) ، اس میں دونوں حالتیں جمع کر دی ہیں پس دراصل دونوں تفسیروں میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں واللہ اعلم ، پھر فرمایا ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ۔ جیسے ارشاد ہے ( وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69؀ ) 39- الزمر:69 ) ، نامہ اعمال رکھا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا ۔ آج تمہیں تمہارے ہر ہر عمل کا بدلہ بھرپور دیا جائے گا جیسے فرمان ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) ، انسان کو ہر اس چیز سے باخبر کر دیا جائے گا جو اس نے آگے بھیجی اور پیچھے چھوڑی اس کے اگلے پچھلے تمام اعمال ہوں گے بلکہ خود انسان اپنے حال پر خوب مطلع ہو جائے گا گو اپنے تمام تر حیلے سامنے لا ڈالے ۔ یہ اعمال نامہ جو ہمارے حکم سے ہمارے امین اور سچے فرشتوں نے لکھا ہے وہ تمہارے اعمال کو تمہارے سامنے پیش کر دینے کے لئے کافی وافی ہیں جیسے ارشاد ہے ( وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا 49؀ۧ ) 18- الكهف:49 ) ، یعنی نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا تو تو دیکھے گا کہ گنہگار اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی اور عمل نامے کی تو یہ صفت ہے کہ کسی چھوٹے بڑے عمل کو قلم بند کئے بغیر چھوڑا ہی نہیں ہے جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب سامنے حاضر پا لیں گے ۔ تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے محافظ فرشتوں کو حکم دے دیا تھا کہ وہ تمہارے اعمال لکھتے رہا کریں ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں کہ فرشتے بندوں کے اعمال لکھتے ہیں پھر انہیں لے کر آسمان پر چڑھتے ہیں آسمان کے دیوان عمل کے رشتے اس نامہ اعمال کو لوح محفوظ میں لکھے ہوئے اعمال سے ملاتے ہیں جو ہر رات اس کی مقدار کے مطابق ان پر ظاہر ہوتا ہے جسے اللہ نے اپنی مخلوق کی پیدائش سے پہلے ہی لکھا ہے تو ایک حرف کی کمی زیادتی نہیں پاتے پھر آپ نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] باطل پرستوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو آخرت کے منکر ہوں۔ خواہ وہ دہریے ہوں، نیچری یا صرف آخرت کے منکر ہوں۔ ان لوگوں کو چونکہ اپنے اعمال کی بازپرس کا خیال تک نہ ہوگا۔ لہذا ایسے لوگوں نے اس خیال سے کوئی بھی نیک عمل نہ کیا ہوگا۔ اس دن انہیں پتا چلے گا کہ وہ کس قدر دھوکے میں پڑے ہوئے تھے اور اپنا کس قدر نقصان کرچکے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واللہ ملک السموت والارض : پچھلی آیت میں پہلی دفعہ زندگی بخشنے اور موت دینے کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا، اس آئی میں آسمان و زمین یعنی ساری کائنات کے اکیلے مالک ہونے کو قیامت کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا کہ وہ اپنی ملکیت میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ ساری کائنات بنا سکتا ہے، اسے فنا بھی کرسکتا ہے اور پھر دوبارہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس کے بعد قیامت کے کچھ احوال ذکر فرمائے۔- (٢) ویوم تقوم الساعۃ یومئذ یخسر المبطلون : جس طرح کوئی تاجر اپنے سرمائے کے ذریعے سے نفع حاصل کرنے کے لئے محنت کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو زندگی، صحت اور عقل کا سرمایہ عطا فرما کر آخرت کی کامیابی کا نفع حاصل کرنے کے لئے محنت کرنے کا حکم دیا۔ اہل باطل یعنی کفار نے اپنے اس عزیز سرمائے کے ذریعے سے نفع حاصل کرنے کے بجائے اسے اللہ کے ساتھ شرک، اس کی نافرمانی اور قیامت کا انکار کرنے میں صرف کردیا اور صریح خسارے میں رہے۔ اس خسارے کا پوری طرح اظہار اس وقت ہوگا جب قیامت قائم ہوگی، کیونکہ دنیا میں تو اس خسارے کی تلافی کا پھر بھی موقع موجود ہے مگر اس وقت بازار عمل میں واپس جانے کی اجازت ہی نہیں ہوگی کہ وہ اپنے خسارے کی تلافی کرسکیں۔ خسارے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة عصر کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اوپر جو کہا گیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ تم کو جمع کرے گا۔ ‘ تو اس کو کچھ مشکل نہ سمجھا جائے کیونکہ) اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں میں اور زمین میں (وہ جو چاہے تصرف کرے، پس تمہیں موت کے بعد زندہ کر کے جمع کرنا بھی اس کے لئے کوئی مشکل نہیں) اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس روز اہل باطل خسارہ میں پڑیں گے اور آپ (اس روز) ہر فرقہ کو دیکھیں گے کہ (مارے خوف کے) زانو کے بل گر پڑیں گے، ہر فرقہ اپنے نامہ اعمال (میں لکھے ہوئے اعمال کے حساب) کی طرف بلایا جائے گا (یہ مطلب ہے نامہ اعمال کی طرف بلانے کا، ورنہ نامہ اعمال تو خود ان کے پاس ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ) آج تم کو تمہارے کئے کا بدلہ ملے گا (اور کہا جائے گا کہ) یہ (نامہ اعمال) ہمارا (لکھایا ہوا) دفتر ہے جو تمہارے مقابلے میں ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے (یعنی تمہارے اعمال کو ظاہر کر رہا ہے اور) ہم (دنیا میں) تمہارے سب) اعمال کو (فرشتوں سے) لکھواتے جاتے تھے (اور یہ ان ہی کا مجموعہ ہے) سو (حساب کے بعد فیصلہ یہ ہوگا کہ) جو لوگ ایمان لائے تھے اور انہوں نے اچھے کام کئے تھے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہ صریح کامیابی ہے اور جو لوگ کافر تھے (ان سے کہا جائے گا کہ) کیا میری آیتیں تم کو پڑھ کر نہیں سنائٰ جاتی تھیں سو تم نے (ان کے قبول کرنے سے) تکبر کیا تھا اور (اسوجہ سے) تم بڑے مجرم تھے اور (تمہارا یہ حال تھا کہ) جب (تم سے) کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ (دوبارہ زندہ کر کے جزا و سزا دینے کا) حق ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم (نہایت بےپروائی سے) کہا کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے (صرف سننے سنانے سے) محض ایک خیال سا تو ہم کو بھی ہوتا ہے اور ہم کو (اس کا) یقین نہیں اور (اس وقت) ان پر اپنے تمام برے اعمال ظاہر ہوجائیں گے اور جس (عذاب) کے ساتھ وہ استہزا کیا کرتے تھے وہ ان کو آ گھیرے گا اور (ان سے) کہا جائے گا کہ آج ہم تم کو بھلائے دیتے ہیں (یعنی رحمت سے محروم کئے دیتے ہیں جس کو بھلانا مجازاً کہہ دیا) جیسا تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا اور (آج سے) تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں یہ (سزا) اس وجہ سے ہے کہ تم نے خدا تعالیٰ کی آیتوں کی ہنسی اڑائی تھی اور تم کو دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا (کہ اس میں مشغول ہو کر آخرت سے بالکل غافل بلکہ منکر ہوگئے تھے) سو آج یہ لوگ نہ تو دوزخ سے نکالے جائیں اور نہ ان سے خدا کی خفگی کا تدارک چاہا جائیگا (یعنی اس کا موقع نہ دیا جائے گا کہ توبہ کر کے خدا کو راضی کرلیا۔ جب یہ تمام مضامین سن لئے) تو (ان سے یہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ) تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے (ثابت) ہیں جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور پروردگار ہے زمین کا (اور آسمان و زمین ہی کی کیا تخصیص ہو وہ تو) پروردگار ہے تمام عالم کا اور اسی کو بڑائی ہے (جس کا ظہور آثار و علامات سے) آسمان و زمین میں (ہو رہا ہے) اور وہی زبردست ہے حکمت والا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ يَوْمَىِٕذٍ يَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ۝ ٢٧- ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کے خزانے یعنی بارش اور نباتات ہیں اور قیامت کے دن مشرکین دنیا و آخرت کے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے نقصان میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۔ “- وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَئِذٍ یَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ ” اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن جھٹلانے والے بڑے خسارے میں ہوں گے۔ “- جو لوگ حق کو باطل قرار دے رہے ہیں ‘ روزِ محشر انہیں عظیم خسارے کا سامنا کرنا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :40 سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس فقرے سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو خدا اس عظیم الشان کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کی قدرت سے یہ بات ہرگز بعید نہیں ہے کہ جن انسانوں کو وہ پہلے پیدا کرچکا ہے انہیں دوبارہ وجود میں لے آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani