28۔ 1 ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیاء کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف اور دہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے (فتح القدیر) تاآنکہ سب کو حساب کتاب کے لئے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔
[٤١] یعنی پہلے ہر قسم کے مجرموں کے الگ الگ گروہ بنائے جائیں گے۔ اور قیامت کے مناظر کی دہشت اس قدر زیادہ ہوگی کہ وہ کھڑے نہ رہ سکیں گے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اور سہمے ہوئے اس انتظار میں ہوں گے کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے اس وقت متکبروں کی سب اکڑ ختم ہوجائے گی۔
(١) وتری کل امۃ جاثیہ :” جاثیۃ “ ” جثا یجثو جثواً “ (ن) یا ” جثی یمحشی جیاً “ (ض) سے اسم فاعل ہے، گھنٹوں کے بل گری ہوئی۔ یعنی میدان حشر کا ایسا ہول اور رعب ہوگا کہ ہر امت شدید خوف زدہ ہو کر گھنٹوں کے بل گری ہوئی ہوگی۔ نیک ہوں یا بد، سب خوف و دہشت کے ساتھ اسی حالت میں فیصلے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس وقت بڑے سے بڑے متکبر کی بھی ساری شیخی اور اکڑ ختم ہوجائے گی۔- (٢) کل امۃ تدعی الی کتبھا :” کتاب “ سے مراد کتاب اعمال ہے، جس میں ان کی زندگی کی ساری رو داد حرف بحرف لکھی ہوگی، جیسا کہ فرمایا (ووضع الکتب فتری المجرمین مشفقین ممافیہ ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا) (الکھف : ٣٩)” اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے۔ “ بعض نے فرمایا : اس کتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو ہر امت کی طرف ان کے پیغمبر کے ذریعے سی بھیجی گئی، یعنی ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا، تاکہ وہ دیکھے کہ اس نے اس پر کہاں تک عمل کیا اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے۔ سیاق کی مناسبت سے پہلا معنی زیادہ درست ہے۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٣، ١٤)- (٣) الیوم تجرون ما کنتم تعملون : اس سے پہلے کچھ ال فاظ محذوف ہیں :” ای یقال لھم “ یعنی ان سے یہ بات کی جائے گی۔
معارف و مسائل - (آیت) وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً ۔ جثو سے مشتق ہے جس کے معنی گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے ہیں اور حضرت سفیان نے فرمایا، جثو اس طرح بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ جس میں زمین پر صرف گھٹنے اور پاؤں کے نیچے ٹک جائیں، اس طرح کی نشست ہوں اور خوف کی وجہ سے ہوگی۔ اور ظاہر کل امة کے لفظ سے یہ ہے کہ یہ صورت خوف تمام اہل محشر مومن کافر نیک و بد سب کو پیش آئے گی اور بعض دوسری آیات اور روایات میں جو محشر کے خوف و فزع سے انبیاء و صلحا کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے یہ اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ دہشت و خوف تھوڑی مدت کے لئے انبیاء و صلحاء پر بھی طاری ہو، مگر تھوڑی دیر قلیل ہونے کی بنا پر اس کو نہ ہونے کے حکم میں رکھا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل امة سے مراد عام اہل محشر نہ ہوں بلکہ اکثر مراد ہوں جیسا کہ لفظ کل بعض اوقات اکثر کے لئے بولا جاتا ہے اور بعض حضرات مفسرین نے جاثیہ کے معنے ایسی نشست کے کئے ہیں جیسے نماز میں ہوتی ہے تو پھر وہ اشکال خود ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ نشست خوف کی نہیں ادب کی نشست ہے (آیت) كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِهَا۔ کتاب سے مراد اس جگہ اکثر مفسرین کے نزدیک وہ نامہ اعمال ہے جو فرشتے دنیا میں لکھتے رہے تھے اور اب محشر میں یہ تحائف اعمال اڑا دیئے جائیں گے ہر ایک آدمی کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا اور اس سے کہا جائے گا۔ یعنی اپنا نامہ اعمال پڑھ لو اور خود ہی حساب لگا لو کہ تمہیں ان اعمال کا کیا بدلہ ملنا چاہئے اور اس اعمال نامہ کی طرف بلانے کا مطلب ان کے حساب کی طرف بلانا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔ واللہ اعلم - تمت سورة الجاثیة الحادی عشر من رجب 1392 ھ یوم الثلثاء واللہ الحمد والمنتہ
وَتَرٰى كُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِيَۃً ٠ ۣ كُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓى اِلٰى كِتٰبِہَا ٠ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٢٨- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - جثی - جَثَا علی رکبتيه يَجْثُو جُثُوّاً وجِثِيّاً فهو جَاثٍ ، نحو : عتا يعتو عتوّا وعتيّا، وجمعه : جُثِيّ نحو : باک وبكيّ ، وقوله عزّ وجل : وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم 72] ، يصح أن يكون جمعا نحو : بكي، وأن يكون مصدرا موصوفا به، والجاثية في قوله عزّ وجل : وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية 28] فموضوع موضع الجمع، کقولک : جماعة قائمة وقاعدة .- ( ج ث و ) جثا - ( ن ) جثوا وجثیا ۔ الرجل گھٹنوں کے بل بیٹھنا یہ عتا ( ن) عتوا وعتیا کی طرح ( باب نصر سے آتا ہے ) جاث ( صیغہ صفت ) ج جثی جیسے باک وبلی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الِمِينَ فِيها جِثِيًّا [ مریم 72] اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پرا ہوا چھوڑ دیں گے ۔ میں جثیا جاث کی جمع بھی ہوسکتی ہے اور مصدر بمعنی اسم فاعل بھی اور آیت کریمہ : ۔ وَتَرى كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً [ الجاثية 28] اور تم ہر ایک فرقے کو دیکھو گے کہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوگا میں ، ، جاثیۃ جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
آپ ہر ایک فرقہ والے کو ایک ہی جگہ دیکھیں گے پھر ایک فرقہ کو اس کے نامہ اعمال کے پڑھنے کی طرف بلایا جائے گا، چناچہ ان میں سے بعض کو ان کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور بعض کو ان کے بائیں ہاتھ میں۔
آیت ٢٨ وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ” اور تم دیکھو گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی۔ “- کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعٰٓی اِلٰی کِتٰبِہَا ” ہر امت کو بلایا جائے گا اس کے اعمال نامے کی طرف۔ “- وہاں سر ِمحشر باری باری ندا ہوگی کہ فلاں قوم کو لے آیا جائے اور ان کا اعمال نامہ پیش کیا جائے۔- اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ” آج تمہیں بدلہ دیا جائے گا ان اعمال کا جو تم کرتے رہے ہو۔ “
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :41 یعنی وہاں میدان حشر کا ایسا ہَول اور عدالت الہٰی کا ایسا رعب طاری ہو گا کہ بڑے بڑے ہیکڑ لوگوں کی اکڑ بھی ختم ہو جائے گی اور عاجزی کے ساتھ سب گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے ۔
9: قیامت کے مختلف مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ وہاں کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ گھٹنوں کے بل گرجائیں گے یا بیٹھ جائیں گے۔