Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی ہمارے علم کے علاوہ، فرشتے بھی ہمارے حکم سے تمہاری ہر چیز نوٹ کرتے اور محفوظ رکھتے تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] انفرادی اور اجتماعی اعمال نامے اعمال ناموں کی حقیقت :۔ لکھنے اور لکھوانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کسی کاغذ پر قلم اور روشنائی کے ساتھ کچھ تحریر کیا جائے۔ انسان خود ایسی ایجادات کرچکا ہے جس سے کسی کے اعمال، حرکات و سکنات، گفتگو اور لب و لہجہ سب کچھ دوسروں کے سامنے آجاتا ہے اور دوسرے اسے دیکھ اور سن سکتے ہیں اور ابھی جو کچھ مزید انسان ایجادات کرے گا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ لکھوایا ہوا ریکارڈ صرف حرکات و سکنات اوراقوال ہی پیش نہیں کرے گا، بلکہ دلوں میں پیداشدہ خیالات اور وساوس تک کو سامنے لا رکھے گا۔ پھر یہ ریکارڈ ہر شخص کا انفرادی بھی موجود ہوگا اور ایک ہی قسم کے لوگوں کا اجتماعی بھی اور ان کی اجتماعی کوششوں کا بھی۔ اور یہ اعمال نامے انفرادی طور پر بھی ہر ایک کے حوالہ کئے جائیں اور اجتماعی بھی۔ ایسے ہی الگ الگ فرقوں کے گروہوں کو اپنے اپنے اعمال نامے دیکھنے کے لیے بلایا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

( ) ١ ھذا کتبنا ینطق علیکم بالحق : اس میں ” ینطق “ کا لفظ قابل توجہ ہے، کیونکہ کتاب تو پڑھی جاتی کہ یہ استعارہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور وہ کتاب فی الواقع بولے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت ہی بلند ہے اور قیامت کا معاملہ دنیا سے بہت مختلف ہے، مگر اب انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل سے ایسی ایسی چیزیں ایجاد کرلی ہیں جو وہ سب کچھ دکھا اور سنا دیتی ہیں جو انسان کرتا ہے یا بولتا ہے۔ البتہ وہ کسی کی نیت کو سامنے نہیں لا سکتیں، مگر اللہ تعالیٰ کی تیار کروائی ہوئی ہو کتاب لوگوں کے افعال، اقوال، احوال اور نیتیں سب کچھ سامنے لے آئے گی۔- (٢) انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملوکن : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اس دن وہ کتاب اتنی مدت بعد کیسے بول کر بتائے گی ؟ انہوں نے تو وہ اعمال دنیا میں کئے تھے جو دنیا کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ فرمایا اس لئے کہ تم جو کچھ کیا کرتے تھے ہم فرشتوں کے ذریعے سے لکھوال یا کرتے تھے، تاہ وہ سند رہیں اور قیامت کے دن تم پر حجت قائم ہو سکے، ورنہ ہمیں تو ہر چیز کا پہلے ہی سے علم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا كِتٰبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۭ اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٢٩- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - نطق - [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع .- نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر :- 445-- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ]- «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا :- هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ- [ فصلت 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل :- حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر :- 446-- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً- «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه .- ( ن ط ق )- عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- نسخ - النَّسْخُ : إزالةُ شَيْءٍ بِشَيْءٍ يَتَعَقَّبُهُ ، كنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ ، والظِّلِّ الشمسَ ، والشَّيْبِ الشَّبَابَ. فَتَارَةً يُفْهَمُ منه الإزالة، وتَارَةً يُفْهَمُ منه الإثباتُ ، وتَارَةً يُفْهَم منه الأَمْرَانِ. ونَسْخُ الکتاب : إزالة الحُكْمِ بحکم يَتَعَقَّبُهُ. قال تعالی: ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها - [ البقرة 106] قيل : معناه ما نُزيل العملَ بها، أو نحْذِفها عن قلوب العباد، وقیل : معناه :- ما نُوجِده وننزِّله . من قولهم : نَسَخْتُ الکتابَ ، وما نَنْسأُه . أي : نُؤَخِّرُهُ فلَمْ نُنَزِّلْهُ ، فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] . وَنَسْخُ الکتابِ : نَقْلُ صُورته المجرَّدة إلى کتابٍ آخرَ ، وذلک لا يقتضي إزالةَ الصُّورَةِ الأُولی بل يقتضي إثباتَ مثلها في مادَّةٍ أُخْرَى، كاتِّخَاذِ نَقْشِ الخَاتم في شُمُوعٍ كثيرة، - ( ن س خ ) النسخ اس کے اصل معنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری کو اس کی جگہ پر لانے کے ہیں ۔ جیسے ۔ دھوپ کا سائے کو۔ اور سائے کا دھوپ کو زائل کر کے اس کی جگہ لے لینا یا جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا و غیرذلک پھر کبھی اس سے صرف ازالہ کے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] تو جو دو سوسہ شیطان ڈلتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے ۔ اور کبھی صرف اثبات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس سے معا دونوں مفہوم ہوتے ہیں ۔ لہذا نسخ الکتاب یعنی کتاب اللہ کے منسوخ ہونے سے ایک حکم نازل کرنا مراد ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها[ البقرة 106] ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کردیتے ہیں ۔ تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے نسخ اور انساء کے معنی اس پر عمل سے منع کرنے یا لوگوں کے دلوں سے فراموش کردینے کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نسخت الکتاب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب کو نقل کرنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو آیت بھی ہم نازل کرتے ہیں یا اس کے نزدل کو ایک وقت تک کے لئے ملتوی رکھتے ہیں تو اس سے بہتر یاویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ نسخ الکتاب کے معنی کتاب کی کاپی کرنے کے ہیں یہ پہلی صورت کے ازالہ کو مقتضی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے مادہ ہیں اس جیسی دوسری صؤرت کے اثبات کو چاہتا ہے جیسا کہ بہت سے شمعوں میں انگوٹھی کا نقض بنا دیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور کہا جائے گا کہ آج تمہارے دنیا کے اعمال و اقوال کا بدلہ دیا جائے گا اور یہ ہمارا لکھوایا ہوا دفتر ہے جو تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے ہم تمہارے تمام اعمال و اقوال کو لکھواتے جاتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ ہٰذَا کِتٰـبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ ” یہ ہمارا (تیار کردہ) اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر حق کے ساتھ گواہی دے گا۔ “- یہ وہ ریکارڈ ہے جس میں ہم نے تمہارے ایک ایک عمل کو محفوظ کر رکھا ہے۔ یہ ابھی تمہاری ایک ایک حرکت کی ٹھیک ٹھیک تفصیل بتادے گا اور تمہارے خلاف بالکل ٹھیک ٹھیک گواہی دے گا۔- اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ” جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم اسے لکھواتے جا رہے تھے۔ “- اس ” لکھنے “ کے مفہوم میں بہت وسعت اور جامعیت ہے۔ عام طور پر ہمارا ذہن لکھنے کے انسانی طور طریقوں کی طرف جاتا ہے۔ لیکن ان طریقوں میں بھی دیکھتے ہی دیکھتے ایسی تبدیلیاں آچکی ہیں جن کے بارے میں زمانہ ماضی میں کبھی ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم قلم اور دوات سے لکھا کرتے تھے مگر آج اس سے کہیں بہتر لکھائی کمپیوٹر کے ذریعے سے ہوجاتی ہے۔ پھر آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ بھی تحریر ہی کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے ہاں کی لکھائی کا تصور ہمارے ذہن سے بہت بالا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر انسان کی زندگی کے ایک ایک عمل اور ایک ایک لمحے کی تفصیلی روداد تیار ہو رہی ہے۔ وقت آنے پر بس ایک اشارہ ہوگا اور متعلقہ انسان کی زندگی کی مکمل تصویر سامنے آجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :42 لکھوانے کی صرف یہی ایک ممکن صورت نہیں ہے کہ کاغذ پر قلم سے لکھوایا جائے ۔ انسانی اقوال و افعال کو ثبت کرنے اور دوبارہ ان کو بعینہ اسکی شکل میں پیش کر دینے کی متعدد دوسری صورتیں اسی دنیا میں خود انسان دریافت کر چکا ہے ، اور ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آگے اس کے اور کیا امکانات پوشیدہ ہیں جو کبھی انسان ہی کی گرفت میں آ جائیں گے ۔ اب یہ کون جان سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس کس طرح انسان کی ایک ایک بات ، اور اس کی حرکات و سکنات میں سے ایک ایک چیز ، اور اس کی نیتوں اور ارادوں اور خواہشات اور خیالات میں سے ہر مخفی سے مخفی شے کو ثبت کرا رہا ہے ، اور کس طرح وہ ہر آدمی ، ہر گروہ اور ہر قوم کا پورا کارنامہ حیات بےکم و کاست اس کے سامنے لا رکھے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani