8۔ 1 یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔
[٩] ایسے لوگ جو زبانی طور پر تو اللہ کی مذکورہ بالا آیات کو تسلیم کرتے ہیں مگر عملاً ان چیزوں پر تصرف اور اختیار دوسروں کا تسلیم کرتے ہیں یہ درحقیقت اللہ پر بہتان لگانے والے ہوتے ہیں جو اللہ کے تصرفات میں دوسروں کو شریک کرلیتے یا پورے کا پورا اختیار انہیں کو سونپ دیتے ہیں۔ ان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ مجرم ضمیر ہوتے ہیں انہیں ایسی کوئی تعلیم یا ہدایت راس نہیں آتی جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو اگر وہ کسی کی بات مان لیں تو ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ اور ان کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ کی وجہ سے اپنے آپ کو بہت اونچی چیز سمجھتے ہیں اور اللہ کی آیات اس لیے سننا گوارا نہیں کرتے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ سب باتیں پہلے ہی معلوم ہیں۔ ہمیں کوئی کیا سکھائے گا۔ ؟
(١) یسمع ایت اللہ تتلی علیہ … : جو اللہ کی آیات سنتا ہے، جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر و شرک کپر ڈٹا رہتا ہے جیسے اس نے انھیں سنا ہی نہیں، سوا اسے درج ناک عذاب کی بشارت دے دے۔- (٢) ثم یصر مستکبراً : یہاں ” ثم “ کا لفظ اظہار تعجب کیلئے ہے کہ اگر اس نے اللہ کی آیات نہ سنی ہوتیں تو الگ بات تھی، تعجب اس بات پر ہے کہ اللہ کی آیات اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر وہ تکبر کرتے ہوئے کفر پر اصرار کرتا ہے، حالانکہ انسان کو تکبر زیب ہی نہیں دیتا، کیونکہ بڑائی تو صرف اللہ کی شان ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سورة انعام کے شروع میں فرمایا۔ (الحمد للہ الذی خلق السموت والارض وجعل الظلمت ولنور، ثم الذین کفروا برہیم یعدلون) (الانعام)” سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔ “- (٣) فبشرہ بعذاب الیم : بشارت خوش خبری کو کہتے ہیں، یعنی خشوع کی وہ خبر جس کے آثار بشرہ پر ظاہر ہوجائیں ۔ یہاں یہ لفظ تہکم یعنی استہزا کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں عذاب الیم کا ذکر فرمایا، اگلی آیت میں عذاب مہین کا اور اس سے اگلی آیت میں عذاب عظیمک ا۔ اس آیت میں کفر پر اصرار اور استکبار کی مناسبت سے عذاب الیم کیب شارت سنائی ہے۔
يَّسْمَعُ اٰيٰتِ اللہِ تُتْلٰى عَلَيْہِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْہَا ٠ ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ٨- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - صَرْصَراً- ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ- الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
اس کے باوجود کہ وہ آیات قرآنیہ کو سنتا ہے جو اس کے سامنے اوامرو نواہی کے بیان کے لیے پڑھی جاتی ہیں پھر بھی وہ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے تکبر کرتا ہوا اپنے کفر پر اس طرح اڑا رہتا ہے گویا کہ اس نے ان کو سنا یہ نہیں۔ اے نبی کریم آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئیے، چناچہ یہ بدر کے دن مارا گیا۔
آیت ٨ یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُتْلٰی عَلَیْہِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا ” وہ سنتا ہے اللہ کی وہ آیات جو اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ‘ پھر وہ اڑ جاتا ہے ضد پر تکبر ّکرتے ہوئے جیسے کہ اس نے انہیں سنا ہی نہ ہو۔ “- فَـبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ایک دردناک عذاب کی بشارت دے دیجئے۔ “- یہ دراصل سردارانِ قریش کے رویے کا ذکر ہے۔ ان میں سے اکثر کا یہی حال تھا ۔
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :9 بالفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے ، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کر چکا تھا ۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے ۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور وہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسری قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا ۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہے ۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں ، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی ۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں ، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو ۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا ، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور و فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا ۔