9۔ 1 یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے مذاق کا موضوع بنا لیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفر و معصیت پر اصرار و استکبار کی وجہ سے۔
[١٠] مشرکین کن آیات کا تمسخر اڑاتے ہیں :۔ قریشی سردار نصیحت حاصل کرنے کے لیے تو قرآن کی ایک بھی آیت سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ مگر ایسی آیات کی ٹوہ ضرور لگائے رکھتے تھے جن میں انہیں کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے کہ وہ آیات الٰہی کا مذاق اڑا سکیں۔ ان کا نشانہ تضحیک پہلے نمبر پر تو وہ آیات تھیں جن میں دوبارہ جی اٹھنے اور روز آخرت اور حشر و نشر کا ذکر ہوتا۔ سیدنا خباب بن ارت نے عاص بن وائل سہمی سے اپنی کچھ مزدوری لینا تھی۔ انہوں نے مزدوری کا مطالبہ کیا تو کہنے لگا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین چھوڑ دو تو مزدوری مل جائے گی۔ سیدنا خباب کہنے لگے : وہ تو میں تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک بھی نہیں چھوڑ سکتا عاص کہنے لگا : اچھا پھر جب میں دوبارہ جی اٹھوں گا تو تمہارا حساب بیباق کردوں گا پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی تو کفار نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہنے لگے بتاؤ اب اس کی دیوانگی میں کیا کسر رہ گئی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اہل دوزخ کا کھانا زقوم کا درخت ہوگا تو بھی کفار نے مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جہنم پر انیس داروغے مقرر ہیں۔ تو ایک پہلوان صاحب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اٹھارہ کو تو میں اکیلا سنبھال لوں گا، تم سب مل کر ایک کو بھی نہ سنبھال سکو گے اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرک اور ان کے معبود سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو عبداللہ بن الزبعریٰ کہنے لگا : پھر تو سیدنا عیسیٰ بھی جہنم میں جائیں گے۔ ان سے تو پھر ہمارے معبود ہی اچھے ہوئے اور ایسی آیات اور بھی بہت ہیں اور کفار مکہ ایسی ہی آیات معلوم کرنے کے درپے رہتے تھے جن کا مذاق اڑایا جاسکے۔
(١) واذا علم من ایتنا شیئاً اتخذھا ھزوا :” اتخذھا “ میں ضمیر ” ھا “ ” شیئاً “ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے، کیونکہ ” شیئاً “ کا لفظ اگرچہ مذکر ہے مگر اس سے مراد کوئی ” آیۃ “ (آیت) ہے، اس لئے ضمیر مونث ” ھا “ استعمال فرمائی ہے اور ” ایتنا “ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی آیت معلوم کرلیتا ہے (جسے وہ صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا یا جس کا مطلب الٹا نکال لیتا ہے) تو اسے مذاق بنا لیتا ہے۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی آیت معلوم کرلیتا ہے تو صرف اس کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ہماری تمام آیات کو مذاق بنا لیتا ہے۔ مثلاً جب اس کے ہاتھ قرآن مجید کی کوئی ایسی بات آتی ہے جس کا مطلب توڑ مروڑ کر اس کا مذاق اڑا سکتا ہے تو تمام آیات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ قرآن کی سبھی آیات ایسی ہیں۔ یہ اس کے بدترین ” افاک “ و ” اثیم “ ہونے کا بیان ہے کہ آیات الٰہی سن کر وہ کفر پر اصرار ہی نہیں کرتا بلکہ ناحق ان کا مذاق بھی اڑاتا ہے اور اتنا کہ انھیں مذاق بنا لیتا ہے۔- (٢) اولئک لہم عذاب مھین : آیات الٰہی کی اہانت کے بدلے میں ان کے لئے ذل یل کرنے والا عذاب ہے۔ اس آیت میں آیات سے استہزاء اور ان کی توہین کی مناسبت سے ان کے لئے عذاب مہین کی خبر دی۔
وَاِذَا عَلِمَ مِنْ اٰيٰتِنَا شَيْئَۨا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ ٩ ۭ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔
اور یہ جب قرآن کریم کو سنتا ہے تو اس کا مذاق اڑاتا ہے اس نضر کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔
آیت ٩ وَاِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْئَانِ اتَّخَذَہَا ہُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ” اور جب ہماری آیات میں سے کوئی بات اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے اہانت آمیز عذاب ہوگا۔ “
سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :10 یعنی اس ایک آیت کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تمام آیات کا مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ مثلاً جب وہ سنتا ہے کہ قرآن میں فلاں بات بیان ہوئی ہے تو اسے سیدھے معنی میں لینے کے بجائے پہلے تو اسی میں کوئی ٹیڑھ تلاش کر کے نکال لاتا ہے تا کہ اسے مذاق کا موضوع بنائے ، پھر اس کا مذاق اڑانے کے بعد کہتا ہے : اجی ان کے کیا کہنے ہیں ، وہ تو روز ایک سے ایک نرالی بات سنا رہے ہیں ، دیکھو فلاں آیت میں انہوں نے یہ دلچسپ بات کہی ہے ، اور فلاں آیت کے لطائف کا تو جواب ہی نہیں ہے ۔