11۔ 1 کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب (رض) جیسے مسلمانوں کو، جو غریب و قلاش کے لوگ تھے لیکن اسلام قبول کرنے میں انہیں سب سے پہلے شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت و ذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کرلیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے۔ اس لیے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا اور جب ہم نے اسے نہ اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے جیسے وہ اسے اساطیر الاولین بھی کہتے تھے حالانکہ دنیاوی مال ودولت میں ممتاز ہونا عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں (جیسے ان کو مغالظہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا) عند اللہ مقبولیت کے لیے تو ایمان و اخلاص کی ضرورت ہے اور اس دولت ایمان و اخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔
[١٥] یہود کی اپنے متعلق غلط فہمی :۔ بایں ہمہ وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ کسی چیز کے حق ہونے کا معیار ہماری ذات والا صفات ہے۔ حق وہی ہوسکتا ہے جسے ہم حق قرار دے دیں۔ پھر جب ہم ہی اسے حق نہیں سمجھتے تو چند کمزور درجہ کے لوگوں کے اس کو حق سمجھنے سے وہ چیز حق کیسے بن سکتی ہے۔ اگر یہ دین کوئی اچھی چیز ہوتی تو ہم جیسے عقلمند اور معزز لوگ ان لونڈی غلاموں سے پیچھے کیسے رہ جاتے ؟- [١٦] جھوٹ تو وہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ اپنی ذات کو ہی حق کا معیار سمجھتے تھے اور قرآن ان کے معیار کے خلاف تھا۔ اور پرانا اس لیے کہتے تھے کہ سابقہ انبیائے کرام کی تعلیم بھی بعینہ وہی کچھ تھی جو اس نبی آخرالزمان کی تھی۔ وہ اسے نیا جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتے تھے اور نہ انہیں یہ کہنا گوارا تھا کہ یہ پرانا سچ ہے۔ کیونکہ ابتدا سے انبیائے کرام یہی سچی تعلیم دیتے رہے ہیں۔
(١) وقال الذین کفروا للذین امنوا لو کان خیراً …:” للذین امنوا “ میں ” لام “ کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے مخاطب ہو کر کہا، بلکہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں کہا۔ پچھلی آیت میں مشرکین کے ایمان نہ لانے کا باعث ان کا تکبر ذکر فرمایا تھا، اب ان کے تکبر اور خود پسندی کی ایک مثال ذکر فرمائی جس کی بنا پر وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دنیا کی نعمتوں پر اس قدر مغرور ہیں کہ اس کی ہر نعمت کا مستحق صرف اپنے آپ ہی کو سمجھتے ہیں۔ بلال، عمار، عبداللہ بن مسعود، سمیہ اور زنیرہ (رض) جیسے مکسی ن اور ضعیف مسلمانوں کو وہ اللہ تعالیٰ کے کسی انعام کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اسلام کے ہر خیر سے خالی ہونے کی دلیل یہ تصنیف کی کہ اگر اسلام میں کوئی خوبی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے اس لئے انہوں نے اسلام کے ہر خیر سے خالی ہونے کی دلیل یہ تصنیف کی کہ اگر سالام میں کوئی خوبی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی :(الکبر بطر الحق و عمط الناس کا پہلے اس کی طرف نہ آتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی :(الکبر بطر الحق و غمط الناس) (مسلم، الایمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١)” تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ مشرکین مسلمانوں کو کس قدر حقیر جانتے تھے، اس کا اندازہ اس آیت سے ہوتا ہے :(وذلک فتنا بعضھم ببعض لیقولوا اھولآء من اللہ علیھم من بینا) (الانعام : ٥٣)” اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے ؟ “ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں کا انداز تحقیر ملاحظہ فرمائیں، انہوں نے نوح (علیہ السلام) سے کہا :(مانریک الا بشراً مثلنا وما نریک اتبعک الا الذین ھم اراذلنا بادی الزای ، وما نری لکم علینا من فضل بل نظلکم کذبین) (ھود : ٢٨)” ہم تجھے نہیں دیکھتے مگر اپنے جیسا ایک بشر اور ہم تجھے نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کے سوا کسی نے تیری پیروی کی ہو جو ہمارے سب سے رذیل ہیں، سطحی رائے کے ساتھ اور تمہارے لئے اپنے آپ پر کوئی برتری نہیں دیکھتے، بلکہ ہم تمہیں جھوٹے گمان کرتے ہیں۔ “- (٢) وذا لم یھتدوابہ فسیقولون…: کفار کے جن اقوال کا یہاں ذکر ہوا ان سب کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلاتا تھا، مثلاً یہ کہنا کہ یہ سحر ہے، افترا ہے، اس میں کوئی خیر نہیں وغیرہ۔ فرمایا، جب وہ اس قرآن کے ذریعے سے سیدھا راستہ حاصل نہ کرسکے تو وہ یہی کہتے رہیں گے کہ یہ قدیم جھوٹ ہے۔ یعنی اگر وہ ضد اور عناد پر اڑے رہے تو کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے اور نہ کوئی عقل یا نقلی دلیل تسلیم کریں گے، بلکہ ان کے سامنے پہلے انبیاء اور اہل علم کی شہادت پیش کی گئی تو وہ تمام پیغمبروں اور کتابوں کو بھی یہ کہہ کر رد کردیں گے کہ یہ قدیم جھوٹ ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ ان کے اس رویے کے باعث صرف ان کا کفر اور تکبر ہے، جب تک وہ اس پر قائم رہیں گے یہی بات کہتے رہیں گے، جیسا کہ فرمایا :(وقال الذین کفروا ان ھذا الا افک اقتربہ و اعانہ علیہ قوم اخرون ، فقد جآء و ظلماً و زوراً وقالوا اساطیر الاولین اکتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا (الفرقان : ٥٠٣) ” اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، یہ نہیں ہے مگر ایک جھوٹ، جو اس نے گھڑ لیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اس کی مدد کی، سو بلاشبہ وہ بھاری ظلم اور سخت جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ اور انہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو اس نے لکھوالی ہیں، تو ووہ پہلے اور پچھلے پہر اس پر پڑھی جاتی ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - اور یہ کافر ایمان والوں (کے ایمان لانے) کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن (جس پر یہ لوگ ایمان لائے ہیں) کوئی اچھی (یعنی سچی) چیز ہوتا تو یہ (کم درجہ کے) لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ کرتے (یعنی ہم لوگ بڑے عاقل ہیں اور یہ لوگ کم عقل ہیں اور حق بات کو عاقل پہلے قبول کرتا ہے اور اگر یہ حق ہوتا تو ہم پہلے مانتے جب ہم نے نہیں مانا تو یہ حق نہیں یہ لوگ بےعقلی سے ادھر دوڑنے لگے ہیں۔ کافروں کا یہ قول ان کے انتہائی تکبر کی دلیل ہے جس کا ذکر اوپر استکبرتم میں آیا ہے) اور جب (عناد وتکبر کے باعث) ان لوگوں کو قرآن سے ہدایت نصیب نہ ہوئی تو (اپنے عناد اور ضد کی بنا پر) یہیں کہیں گے کہ یہ (بھی مثل) قدیمی (جھوٹے مضامین کے ایک) جھوٹ (مضمون) ہے اور اس (قرآن) سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب (نازل ہوچکی) ہے جو ( موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے لئے بالعموم) رہنما (تھی) اور (اہل ایمان کے لئے بالخصوص) رحمت تھی (اور جس طرح توریت میں اس کی پیشین گوئی ہے) یہ (اسی طرح کی) ایک کتاب ہے جو اس (کی پیشین گوئی) کو سچا کرتی ہے (اور) عربی زبان میں (ہے) ظالموں کو ڈرانے کے لئے اور نیک لوگوں کو بشارت دینے کے لئے (نازل ہوئی ہے۔ )- معارف و مسائل - (آیت) لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ، تکبر و غرور انسان کی عقل کو بھی مسخ کردیتا ہے۔ متکبر آدمی اپنی عقل اور اپنے عمل کو معیار حسن و قبح و خیر و شر سمجھنے لگتا ہے جو چیز اس کو پسند نہ ہو خواہ دوسرے لوگ اس کو کتنا ہی اچھا سمجھیں یہ ان سب کو بیوقوف سمجھتا ہے حالانکہ خود بیوقوف ہے کفار کے اسی درجہ غرور تکبر کا اس آیت میں بیان ہے کہ اسلام و ایمان چونکہ ان کو پسند نہیں تھا تو دوسرے لوگ جو ایمان کے دلدادہ تھے ان کو یہ کہتے تھے کہ اگر یہ ایمان کوئی اچھی چیز ہوتی تو سب سے پہلے ہمیں پسند آتی، ان دوسرے غریب فقیر لوگوں کی پسند کا کیا اعتبار۔- ابن منذر وغیرہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ عمر بن خطاب جب مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کی ایک کنیز جس کا نام زنیرہ تھا پہلے مسلمان ہوگئی تھی یہ اس کو اس کے اسلام پر مارتے اور دھمکاتے تھے کہ کسی طرح یہ اسلام کو چھوڑ دے اور کفار قریش کہا کرتے تھے کہ اسلام کوئی اچھی چیز ہوتی تو رنین جیسی حقیر عورت اس میں ہم سے آگے نہ ہوتی، اس کے متعلق آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ (مظہری)
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْہِ ٠ ۭ وَاِذْ لَمْ يَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِيْمٌ ١١- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] - ( لو ) لو - ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله :- الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] .- الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک - أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔- قَدِيمُ ( پرانا)- في وصف اللہ تعالی، والمتکلّمون يستعملونه، ويصفونه به وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ،- البتہ علماء متکلمین اسے بطور صفت الہی کے استعمال کرتے ہیں عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔
اور یہ کافر قبیلہ یعنی اسد غطفان، حنظلہ مسلمان قبیلوں یعنی جہینہ، مزنیہ، اسلم کے متعلق یوں کہتے ہیں کہ محمد جو بات کہتے ہیں اگر وہ صحیح اور بہتر ہوتی تو یہ اسلم جہنیہ اور مزنیہ والے اس کو قبول کرنے میں پہل نہ کرتے۔- اور جب یہ لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لائے تو یوں کہیں گے کہ یہ قرآن بھی ایک قدیمی جھوٹ ہے۔- شان نزول : وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ (الخ)- ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم اور فلاں عزت والے ہیں اور اگر یہ قرآن کریم حق ہوتا تو فلاں اور فلاں کے ماننے میں ہم سے پہل نہ کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن منذر نے عون بن شداد سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک زنین نامی باندھی تھی وہ حضرت عمر فاروق کی سختی کی وجہ سے بھاگ جاتی تھی اور کفار قریش کہا کرتے تھے اگر یہ قرآن کریم حق ہوتا تو یہ زنین اس کو قبول کرنے میں ہم سے پہل نہ کرتی۔ چناچہ حق تعالیٰ نے اس باندی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہ کافر ایمان والوں کے متعلق یوں کہتے ہیں۔ اور ابن سعد نے اسی طرح ضحاک اور حسن سے روایت نقل کی ہے۔
آیت ١١ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ ” اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی ‘ ان لوگوں کے بارے میں جو ایمان لائے کہ اگر یہ (قرآن) کوئی خیر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت نہ لے جاتے ۔ “- یہ سردارانِ قریش کے موقف کا حوالہ ہے کہ ہم بڑے ہیں ‘ دانشور ہیں اور ہر اعتبار سے معاشرے کے سرکردہ لوگ ہیں۔ جب ہم اس دین کی طرف مائل نہیں ہوئے اور ہمیں اس قرآن میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بھلائی کی کوئی بات ہے ہی نہیں ‘ ورنہ یہ غریب غرباء اور گھٹیا لوگ اس معاملے میں ہم سے سبقت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں میں اگرچہ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) جیسے لوگ بھی تھے ‘ جن کا تعلق اونچے گھرانوں سے تھا ‘ مگر ابتدا میں زیادہ تر نادار اور مزدور لوگ ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے ‘ جن میں کوئی غلام بھی تھے ‘ اور شروع شروع میں یہی لوگ زیادہ تر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد موجود ہوتے تھے۔ - چناچہ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں کو اعتراض تھا کہ آپ ( علیہ السلام) کے پیروکار نچلے طبقے کے لوگ ہیں (ہود : ٢٢) اسی طرح مکہ کے سرداروں کو بھی نادار اور غلام اہل ایمان کی موجود گی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں بیٹھنا گوارا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مزدوروں ‘ غلاموں اور کمتر حیثیت کے لوگوں کے درمیان آکر بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں۔ ہاں ان لوگوں کو اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی محفل سے اٹھا دیں تو پھر ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سننے پر غور کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ان مومنین ِصادقین کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗط مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ ” اور مت دھتکارئیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح وشام اور اس کی رضا کے طالب ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے ان کے حساب میں سے کچھ نہیں ہے اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حساب میں سے ان کے ذمے کچھ ہے ‘ تو اگر (بالفرض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں دور کریں گے تو آپ ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ “- وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہٖ فَسَیَقُوْلُوْنَ ہٰذَآ اِفْکٌ قَدِیْمٌ ” اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن) کے ذریعے سے ہدایت نہیں پائی تو اب کہیں گے کہ یہ تو گھڑی ہوئی پرانی چیز ہے۔ “
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :15 یہ ان دلائل میں سے ایک ہے جو قریش کے سردار عوام الناس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہکانے کیے لیے استعمال کرتے تھے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ قرآن برحق ہوتا اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک صحیح بات کی طرف دعوت دے رہے ہوتے تو قوم کے سردار اور شیوخ اور معززین آگے بڑھ کر اس کو قبول کرتے ۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چند ناتجربہ کار لڑکے اور چند ادنٰی درجہ کے غلام تو ایک معقول بات کو مان لیں اور قوم کے بڑے بڑے لوگ ، جو دانا اور جہاندیدہ ہیں ، اور جن کی عقل و تدبیر پر آج تک قوم اعتماد کرتی رہی ہے ، اس کو رد کر دیں ۔ اس پر فریب استدلال سے وہ عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ اس نئی دعوت میں خرابی ہے ، اسی لیے تو قوم کے اکابر اس کو نہیں مان رہے ہیں ، لہذا تم لو گ بھی اس سے دور بھاگو ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :16 یعنی ان لوگوں نے اپنے آپ کو حق و باطل کا معیار قرار دے رکھا ہے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جس ہدایت کو یہ قبول نہ کریں وہ ضرور ضلالت ہی ہونی چاہیے ۔ لیکن یہ اسے نیا جھوٹ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے ، کیونکہ اس سے پہلے بھی انبیاء علیہم السلام یہی تعلیمات پیش کرتے رہے ہیں ، اور تمام کتب آسمانی جو اہل کتاب کے پاس موجود ہیں ، ان ہی عقائد اور ان ہی ہدایات سے بھری ہوئی ہیں ۔ اس لیے یہ اسے پرانا جھوٹ کہتے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک وہ سب لوگ بھی دانائی سے محروم تھے جو ہزاروں برس سے ان حقائق کو پیش کرتے اور مانتے چلے آ رہے ہیں ، اور تمام دانائی صرف انکے حصے میں آ گئی ہے ۔
6: یہ تھا ان کافروں کا گھمنڈ کہ ہر قسم کی خوبیاں ہم میں پائی جاتی ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، وہ ہم سے کم حیثیت ہیں، اس لئے اگر اسلام کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔