10۔ 1 اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکہ میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں (صحیح بخاری) امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے (اس جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید و معاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تمہارے انکار استکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے
(١) قل ارء یتم ان اکن من عند اللہ …:” ارء یتم “ کا لفظ معنی ہے ” کیا تم نے دیکھا۔ “ اہل عرب اسے ” اخیرونی “ (مجھے بتاؤ) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی کیا تم نے دیکھا ؟ اگر دیکھا ہے تو مجھے بتاؤ۔ شھد شاھد من بنی اسرآئیل علی مثلہ “ میں ” اس جیسے کی شہادت “ سے مراد یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس کی شہادت دی ہو۔ کیونکہ بعض اوقات کسی چیز کی مثل سے مراد خود وہ چیز ہوتی ہے، جیسے کہتے ہیں ” مثلک لا یفعل ھذا “ (تیرے جیسا یہ کام نہیں کرتا “ یعنی توبہ یہ کام نہیں کرتا۔ اس لئے آگے ” فامن و استکبرتم “ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس جیسے پر ایمان لایا، بلکہ اس کا مطلب ہے ” پھر وہ اس پر ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا۔ ” لفظ “ مثل کو خود کسی کی ذات کے لئے استعمال کرنے کی ایک مثال ایک تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :(اومن کان میتاً فاحینہ و جعلنا لہ نوراً یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمت لیس بخارج منھا) (الانعام : ١٢٢)” ای کمن خو (نفسہ) فی الظلمات “ یہاں ” اس شخص کی طرح ہے جس کی مثل اندھیروں میں ہے “ سے مراد ہے ” اس شخص کی طرح ہے جو (خود) اندھیروں میں ہے۔ “ اسی طرح :(فان امنوا بمثل فا امنتم بہ فقد اھتدوا) (البقرۃ :138) (پس اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے) سے مراد یہ ہے کہ ” اگر وہ اس چیز پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہو…۔ “ (اضواء البیان) مزید تفصیل کے لئے دیکھیے سورة شوریٰ کی آیت (١١):(لیس کمثلہ شیء ) کی تفسیر۔- اس آیت میں ” ان کان من عند اللہ “ سے لے کر ” واستکبرتم “ تک شرط ہے، جس کی جزا محذوف ہے اور وہ بعد والے جملے ” ان اللہ لایھدی القوم الظلمین “ سے ظاہر ہو رہی ہے :” ای فمن اظلم منکم “ ” تو تم سے بڑھ کر ظالم کون ہے۔ “ اس کی تائید سورة حم السجدہ (٥٢) سے بھی ہوتی ہے۔- قرآ ن کو جھٹلانے کے لئے کفار کے مختلف اعتراضات اور ان کے جوابات ذکر کرنے کے بعد اب انہیں اس پر ایمان نہ لانے کے انجام بد سے ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ بتاؤ کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تم اس کا انکار کرو، حالانکہ بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والا بھی اس کے حق ہونے کی شہادت دے چکا ہو، پھر وہ خود بھی اس پر ایمان لے آیا ہو مگر (تم یہ جان لینے کے باوجود کہ یہ حق ہے) محض تکبر اور جھوٹی بڑائی قائم رکھنے کے لئے اسے ماننے سے انکار کر دو (تویقینا تم ظالم ہوگئیا ور اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت کی توفیقف نہیں دے گا) کیونکہ جو لوگ تکبر کرتے ہوئے حق سے انکار کردیں ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ بھی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق نہیں دیتا۔- (٢) اس آیت میں ” شھد شاھد من بنی اسرآئیل “ سے کون مراد ہے ؟ مفسرین کے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ سب سے مشہور قول یہ ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن سلام (رض) ہیں۔ اس کی دلیل سعد بن ابی وقاص (رض) کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں۔ (ما سبمعت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقول لاحدیمشی علی الارض انہ من اھل الجنۃ الا نعبد اللہ بن سلام قال وفیہ نزلت ھذہ الآبۃ (وشھد شاھدً من بنی اسرآئیل علی مثلہ) (بخاری : مناقب الانصار، مناقب عبداللہ بن سلام : ٣٨١٢)” میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبد اللہ بن سالم کے سوا کسی ایسے شخص کے بارے میں جو زمین پر چل پھر رہا ہو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ جنتیوں میں سے ہے۔ “ سعد (رض) نے فرمایا کہ انھی کے بارے میں یہ آیت اتری :(وشھد شاھد من بنی اسرآئیل علی مثلہ) (الاحفاف : ١١)” اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی۔ “ مگر اس میں یہ اشکال ہے کہ یہ سورت مکی ہے جب کہ بتاتے ہیں کہ بیشک سورت مکی ہے مگر یہ آیت مدنی ہوسکتی ہے، یا ہوسکتا ہے کہ مکہ میں پہلے ہی بنی اسرائیل میں سے عبداللہ بن سلام (رض) بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے بنی اسرائیل میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق ہونے کی شہادت دی اور آپ پر ایمان لائے۔ کیونکہ اصول تفسیر میں یہ بات طے ہے کہ بعض اوقات صحابہ کرام (رض) یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں مسئلے یا فلاں شخص کے بارے میں اتری، حالانکہا ن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت اس شخص یا اس مسئلے پر منطبق ہوتی اور صادق آتی ہے۔- دوسرا اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) یا بقول بعض عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ انہوں نحے رسول اللہ ں کے حق ہونے کی شہادت تورات اور انجیل میں دی۔ خصوصاً عیسیٰ (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی اور آپ پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی تصدیق کی، فرمایا :(واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرآئیل الی رسول اللہ الیکم مصدقاً لما بین یدی من الثوریۃ و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد) (الصف : ٦)” اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے نبی اسرائیلچ بلا شبہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تو رات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد۔ “ تورات و انجیل میں تحریف کے باوجود اب بھی ان میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گی ہے اور آپ کی تصدیق کی گی ہے۔ مزید دیکھیے سورة صف (٦) اور سورة اعراف (١٥٧) کی تفسیر۔- چوتھا قول جو زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے، یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا تجارت کے سلسلیمیں مدینہ، خیبر اور شام میں آنا جانا عام تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے سوروہ قریش میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ انس فروں میں ان کی ملاقات اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے بھی ہوتی تھی اور وہ ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھتے تھے اور ان میں سے منصف لوگ حق بات کی شہادت سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مکی سورتوں میں بھی اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اہل کتاب کے اہل علم بھی اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی کتاب کی تصدیق کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں، اسلئے ” شھد شاھد من بنی اسرائیل “ میں لفظ ” شاھد “ جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے فرمایا اسم جنس ہے اور اس سے مراد ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں موجود ہونے کے وقت آپ کے سچا نبی ہونے کی شہادت دی ، جیسا کہ نجاشی (رض) کا آپ پر ایمان لانا اور آپ کے حق ہونے کی شہادت دینا سب کو معلوم ہے، اگرچہم دینہ میں ایمان لانے والے اسرائیلی صحابہ بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ اب مکی سورتوں کی وہ آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں اہل کتاب کی شہادت کو بطور تائید ذکر کیا گیا ہے۔” قل کفی باللہ شھیداً بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتب) (الرعد : ٣٣)” کہہ دے میرے درمیان اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ “ اور فرمایا :(ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلی علیھم یحزون للاذقان سجداً ویقولون سبحن ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولاً (بنی اسرائیل :108، 108) ، ” بیشک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا، جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہوئے گرجاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا رب پاک ہے ، بیشک ہمارے رب کا وعدہ یقینا ہمیشہ پورا کیا ہوا ہے۔ “ اور فرمایا (واذا یتلی علیھم قالوا امنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین) (القصص : ٥٣)” اور جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، یقینا یہی ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔ بیشک ہم اس سے پہلے فرماں بردار تھے۔ “ اور فرمایا :(اولم یکن لھم ایۃ ان یعلمہ علموآ بنی اسرائیل) (الشعرائ : 198)” اور کیا ان کے لئے یہ ایک نشانی نہ تھی کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔ “
(آیت) وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ اس آیت کا مضمون تقریباً وہی ہے جو سورة شعراء کے آخری رکوع کی آیت کا ہے یعنی (آیت) اولم یکن لھم ایة ان یعلمہ علماء بنی اسرائیل۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ جاہل یہود و نصاری جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کا انکار کرتے ہیں یہ خود اپنی کتابوں سے بھی ناواقف اور جاہل ہیں کیونکہ بہت سے علمائے بنی اسرائیل اپنی کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کی علامات کا مشاہدہ کر کے آپ پر ایمان لے آئے ہیں کیا ان علماء کی شہادت بھی ان جاہل لوگوں کے لئے کافی نہیں۔ اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ میرا دعوی رسالت اور قرآن کا اللہ کی کتاب ہونا غلط اور افترا ہے اول تو اس کے غلط ہونے کے لئے وہ بات کافی ہے جو پہلے ابھی ذکر کی گئی ہے کہ جو شخص اللہ پر ایسا کھلا افترا کرے کہ مجھے اس نے نبی بنا کر بھیجا ہے اور واقع میں وہ نبی نہیں ہے تو اس پر اس دنیا ہی میں عذاب کا آجانا اور اس کا ہلاک کیا جانا ضروری ہے تاکہ عام لوگ دھوکے سے بچ سکیں اور بالفرض تم اس کو بھی نہیں مانتے تو کم از کم اس احتمال کو تو نظر انداز نہ کرو کہ اگر میرا دعویٰ صحیح ہوا اور یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہی ہوئی اور تم اس سے کفر و انکار پر جمے رہو تو تمہارا کیا انجام ہوگا خصوصاً اس صورت میں کہ خود تمہاری قوم بنی اسرائیل ہی میں کوئی بڑا آدمی اس کے منجانب اللہ ہونے کی شہادت دے دے اور مسلمان ہوجائے اور تم اس علم کے بعد بھی اپنی ضد اور تکبر پر جمے رہو تو تم کس قدر عذاب کے مستحق ہو گے۔- اس آیت کے الفاظ میں کسی خاص عالم بنی اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا اور نہ یہ متعین گیا کہ یہ شہادت اس آیت کے نزول سے پہلے لوگوں کے سامنے آچکی ہے یا آئندہ آنے والی ہے بلکہ ایک جملہ شرطیہ کے طور پر فرمایا ہے کہ اگر ماضی میں بالفعل یا آئندہ ایسا ہوجائے تو تمہیں اپنی فکر کرنا چاہئے کہ تم عذاب سے کیسے بچو گے۔ اس لئے مضمون آیت کا سمجھنا اس پر موقوف نہیں ہے کہ علمائے بنی اسرائیل میں سے کسی شاہد معین کو اس کا مصداق قرار دیا جائے بلکہ جتنے حضرات یہود و نصاری میں سے داخل اسلام ہوئے جن میں حضرت عبداللہ بن سلام زیادہ معروف ہیں وہ سبھی اس میں داخل ہیں اگرچہ حضرت عبداللہ بن سلام کا ایمان اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا اور یہ پوری سورت مکی ہے۔ (ابن کثیر)- اور بعض روایات میں جو حضرت سعد (رض) سے منقول ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی (کما رواہ البخاری و مسلم و النسائی من حدیث مالک) نیز حضرت ابن عباس، مجاہد ضحاک قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر سب نے باتفاق فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے متعلق نازل ہوئی ہے تو یہ اس آیت کے مکی ہونے کے منافی نہیں، کیونکہ اس صورت میں یہ پیشن گوئی آئندہ کے لئے ہوجائے گی (کذا قال ابن کثیر)
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللہِ وَكَفَرْتُمْ بِہٖ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي مِثْلِہٖ فَاٰمَنَ وَاسْـتَكْبَرْتُمْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْــقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ ١٠ ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
اور آپ ان یہودیوں سے فرما دیجیے اے گروہ یہود مجھے بتاؤ اگر یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ہوا اور تم اس قرآن کریم کا انکار کرو اور جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اس قرآن کی گواہی دے کر اس پر اور رسول اللہ پر ایمان لے آئے بنیامین بنی اسرائیل میں سے گواہی دے کر ایمان لے آئیں اور تم رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے تکبر ہی میں رہو تو جان لو کہ حق تعالیٰ ایسے شخص کو جو کہ اہل نہیں ہوتا ہدایت نہیں کرتا۔- شان نزول : قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ (الخ)- امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ عوف بن مالک الاشجعی سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم چلے اور میں آپ کے ساتھ تھا یہاں تک کہ یہود کے گرجا میں ان کے عید کے دن داخل ہوئے تو ان کو ہمارا ان کے پاس جانا ناگوار گزرا، رسول اکرم نے ان سے فرمایا اے گروہ یہود مجھے بارہ آدمی ایسے بتاؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور محمد حق تعالیٰ کے رسول ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ہر ایک یہودی سے جو کہ آسمان کے نیچے اپنا غصہ جو کہ اس یہودی پر تھا دور کردے یہ سن کر وہ خاموش ہوگئے، اور ان میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ چناچہ آپ لوٹ چلے اچانک ایک شخص آپ کے پیچھے ہولیا اور کہنے لگا کہ آپ محمد وہی ہیں پھر وہ شخص یہودیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ تم مجھے اپنے میں کیسا آدمی سمجھتے ہو وہ کہنے لگے کہ واللہ ہم تم سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم اور تم سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں جانتے اور تم سے پہلے تمہارے باپ سے زیادہ اور نہ تمہارے باپ سے پہلے تمہارے دادا سے بڑح کر کسی عالم کو سمجھتے ہیں۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ نبی ہیں جن کی صفت و توصیف تم توریت میں پاتے ہو وہ یہود کہنے لگے کہ تو جھوٹ کہتا ہے اور اس شخص کو انہوں نے برا بھلا کہا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ آپ کہہ دیجیے تم مجھے یہ بتاؤ کہ اگر یہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس کے منکر ہو۔- اور بخاری و مسلم نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت وشھد شاھد (الخ) حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن جریر نے عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ١٠ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ بِہٖ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان سے کہیے کہ کیا تم نے سوچا بھی ہے کہ اگر یہ (قرآن) واقعتا اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کردیا (تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا) ؟ “- تم لوگ مجھے الزام دیتے ہو کہ میں نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے ‘ لیکن جب تمہیں چیلنج دیا گیا کہ اس جیسی کتاب تم بھی بنا کر دکھائو بلکہ ایک سورت ہی بنا لائو تو تم اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے ‘ اس لیے دل سے تم بھی مانتے ہو کہ یہ کتاب انسانی تصنیف نہیں ہے۔ بہر حال اگر تم اسے اللہ کا کلام نہیں مانتے تو یہ بات اچھی طرح سے سوچ لو کہ اگر واقعتا یہ اللہ ہی کا کلام ہوا تو تمہارے اس انکار کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟- وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی مِثْلِہٖ ” اور گواہی دے چکا ہے ایک گواہ بنی اسرائیل میں سے ایک ایسی ہی کتاب کی۔ “- اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مابین اختلاف ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے عام اہل ِکتاب مؤ منین مراد ہیں ‘ جبکہ کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے۔ بظاہر یہ دوسری رائے زیادہ معتبر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ عہد نامہ قدیم ‘ کتاب استثناء کے اٹھارہویں باب کی آیات ١٨ ‘ ١٩ میں جو پیشین گوئی درج ہے اس میں یہ الفاظ ہیں :ـ ” اے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ میں ان کے بھائیوں میں سے تیرے مثل ایک پیغمبر اٹھائوں گا اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا “۔ ان الفاظ کے مطابق تو مثلہٖ کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی صاحب ِشریعت رسول ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قرآن کی شکل میں آخری اور کامل شریعت عطا کی گئی ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صاحب کتاب رسول تو ہیں لیکن صاحب شریعت نہیں ہیں۔ سورة الزخرف کی آیت ٦٣ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول ہم پڑھ چکے ہیں : قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں۔ سورة الزخرف کی اس آیت کے ضمن میں یہ وضاحت بھی گزر چکی ہے کہ انجیل میں احکام اور شریعت نہیں صرف حکمت ہے ‘ جبکہ تورات اور قرآن قانون اور شریعت کی حامل کتابیں ہیں۔- فَاٰمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ ” پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم استکبار کر رہے ہو “- یہود میں ایسے علماء بھی تھے (اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی) جو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ جیسے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔ - اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ” بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :13 یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے ایک دوسرے طریقہ سے سورہ حٰم السجدہ ، آیت 52 میں گزر چکا ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، تفسیر سورہ مذکور ، حاشیہ 69 ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :14 مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ۔ یہ واقعہ چونکہ مدینہ میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( بخاری ، مسلم ، نسائی ، ابن جریر ) ، اور اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ضحاک ، ابن سیرین ، حسن بصری ، ابن زید ، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے ۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورۃ مکی ہے ۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے ، اس سیاق و سباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آجانا قابل تصور نہیں ہے ۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے ، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے ، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی ، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔ بظاہر یہی دوسرا قول زیادہ صحیح اور معقول محسوس ہوتا ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ اس گواہ سے مراد کون ہے ۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو اختیار کیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام ہیں لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے ۔ اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہو تی ہے جو مفسر نیسا پوری اور ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کو ئی شخص نہیں ، بلکہ بنی اسرائیل کا عام آدمی ہے ۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید جو تعلیم تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کو ئی انوکھی چیز بھی نہیں ہے دنیا میں پہلی مرتبہ تمھارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو اور تم یہ عذر کر سکو ہم یہ نرالی باتیں کیسے مان لیں جو نوع انسانی کے سامنے کبھی آئی ہی نہ تھیں ۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے توراۃ اور دوسری کتب آسمانی کی شکل میں آ چکی ہیں ایک عام آ دمی ان کو مان چکا ہے ، اور یہ بھی تسلیم کر چکا ہے کہ اللہ کی وحی ان تعلیمات کے نزول کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ وحی اور یہ تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں ۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ تمہارا غرور و تکبر اور بے بنیاد و گھمنڈ ایمان لانے میں مانع ہے ۔
5: اِس جملے کو اگلے جملے کے ساتھ ملاکر پڑھنا چاہئے، اور مطلب یہ ہے کہ نہ میں کوئی انوکھا پیغمبر ہوں کہ مجھ سے پہلے دوسرے پیغمبر نہ آئے ہوں، اور نہ میں کوئی ایسا غیر معمولی دعوی کررہا ہوں کہ میں عالم الغیب ہوں، کیونکہ مجھے جو کچھ علم ملا ہے، وہ وحی کے ذریعے ملا ہے، یہاں تک کہ وحی کے بغیر مجھے ذاتی طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ دُنیا اور آخرت میں میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ یہ پیشین گوئی کی جارہی ہے کہ بنو اسرائیل میں سے کچھ یہودی اور عیسائی لوگ قرآنِ کریم پر ایمان لانے والے ہیں، جیسا کہ بعد میں یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اﷲ عنہ اور عیسائیوں میں سے حضرت عدی بن حاتم اور نجاشی رضی اﷲ عنہما ایمان لائے، اور انہوں نے گواہی دی کہ اِس جیسی کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، اور قرآنِ کریم بنیادی عقائد میں اسی کتاب جیسا ہے۔ مکہ مکرَّمہ کے بت پرستوں سے کہا جارہا ہے کہ جو لوگ پہلے سے آسمانی کتاب رکھتے تھے، وہ تو اِیمان لانے میں تم سے آگے نکل جائیں ،اور تم اپنے گھمنڈ میں بیٹھے رہو تو یہ کتنے ظلم کی بات ہوگی۔