9۔ 1 یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آ چکے ہیں۔ 9۔ 2 یعنی دنیا میں، میں مکہ میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے گا، مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا ؟ تم جلدی ہی سزا سے دو چار ہونگیں یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی ؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمن جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا تو فرمایا واللہ ما ادری وانا رسول اللہ ما یفعل بی ولا بکم۔ صحیح بخاری۔ اللہ کی قسم مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔
[١٢] یعنی رسالت کا سلسلہ کچھ مجھ سے ہی شروع نہیں ہوا مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر اور سینکڑوں رسول گزر چکے ہیں۔ سب کی تعلیم یہی تھی جو میں تمہیں بتارہا ہوں۔ میں کوئی نئی اور نرالی بات تم سے نہیں کہتا۔ جسے تم صریح جادو یا بناوٹی باتیں کہہ رہے ہو۔ - [١٣] کسی کے انجام کی یقینی خبرصرف اللہ کو ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اور تمہارے خیال کے مطابق اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اس کا نتیجہ میرے حق میں کیا نکلنے والا ہے اور تمہارے حق میں کیا ہوسکتا ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم نہ ہی کوئی بات میرے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں تو صرف یہ بات ہے کہ جو کچھ میری طرف وحی کی جارہی ہے اس کی پیروی کرتا جاؤں اور جو پیغام مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے وہ تمہیں پہنچا دوں اور تمہیں تمہارے انجام سے مطلع کر دوں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ قیامت کے دن مجھ سے یا تم سے کیا سلوک ہونے والا ہے۔ یہ میں نہیں جانتا میں صرف تمہیں یہ بتائے دیتا ہوں کہ برے اعمال کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ اور اس پہلو کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔- خارجہ بن زید انصاری کہتے ہیں ام علاء انصار کی ایک عورت تھی جس نے رسول اللہ سے بیعت کی تھی اس نے کہا کہ جب انصار نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون (رض) کا قرعہ ہمارے نام نکلا۔ وہ ہمارے پاس رہنے لگے۔ وہ بیمار ہوگئے ہم نے ان کی تیمار داری کی۔ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے انہیں کفن پہنایا تو رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اس وقت میں نے کہا : ابوالسائب یہ عثمان بن مظعون (رض) کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں عزت دی رسول اللہ نے مجھ سے پوچھا : تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے معلوم نہیں تب آپ نے فرمایا۔ عثمان بن مظعون (رض) کی موت واقع ہوگئی اور مجھے اس کی بھلائی کی امید ہے۔ (لیکن یقین کے ساتھ میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا) اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ اس سے کیا سلوک کیا جانے والا ہے ام علاء کہتی ہیں : اللہ کی قسم اس کے بعد میں نے کبھی کسی کی ایسی تعریف نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات)
(١ ) قل ما کنت بداعً من الرسل :” یدع یبدع بدعا “ (ف) ” الشیء “ کسی چیز کو ایجاد کرنا، کسی پہلی مثال کے بغیر بنانا۔ سورة بقرہ (١١٧) اور سورة انعام (١٠١) میں ” بدیح السموت والارض “ اسی سے ہے۔ ” بدع یبدع یدعاً و بداعۃ وبدوعۃ “ (ک) نیا ہونا، جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔” بدعا “ صفت مشبہ فعل لازم سے بمعنی اسم فاعل ہے۔ جیسے ” خف “ بمعنی خفیف ہے، یا فعل متعدی سے بمعنی اسم مفعول ہے، جیسے ” حب “ بمعنی محبوب ہے۔ ” بدعا من الرسل “ نیا یا انوکھا رسول۔ کفار ایمان نہ لانے کے لئے جو بہانے اور اعتراض کرتے تھے ان میں سے چند کا ذکر اور ان کا جواب پچھلی وہ آیات میں گزرا۔ اس آیت میں ان کے بہت سے اعتراضات کا صرف جواب ذکر کیا گیا ہے، اعتراضات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ وہ خود بخود جواب سے سمجھ میں آرہے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کا ذکر صراحت کے ساتھ بھی موجود ہے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ ہمارے جیسا ایک بشر رسول کیسے بن گیا، جو ہماری طرح کھاتا پیتا، باز اورں میں چلتا پھرتا اور بیوی بچے رکھتا ہے۔ ایک اعتراض یہ کرتے کہ توحید کی جو تعلیم یہ نبی پیش کرتا ہے ہم نے اپنے آباؤ اجداد میں نہیں سنی۔ (دیکھیے ص : ٤ تا ٨۔ فرقان : ٧) ایک یہ کہ اگر یہ رسول ہے تو ہمارے مطالبے کے مطابق معجزے کیوں پیش نہیں کرتا، مثلاً پہاڑ ہٹا دے، دریا بہا دے، سونے کا مکان بنا لے، آسمان پر چڑھ جائے اور وہاں سے کتاب لا کر دکھائے وغیرہ۔ (دیکھیے نبی اسرائیل : ٩٠ تا ٩٣) اور ایک یہ کہ غیب کی خبریں مہارے مطالبے کے مطابق کیوں نہیں بتاتا، کم از کم یہ ہی بتادے کہ قیامت کب ہوگی۔ دیکھیے اعراف : ١٨٧) اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں یہ کہعنے کا حکم دیا کہ میں کوئی پہلا رسول نہیں جو بشر ہو، مجھ سے پہلے تمام رسول بشر ہی تھے، وہ کھاتے پیتے، باز اورں میں چلتے پھرتے اور بیوی بچوں والے تھے۔ ان پر انسانی عوارض آتے تھے، سب کی تعلیم توحید تھی، وہ خدائی اختیارات نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے معجزے پیش کرسکتے تھے۔ پھر اگر وہ سب جن میں تمہارے جد امجد ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء شامل ہیں، رسول اور نبی ہوسکتے ہیں اور تم انھیں نبی مانتے ہو تو میرا رسول ہونا کون سی انوکھی بات ہے ؟- (٢) وما ادری مایفعل فی ولابکم : یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ یہ ہمیں ہمارے مطالبے کے مطابق غیب کی خبریں کیوں نہیں دیتا۔ فرمایا ان سے کہہ دو کہ میں خود کچھ بھی نہیں جانتا، نہ یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، تو میں تمہیں اپنے پاس سے تمہاری طلب کردہ باتیں کیسے بتاسکتا ہوں ؟ “ ” مایفعل “ فعل مجہول اس لئے لایا گیا تاکہ فاعل عام رہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرے گا اور لوگ کیا کریں گے۔ پھر یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ کس وقت کیا جائے گا، تاکہ عام رہے کہ ہمارے ساتھ دنیا میں کیا کیا جائے گا اور آخرت میں کیا کیا جائے گا۔- یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا جانتے تھے کہ دنیا اور آخرت میں آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آپ پر ایمان لانے والوں یا نہ لانے والوں کے ساتھ کیا کیا جائے گا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ آپ کے پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے اور صحابہ کرام کے تمام گناہ معاف کر کے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اور کفار وم نافقین کو جہنم کا عذاب دیا جائے گا۔ (دیکھیے فتح : ١ تا ٦) دنیا میں بھی آپ کو اور ایمان والوں کو عزت و غلبہ اور کفار کو لذت و رسوائی ملے گی اور آپ کا دین تمام دینوں پر غالب آئے گا۔ دیکھیے سورة مجادلہ (٢١) ، فتح (٢٨) صف (٨، ٩) اور دوسری متعدد آیات ۔ پھر یہ کہنے کا حکم کیوں دیا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ اہل علم نے اس سوال کے مختلف جواب دیئے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اجمالی طور پر تو یہ جانتے تھے مگر تفصیلی طور پر آپ کو معلوم نہ تھا کہ آپ کے ساتھ یا آپ کے مخاطبین کے ساتھ دنیا یا آخرت میں کیا ہوگا۔ ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ پہلے آپ کو یہ معلوم نہ تھا بعد میں معلوم ہوگیا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب اس آیت کے جملہ ” وما ادری مایفعل، بی ولابکم “ میں اور اگلے جملے ” ان اتبع الا مایوحی الی “ میں موجود ہے۔- (٣) ان اتبع الا مایوحی الی : یعنی میں خود آئندہ کی کوئی بات نہیں جانتا، نہ یہ کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ یعنی میں صرف اتنا بتاسکتا ہوں جو تجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اور واقعی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آئندہ ہونے والی جو بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائی وہ آپ جان گئے اور جو نہیں بتائی وہ آپ کو معلوم نہیں ہوئی۔ اس کی دلیل سینکڑوں واقعات ہیں، مثلاً واقعہ افک ، بئر معونہ کے شہداء اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چند کفار کا نام لے کر ایک ماہ تک قنوت میں ان پر لعنت کرنا، مگر اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ یہ آپ کے اختیار میں نہیں اور پھر ان سب کا مسلمان ہوجانا وغیرہ۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة نمل کی آیت (٦٥) (قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ) کی تفسیر۔ سورة اعراف میں فرمایا :(قل لا املک لنفسی نفعاً ولاضراً الا ما شآء اللہ ولوکنت اغلم الغیب لاستکثرت من الخیر، وما مسنی السوٓء ان انا الا نذیر و بشیر لقوم یومنون) (الاعراف : ١٨٨) ” کہہ دے میں اپنی جان کے لئے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ “ اسی طرح آخرت کے متعلق جو بات بتائی وہ آپ جان گئے جو نہیں بتائی وہ نہیں جانتے تھے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے کہ میں عرش کے نیچے سجدے میں گر جاؤں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے وہ تعریفیں الہام کرے گا جو اب مجھے یاد نہیں۔ (دیکھیے بخاری، التوحید، باب کلام الرب، عزوجل یوم القیامۃ مع الانبیاء و غیر ھم :801)- الغرض، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوپر ہلے تمام انبیاء عہلیہ السلام کو آئندہ کی کسی بات کا نہ اجمالی علم تھا اور نہ تفصیلی، صرف ان باتوں کا علم تھا جو اللہ تعالیٰ نے انھیں بتائیں، خواہ اجمالاً بتائیں یا تفصیلاً ۔ یوسف اور یعقوب (علیہ السلام) کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے۔ دیکھیے سورة یوسف کی آیت (٩٤) کی تفسیر۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کے تمام واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر کو آنے والے واقعات کا صرف اتنا علم ہوتا ہے جتنا اسے بتادیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کے آگے میں پھینکے جانے، بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم ہجرت میں بیوی کی عزت خطرے میں پڑنے، بیوی بچے کو بےآب وگیاہ وادی میں چھوڑنے، غرض کسی بھی امحتان میں سرخرو ہونے کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔- خلاصہ یہ کہ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اے نبی کہہ دے نہ میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، مجھے تو صرف اس بات کا پتا چلتا ہے اور میں اسی کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے، اس کے سوا میں اپنے یا تمہارے متعلق آئندہ کی کوئی بات نہیں جانتا۔ اس لئے مجھ سے قیامت کے وقت یا آئندہ کی دوسری کسی بات کے متعلق بتانے کا مطالبہ مت کرو، کیونکہ وہ یہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔- (٤) وما انا الا نذیر مبین : یعنی میرا کام یہ نہیں کہ میں تمہیں بتاؤں کہ قیامت کب آئے گی، یا اپنے پاس سے تمہیں آئندہ کی خبریں بتاؤں۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ میں اللہ کا عذاب آنے سے پہلے تمہیں اس سے واضح طور پر ڈرا دوں۔- (٥) مفسر علی بن احمد مہائمی نے اپنی تفسیر ” تبصیر الرحمان “ میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے نہایت عمدہ الفاظ میں بحث کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :” قل ما کنت بدعا من الرسل) (اتیکم بالمواخذہ الاخروبۃ (٣) من ابن لی تعیین و فتھا مع انی (ما ادری ما یفعل بی ولابکم) فیما لم یوح الی والوحی ببعض الامور لایستلزم العلم بالبافی ولم بکن لی ان اضم الی الوحی کذباً من عندی (ان اتبع) فی تقریر الامور لایسلزم العلیم بالبافی ولم یکن لی ان اضم الی الوحی کذباً من عندی (ان اثبع) فی تقریر الامور الغیثۃ (الا ما یوحی الی و ) مع ذلک لا یفوض الی شیء مما یو، ی الی من تعذیب من لا یومن بی بل (ما انا الا نذیر) (عنہ (مبین) لہ بالدلائل القطعیۃ “”(کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں) کہ تم پر آخرت کا عذاب لے آؤں (اور) میں اس کے وقت کی تعیین کیسے کرسکتا ہوں جب کہ (میں جانتا ہی نہیں کہ میرے ساتھ کیا جئاے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا جائے گا) ان معاملات میں جن کی میری طرف وحی نہیں کی گئی اور بعض معاملات کے وحی کئے جانے سے لازم نہیں آتا کہ مجھے تمام معاملات کا بھی علم ہوگیا اور یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ باقی معاملات میں وحی کے ساتھ اپنے پاس سے جھوٹ ملا دوں۔ (میں پیروی نہیں کرتا) غیبی معاملات بیان کرنے میں (مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور) اس کے ساتھ یہ کہ مجھے جو وحی کی جاتی ہے اس میں مجھ پر ایمان نہ لانے والوں کو عذاب دینے میں کسی چیز کا معاملہ میرے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ (میں نہیں ہوں مگر ڈرانے ولا) اس کی طرف سے (بالکل واضح) جو اپنے ڈرانے کو قطعی دلائل کے ساتھ واضح کر کے بیان کرنے والا ہوں۔ “
معارف ومسائل - (آیت) وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ جملہ ان اتبع بمعنے استثناء کے ہے یعنی میں نہیں جانتا بجز اس کے جو مجھ پر وحی کی جائے۔ اسی بناء پر امام تفسیر ضحاک سے اس آیت کی تفسیر وہ منقول ہے جو خلاصہ تفسیر مذکور میں اختیار کی گئی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ امور غیبیہ کا علم مجھے صرف وحی کے ذریعہ ہوسکتا ہے جس معاملے کے متعلق وحی سے مجھے علم نہ ہو خواہ وہ میری ذات سے متعلق ہو یا امت کے مومن و کافر لوگوں سے اور خواہ وہ معاملہ دنیا کا ہو یا آخرت کا اس کی مجھے کچھ خبر نہیں۔ امور غیبیہ کے متعلق میں جو کچھ کہتا ہوں وہ سب وحی الٰہی سے کہتا ہوں چناچہ قرآن کریم میں خود مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیشمار علوم امور غیبیہ کے متعلق عطا فرماتے ہیں (آیت) تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک کا یہی مطلب ہے۔ امور آخرت، دوزخ، جنت، حساب کتاب، سزا و جزاء سے متعلق تو تفصیلات خود قرآن کریم میں بیشمار مذکور ہیں اور دنیا میں پیش آنے والے واقعات آئندہ کی بہت سی تفصیلات احادیث صحیحہ متواترہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں جس سے ثابت ہوا کہ آیت مذکورہ کا حاصل صرف اتنا ہے کہہ میں امور غیبیہ کے علم محیط میں خدا تعالیٰ کی طرح نہیں اور ان کے علم میں خود مختار نہیں بلکہ مجھے بواسطہ وحی خداوندی جو کچھ بتلا دیا جاتا ہے وہ میں ذکر کردیتا ہوں۔- تفسیر روح المعانی میں اس قول کو نقل کر کے لکھا ہے کہ میرا اعتقاد یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے اس وقت تک رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور آخرت اور دنیا میں پیش آنے والے اہم معاملات سے آپ کو بذریع وحی باخبر نہیں کردیا گیا۔ رہا اشخاص و افراد کے جزوی شخصی حالات و معاملات کا علم کہ زید کل کو کیا کام کرے گا اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ عمر بکر اپنے گھروں میں کیا کیا کام کر رہے ہیں یا کرے گا ان امور غیبیہ کا علم نہ کوئی کمال ہے نہ ان کے نہ ہونے سے کمال نبوت میں کوئی فرق آتا ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کے متعلق تقاضائے ادب :- جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کے متعلق تقاضائے ادب یہ ہے کہ یوں نہ کہا جائے کہ آپ غیب نہیں جانتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امور غیب کا بہت بڑا علم دیا تھا جو انبیاء میں سے کسی دوسرے کو نہیں ملا۔ اور بعض حضرات مفسرین نے جو یہ فرمایا کہ اس آیت میں نفی علم صرف امور دنیویہ سے متعلق ہے آخرت کے متعلق علم غیب کی نفی اس میں شامل نہیں (کما ذکرہ القرطبی) انہوں نے غالباً جملہ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ کو بمعنے استنثاء قرار نہیں دیا، اس لئے نفی علم غیب کو امور دنیا کے ساتھ مخصوص فرمایا کیونکہ آخرت کے متعلق تو کھلے طور پر آپ نے جو بتلا دیا کہ کافر دوزخ میں اور مومن جنت میں جائے گا۔
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ٠ ۭ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ٩- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- بدع - الإِبْدَاع : إنشاء صنعة بلا احتذاء واقتداء، ومنه قيل : ركيّة بَدِيع أي : جدیدة الحفروإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فهو إيجاد الشیء بغیر آلة ولا مادّة ولا زمان ولا مکان، ولیس ذلک إلا لله والبدیع يقال للمُبْدِعِ نحو قوله تعالی: بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة 117] ، ويقال للمبدع نحو : ركيّة بدیع، وکذلک البِدْعُ يقال لهما جمیعا بمعنی الفاعل والمفعول، وقوله تعالی: قُلْ ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف 9] قيل : معناه : مبدعا لم يتقدّمني رسول، وقیل : مبدعا فيما أقوله . والبِدْعةُ في المذهب : إيراد قول لم يستنّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشریعة وأماثلها المتقدمة وأصولها المتقنة، وروي : «كلّ محدثة بدعة، وكلّ بدعة ضلالة، وكلّ ضلالة في النّار» والإِبْدَاع بالرّجل : الانقطاع به لما ظهر من کلال راحلته وهزالها - ( ب د ع ) الا بداع ۔ کسی کی تقلید اوراقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا ۔ اسی سے کھودے ہو ہوئے کنویں کو وکیہ بدیع کہا جاتا ہے ۔ جب ابداع کا لفظ اللہ عزوجل کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بغیر آلہ بغیر مادہ اور بغیر زمان ومکان کے کسی شئے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔ اور البدیع بمعنی مبدع بھی آیا ہے جیسے فرمایا : بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة 117] وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ( 2 ۔ 117 ) اور بمعنی مبدع ( اسم مفعول ) بھی آجاتا ہے جیسے زکیہ بدیع ( نیا کھودا ہوا کنواں ) اسی طرح بدعا کا لفظ بھی اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف 9] کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں ( 942 ) میں بدعا بمعنی مبدع بھی ہوسکتا ہے یعنی پیغمبر ایسا کہ مجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہ آیا ہو اور بمعنی مدع کے بھی یعنی میں کوئی نئی بات نہیں کہتا ۔ البدعہ مزہب میں نئی بات داخل کرنا جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کی اقتدا نہ کرے اور نہ ہی سلف صالحین اور اصول شریعت سے اس کا ثبوت ملتا ہو ایک روایت میں ہے 25 ) کل محدثہ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار کہ ہر نئی رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ۔ الابداع بالرجل سواری کے ماندہ اور دبلا ہونے کی وجہ سے رفقا د سے منقطع ہوجانا ؟- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں انسانوں میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ہوں مجھ سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ سختی و نرمی اور عافیت میں سے میرے ساتھ کس قسم کا معاملہ کیا جائے گا۔- اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت صحابہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ہم مکہ سے کب نکلیں گے اور کفار کی سختیوں سے کب نجات ملے گی اس وقت رسول اکرم نے ان سے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ مجھے اور تمہیں ہجرت کا حکم ہوگا یا نہیں میں تو صرف اسی پر عمل کرتا ہوں جس کا مجھے بذریعہ قرآن کریم حکم دیا جاتا ہے اور میں تو ایسی زبان میں جسے تم سمجھو ڈرانے والا ہوں۔
آیت ٩ قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ بھی) کہیے کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں ہوں “- بِدْعًا کے معنی نیا نویلا یا نرالاہونے کے ہیں۔ لفظ ” بدعت “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ بدعت سے اصطلاحاً وہ چیز مراد ہے جو اصل میں دین کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی وجہ سے دین میں رائج کردی گئی ہو۔ بہر حال یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ میرا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن کر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ بلکہ میں تو آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ بہت سے رسول (علیہ السلام) مجھ سے پہلے بھی دنیا میں آ چکے ہیں۔ سورة آلِ عمران میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے : وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آیت ١٤٤) ” اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ‘ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں “۔ سورة المائدۃ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آیت ٧٥) ” مسیح ( علیہ السلام) ابن مریم اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک رسول (علیہ السلام) تھے ‘ ان ( علیہ السلام) سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ “- وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ ” اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ “- اس سے آخرت کا معاملہ مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ آخرت کے بارے میں تو آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت واضح انداز میں بتادیا گیا تھا : وَلَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔ (الضحیٰ ) یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے آخرت یقینا دنیا سے بہت بہتر ہوگی۔ بلکہ آیت زیر مطالعہ کا اشارہ اس کش مکش کی طرف ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین مکہ کے درمیان مسلسل جاری تھی۔ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک امیدلے کر طائف تشریف لے گئے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے دسویں سال جب جناب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے قبیلے بنو ہاشم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اظہارِ براءت کردیا۔ اس کے بعد مکہ میں دنیوی اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی حلیف یا حمایتی نہ رہا۔ ان حالات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف تشریف لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال تھا کہ اہل طائف میں سے اگر کوئی بڑا سردار ایمان لے آیا تو میں اپنی دعوت کا مرکز وہاں منتقل کرلوں گا۔ لیکن اہل طائف کا رویہ اہل ِمکہ ّسے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا مکہ کے ماحول میں جاری کشیدگی کے حوالے سے یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اس چپقلش کے اندر آئندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کیا پیش آنے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔- اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ” میں تو بس اسی کی پیروی کر رہا ہوں جو میری طرف وحی کی جا رہی ہے ‘ اور میں نہیں ہوں مگر ایک کھلا خبردار کردینے والا۔ “
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :12 اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا تو مکے کے لوگ اس پر طرح طرح کی باتیں بنانے لگے ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو بال بچے رکھتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، کھاتا پیتا ہے ، اور ہم جیسے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جس میں یہ عام انسانوں سے مختلف ہو اور ہم یہ سمجھیں کہ خاص طور پر اس شخص کو خدا نے اپنا رسول بنایا ہے ۔ پھر وہ کہتے تھے کہ اگر اس شخص کو خدا نے رسول بنایا ہوتا تو وہ اس کی اردلی میں کوئی فرشتہ بھیجتا جو اعلان کرتا کہ یہ خدا کا رسول ہے ، اور ہر اس شخص پر عذاب کا کوڑا برسا دیتا جو اس کی شان میں کوئی ذرا سی گستاخی کر بیٹھتا ۔ یہ آخر کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کسی کو اپنا رسول مقرر کرے اور پھر اسے یونہی مکے کی گلیوں میں پھرنے اور ہر طرح کی زیادتیاں سہنے کے لیے بے سہارا چھوڑ دے ۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی ہوتا کہ خدا اپنے رسول کے لیے ایک شاندار محل اور ایک لہلہاتا باغ ہی پیدا کر دیتا ۔ یہ تو نہ ہوتا کہ اس کے رسول کی بیوی کا مال جب ختم ہو جائے تو اسے فاقوں کی نوبت آجائے اور طائف جانے کے لیے اسے سواری تک میسر نہ ہو ۔ پھر وہ لوگ آپ سے طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اور غیب کی باتیں آپ سے پوچھتے تھے ۔ ان کے خیال میں کسی شخص کا رسول خدا ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ فوق البشری طاقتوں کا مالک ہو ، اس کے ایک اشارے پر پہاڑ ٹل جائیں اور ریگ زار دیکھتے دیکھتے کشت زاروں میں تبدیل ہو جائیں ، اس کو تمام : ماکان و ما یکون کا علم ہو اور پردہ غیب میں چھپی ہوئی ہر چیز اس پر روشن ہو ۔ یہی باتیں ہیں جن کا جواب ان فقروں میں دیا گیا ہے ۔ ان میں سے ہر فقرے کے اندر معانی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔ فرمایا ، ان سے کہو ، میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں ۔ یعنی میرا رسول بنایا جانا دنیا کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے کہ تمہیں یہ سمجھنے میں پریشانی لاحق ہو کہ رسول کیسا ہوتا ہے اور کیسا نہیں ہوتا ۔ مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں ، اور میں ان سے مختلف نہیں ہوں ۔ آخر دنیا میں کب کوئی رسول ایسا آیا ہے جو بال بچے نہ رکھتا ہو ، یا کھاتا پیتا نہ ہو ، یا عام انسانوں کی سی زندگی بسر نہ کرتا ہو؟ کس رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ اترا ہے جو اس کی رسالت کا اعلان کرتا ہو اور اس کے آگے آگے ہاتھ میں کوڑا لیے پھرتا ہو؟ کس رسول کے لیے باغ اور محلات پیدا کیے گئے اور کس نے خدا کی طرف بلانے میں وہ سختیاں نہیں جھیلیں جو میں جھیل رہا ہوں؟ کون سا رسول ایسا گزرا ہے جو اپنے اختیار سے کوئی معجزہ دکھا سکتا ہو یا اپنے علم سے سب کچھ جانتا ہو؟ پھر یہ نرالے معیار میری ہی رسالت کو پرکھنے کے لیے تم کہاں سے لیے چلے آ رہے ہو ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کے جواب میں یہ بھی کہو میں نہیں جانتا کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا ، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے ۔ یعنی میں علم الغیب نہیں ہوں کہ ماضی ، حال ، مستقبل سب مجھ پر روشن ہوں اور دنیا کی ہر چیز کا مجھے علم ہو ۔ تمہارا مستقبل تو درکنار ، مجھے تو اپنا مستقبل بھی معلوم نہیں ہے ۔ جس چیز کا وحی کے ذریعہ سے مجھے علم دے دیا جاتا ہے بس اسی کو میں جانتا ہوں ۔ اس سے زائد کوئی علم رکھنے کا میں نے آخر کب دعویٰ کیا تھا ، اور کونسا رسول ایسے علم کا مالک کبھی دنیا میں گزرا ہے کہ تم میری رسالت کو جانچنے کے لیے میری غیب دانی کا امتحان لیتے پھرتے ہو ۔ رسول کا یہ کام کب سے ہو گیا کہ وہ کھوئی ہوئی چیزوں کے پتے بتائے ، یا یہ بتائے کہ حاملہ عورت لڑکا جنے گی یا لڑکی ، یا یہ بتائے کہ مریض اچھا ہو جائے گا یا مر جائے گا ۔ آخر میں فرمایا کہ ان سے کہہ دو میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں ۔ یعنی میں خدائی اختیارات کا مالک نہیں ہوں کہ وہ عجیب و غریب معجزے تمہیں دکھاؤں جن کے مطالبے تم مجھ سے آئے دن کرتے رہتے ہو ۔ مجھے جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے راہ راست پیش کروں اور جو لوگ اسے قبول نہ کریں انہیں برے انجام سے خبردار کر دوں ۔
4: اس جملے کو اگلے جملے کے ساتھ ملاکر پڑھنا چاہئیے، اور مطلب یہ ہے کہ نہ میں کوئی انوکھا پیغمبر ہوں کہ مجھ سے پہلے دوسرے پیغمبر نہ آئے ہوں، اور نہ میں کوئی ایسا غیر معمولی دعوی کررہا ہوں کہ میں عالم الغیب ہوں، کیونکہ مجھے جو کچھ علم ملا ہے، وہ وحی کے ذریعے ملا ہے، یہاں تک کہ وحی کے بغیر مجھے ذاتی طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ دنیا اور آخرت میں میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔