Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس حق سے مراد جو ان کے پاس آیا قرآن کریم ہے اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے پھر اس سے بھی انحراف کر کے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔ 8۔ 2 یعنی اگر تماری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے پھر تو یقینا میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرتا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بالْيَمِيْنِ 45؀ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ 46؀ڮ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِيْنَ 47؀) 69 ۔ الحاقہ :44) 8۔ 3 یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا ۔ 8۔ 4 وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب و مخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔ 8۔ 5 اس کے لیے جو توبہ کرلے ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کر کے اللہ کی مغفرت و رحمت کے مستحق بن جاؤ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] خود ساختہ کلام یا جادو ؟ یعنی اپنے سابقہ بیان کی خود ہی تردید کردیتے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔ اگر یہ قرآن جادو ہے تو آپ کا کلام نہیں اور آپ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے تو پھر وہ جادو نہیں ہوسکتا۔- [١٠] یعنی اگر میں نے خود ہی کلام تالیف کرکے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ تو یقیناً اللہ مجھے اس افتراء کی سزا دے گا۔ تم مجھے اس سے چھڑا تو نہیں لو گے۔ نہ ہی تم میں یہ قدرت ہے۔ البتہ جن کاموں میں تم لگے ہوئے ہو وہ ضرور اس قابل ہیں کہ اللہ تمہیں ان کاموں کی سزا دے اور وہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ بھی رہا ہے۔ لہذا تم اپنے کاموں اور ان کے انجام کی فکر کرو۔ - [١١] یہاں اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ہم سب کے اعمال دیکھ رہا ہے لیکن سزا نہیں دیتا، ورنہ اگر وہ بےرحم بادشاہوں کی طرح ہوتا تو کب سے لوگوں کا قصہ پاک ہوچکا ہوتا۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ ایسی سب باتوں کو برداشت کرکے درگزر کئے جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی تم اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ از راہ کرم تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ام یقولون افتربہ : یہ ایمان نہ لانے کا ایک اور بہانہ ہے۔ ” واؤ “ کے ساتھ عطف کے بجائے حرف قرآن خود تصنیف کیا ہے اور جھوٹ باندھتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ حالانکہ اس میں وہ اپنی ہی بات کی نفی کر رہے ہیں، کیونکہ اگر یہ جادو ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام نہیں اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہے تو جادو نہیں۔- (٢) قل ان افترینہ فلا تملکون لی من اللہ شیئاً :” ان افتریتہ “ کا جواب محذوف ہے جو ” فلاتملکون لی “ سے سمجھ میں آرہا ہے :” ای ان افتریتہ عاقبنی اللہ علی الا فتراء فلا تملکون لی من اللہ شیئاً “ یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر میں نے جھوٹ گھڑنے کا جرم کیا ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹ گھڑنے کی سزا دے گا، پھر تم اللہ تعالیٰ سے چھوڑانے کے لئے میرے کسی کام نہ آؤ گے۔ “ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولو تقول علینا بغض الا قاویل لا حدنا منہ بالیمین ، ثم لقطعنا بنہ الوتین فما منکم من احدعنہ حجزین) (الحاقہۃ :33 تا 38)” اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا ۔ تو یقیناً ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے ۔ پھر یقیناً ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ “- (٣) ھم اعلم بما تقیضون فیہ…: یعنی جب تم اس حد تک آگئے کہ اس کلام کو افترا اور انسانی کلام کہنے لگے جس کی چھٹوی سے چھوٹی سورت کی مثال لانے سے بھی تم قاصر رہے اور سب کے سامنے واضح ہوگیا کہ وہ انسان کا کلام نہیں اور نہ کوئی انسان ایسا کلام کرسکتا ہے تو اب تم سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں، میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں وہ ان باتوں کو خوب جانتا ہے جو تم بناتے رہتے ہو۔ کبھی اسے جادو کہتے ہو، کبھی کہانت، کبھی شعر اور کبھی خود تصنیف کر کے اللہ تعالیٰ پر باندھا ہوا طوفان۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ وہ ہم دونوں کی ہر بات سے واقف اور ہر موقع کا گواہ ہے۔- (٤) وھو الغفور الرحیم : اس جملے کی مناسبت اس مقام پر دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ تمہارا قرآن کو افترا اور نبی کو مفتری کہنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ غفور و رحیم نہ ہوتا، بلکہ کوئی بےرحم اور سخت گیر مالک ہوتا تو تمہیں ایک سانس کی مہلت بھی نہ ملتی۔ یہ اس کی مغفرت اور رحمت ہی ہے کہ ایسی گستاخیوں کے باوجود وہ تمہیں فوراً نہیں پکڑتا، بلکہ مہلت دیتا ہے کہ تم کسی وقت ہی پلٹ ائٓو۔ دوسری مناسبت یہ ترغیب ہے کہ اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت تمہارا معاف کر دے گا۔” الغفور الرحیم “ ضمیر ” ھو “ کی خبر ہے، جس پر الف لام آنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی غفور و رحیم بس وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں جو تمہارے گناہوں پر پردہ ڈال دے اور تم پر بےحد رحم کرنے والا ہو پھر اس سے بھاگ کر کہاں جاؤ گے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝ ٠ ۭ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُہٗ فَلَا تَمْلِكُوْنَ لِيْ مِنَ اللہِ شَيْـــــًٔا۝ ٠ ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَا تُفِيْضُوْنَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ كَفٰى بِہٖ شَہِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝ ٨- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- فيض - فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] ، ومنه : فَاضَ صدرُهُ بالسّرّ. أي : سال، ورجل فَيَّاضٌ ، أي : سخيّ ، ومنه استعیر : أَفَاضُوا في الحدیث : إذا خاضوا فيه .- قال : لَمَسَّكُمْ فِيما أَفَضْتُمْ فِيهِ [ النور 14] ، هُوَ أَعْلَمُ بِما تُفِيضُونَ فِيهِ- [ الأحقاف 8] ، إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ [يونس 61] ، وحدیث مُسْتَفِيضٌ: منتشر، والْفَيْضُ : الماء الکثير، يقال : إنه أعطاه غيضا من فيض «3» ، أي : قلیلا من کثير وقوله : فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة 198] ، وقوله : ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفاضَ النَّاسُ- [ البقرة 199] ، أي : دفعتم منها بکثرة تشبيها بِفَيْضِ الماء، وأَفَاضَ بالقداح : ضرب بها، وأَفَاضَ البعیر بجرّته رمی بها، ودرع مَفَاضَةٌ: أُفِيضَتْ علی لابسها کقولهم : درع مسنونة، من : سننت أي : صببت .- ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ اسی سے فاض صدرہ بالسر جس کے معنی بھید ظاہر کرنے کے ہیں اور سختی آدمی کو فیاض کہا جاتا ہے اور اسی سے افاضوا فی الحدیث کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی باتوں میں مشغول ہوجانے اور چرچا کر نیکے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ لَمَسَّكُمْ فِيما أَفَضْتُمْ فِيهِ [ النور 14] تو جس بات کا تم چر چا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر ۔۔۔۔۔ نازل ہوتا ۔ هُوَ أَعْلَمُ بِما تُفِيضُونَ فِيهِ [ الأحقاف 8] وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو ۔ إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ [يونس 61] جب اس میں مصروف ہوتے ہو ۔ اور حدیث مستفیض کے معنی منتشر یعنی عام پھیلی ہوئی بات کے ہیں اور فیض کے معنی کثیر پانی کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ۔ اعطا ہ غیضا من فیض یعنی اسے زیادہ مال میں سے تھوڑا سا دیا ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ : ۔ فَإِذا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفاتٍ [ البقرة 198] اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفاضَ النَّاسُ [ البقرة 199] پھو جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو ۔ میں افاضۃ کے معنی مجمع کثیر کے یکبارگی لوٹنے کے ہیں اور یہ فیضان الماء یعنی پانی کا زور سے بہ نکلنا ) کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے ۔ افاض بالقداح تیر گھمانا افاض البعئر بجر تہ اونٹ کا جسکا پھینکنا درع مفاعلۃ کشادہ زرہ گویا پہننے والے پرا سے د بہایا گیا ہے جس طرح کہ درع مسنونۃ کے معنی بھی وسیع زرہ کے ہیں جو کہ سننت بمنعی صببت سے مشتق ہے ۔- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر میں بقول تمہارے اس قرآن کو اپنی طرف سے بنا لیتا تو تم لوگ مجھے عذاب خداوندی سے ذرا بھی نہ بچا سکتے وہ خوب جانتا ہے جو تم قرآن کریم میں جھوٹی باتیں بنا رہے ہو۔- میرے اور تمہارے درمیان وہ اس دیز پر کافی گواہ ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور قرآن کریم اس کا کلام ہے وہ توبہ کرنے والے کی مغفرت کرنے والا ہے اور توبہ کی حالت میں مرنے والے پر بڑی رحمت کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ ” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ “- کیا ان کا خیال ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو خود تصنیف کیا ہے ؟ - قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَلَا تَمْلِکُوْنَ لِیْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ان سے کہیے کہ اگر میں نے اس کو گھڑ لیا ہے تو تم مجھے اللہ (کی پکڑ) سے ذرا بھی نہیں بچا سکتے۔ “- سورة الحاقۃ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ ۔ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ ۔ کہ اگر بالفرض محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی چیز گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑیں گے اور پھر ان کی رگ جاں کو کاٹ دیں گے۔ ظاہر ہے اس اسلوب میں جو غصہ ہے وہ ان لوگوں پر ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا الزام لگانے کی جسارت کرتے تھے ۔- ہُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ” وہ خوب جانتا ہے جن باتوں میں تم لگے ہوئے ہو۔ “- اللہ تعالیٰ تمہاری یہ گفتگو بھی سن رہا ہے اور وہ تمہارے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات سے بھی آگاہ ہے۔- کَفٰی بِہٖ شَہِیْدًابَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ” وہ کافی ہے بطور گواہ میرے اور تمہارے مابین ‘ اور وہ خوب بخشنے والا ‘ بہت رحم فرمانے والا ہے۔ “- اللہ تعالیٰ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :9 اس سوالیہ طرز بیان میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بے حیا ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن خود گھڑ لانے کا الزام رکھتے ہیں؟ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہو سکتا ، اور ان کا اسے سحر کہنا خود اس امر کا صریح اعتراف ہے کہ یہ غیر معمولی کلام ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :10 چونکہ ان کے الزام کا محض بے اصل اور سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لیے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔ پس یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کر کے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے ، جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو ، تو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے تم نہ آؤ گے ، لیکن اگر یہ خدا ہی کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے رد کر رہے ہو تو اللہ تم سے نمٹ لے گا ۔ حقیقت اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے ، اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ بالکل کافی ہے ۔ ساری دنیا اگر کسی کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازماً اسی کے حق میں ہو گا ۔ اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے ، مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو ، تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پائے گا ۔ لہٰذا الٹی سیدھی باتیں بنانے کے بجائے اپنے انجام کی فکر کرو ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :11 اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ فی الواقع یہ اللہ کا رحم اور اس کا درگزر ہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ زمین میں سانس لے رہے ہیں جنہیں خدا کے کلام کو افترا قرار دینے میں کوئی باک نہیں اور نہ کوئی بے رحم اور سخت گیر خدا اس کائنات کا مالک ہوتا تو ایسی جسارتیں کرنے والوں کو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لینا نصیب نہ ہوتا ۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ ہے کہ ظالمو ، اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آ جاؤ تو خدا کی رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے ، اور جو کچھ تم نے اب تک کیا ہے وہ معاف ہو سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی من گھڑت کلام منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں رسوا فرمادیتے ہیں، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہنے کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ اگر میں نے یہ کلام (معاذاللہ) خود گھڑا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں میری پکڑ کرلے گا اور مجھے کوئی بچا نہیں سکے گا۔