Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

والدین سے بہترین سلوک کرو اس سے پہلے چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کے اخلاص کا اور اس پر استقامت کرنے کا حکم ہوا تھا اس لئے یہاں ماں باپ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم ہو رہا ہے ۔ اسی مضمون کی اور بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) یعنی تیرا رب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ۔ اور آیت میں ہے آیت ( ان اشکر لی والوالدیک الی المصیر ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو حکم کیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ ۔ ابو داؤد طیالسی میں حدیث کہ حضرت سعد کی والدہ نے آپ سے کہا کہ کیا ماں باپ کی اطاعت کا حکم اللہ نہیں ؟ سن میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تو اللہ کے ساتھ کفر نہ کر حضرت سعد کے انکار پر اس نے یہی کیا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ لکڑی سے اس کا منہ کھول کر جبراً پانی وغیرہ چھوا دیتے اس پر یہ آیت اتری یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ماں نے حالت حمل میں کیسی کچھ تکلیفیں برداشت کی ہیں ؟ اسی طرح بچہ ہونے کے وقت کیسی کیسی مصیبتوں کا وہ شکار بنی ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس آیت سے اور اس کے ساتھ سورہ لقمان کی آیت ( وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31- لقمان:14 ) اور اللہ عزوجل کا فرمان آیت ( وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ٢٣٣؁ ) 2- البقرة:233 ) یعنی مائیں اپنے بچوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں ان کے لئے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ملا کر استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔ یہ استدلال بہت قوی اور بالکل صحیح ہے ۔ حضرت عثمان اور صحابہ کرام کی جماعت نے بھی اس کی تائید کی ہے حضرت معمر بن عبداللہ جہنی فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ تولد ہوا اس کے خاوند نے حضرت عثمان سے ذکر کیا آپ نے اس عورت کے پاس آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو ان کی بہن نے گریہ و زاری شروع کر دی اس بیوی صاحبہ نے اپنی بہن کو تسکین دی اور فرمایا کیوں روتی ہو اللہ کی قسم اس کی مخلوق میں سے کسی سے میں نہیں ملی میں نے کبھی کوئی برا فعل نہیں کیا تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے ۔ جب حضرت عثمان کے پاس یہ آئیں تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا ۔ جب حضرت علی کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفتہ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچہ ہوا ہے جو ناممکن ہے ۔ یہ سن کر علی مرتضیٰ نے فرمایا کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟ فرمایا ہاں پڑھا ہے فرمایا کیا یہ آیت نہیں پڑھی ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15؀ ) 46- الأحقاف:15 ) اور ساتھ ہی یہ آیت بھی ( حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ٢٣٣؁ ) 2- البقرة:233 ) پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں کے مل کر تیس مہینے اور اس میں سے جب دودھ پلائی کی کل مدت دوسال کے چوبیس وضع کر دئے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہیں ؟ حضرت عثمان نے فرمایا واللہ یہ بات بہت ٹھیک ہے افسوس میرا خیال ہے میں اس طرف نہیں گیا جاؤ اس عورت کو لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال پر پایا کہ اسے فراغت ہو چکی تھی ۔ حضرت معمر فرماتے ہیں واللہ ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے بھی اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا اللہ کی قسم اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ( ابن ابی حاتم ) یہ روایت دوسری سند سے آیت ( فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀ ) 43- الزخرف:81 ) کی تفسیر میں ہم نے وارد کی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب کسی عورت کو نو مہینے میں بچہ ہو تو اس کی دودھ پلائی کی مدت اکیس ماہ کافی ہیں اور جب سات مہینے میں ہو تو مدت رضاعت تئیس ماہ اور جب چھ ماہ میں بچہ ہو جائے تو مدت رضاعت دو سال کامل اس لئے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے ۔ جب وہ اپنی پوری قوت کے زمانے کو پہنچا یعنی قوی ہو گیا جوانی کی عمر میں پہنچ گیا مردوں میں جو حالت ہوتی ہے عمومًا پھر باقی عمر وہی حالت رہتی ہے ۔ حضرت مسروق سے پوچھا گیا کہ انسان اب اپنے گناہوں پر پکڑا جاتا ہے ؟ تو فرمایا جب تو چالیس سال کا ہو جائے تو اپنے بچاؤ مہیا کر لے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے ۔ اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے مسند احمد میں بھی ہے ۔ بنو امیہ کے دمشقی گورنر حجاج بن عبداللہ حلیمی فرماتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں تو میں نے نافرمانیوں اور گناہوں کو لوگوں کی شرم و حیا سے چھوڑا تھا اس کے بعد گناہوں کے چھوڑنے کا باعث خود ذات اللہ سے حیا تھی ۔ عرب شاعر کہتا ہے بچپنے میں ناسمجھی کی حالت میں تو جو کچھ ہو گیا ہو گیا لیکن جس وقت بڑھاپے نے منہ دکھایا تو سر کی سفیدی نے خود ہی برائیوں سے کہہ دیا کہ اب تم کوچ کر جاؤ ۔ پھر اس کی دعا کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا میرے پرورودگار میرے دل میں ڈال کہ تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہو جائے اور میری اولاد میں میرے لئے اصلاح کر دے یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرنبرداروں میں ہوں ۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیے ابو داؤد میں ہے کہ صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم التحیات میں پڑھنے کے لئے اس دعا کی تعلیم کیا کرتے تھے دعا ( اللھم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا و اھدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات الی النور وجنبنا الفواحش ما ظھر منھا وما بطن وبارک لنا فی اسماعنا اوبصارنا وقلوبنا وازواجنا وذریاتنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابلیھا واتمھا علینا ) یعنی اے اللہ ہمارے دلوں میں الفت ڈال اور ہمارے آپس میں اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دے اور ہمیں ہر برائی سے بچا لے خواہ وہ ظاہر ہو خواہ چھپی ہوئی ہو اور ہمیں ہمارے کانوں میں اور آنکھوں میں اور دلوں میں اور بیوی بچوں میں برکت دے اور ہم پر رجوع فرما یقینا تو رجوع فرمانے والا مہربان ہے اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گذار اور ان کے باعث اپنا ثنا خواں اور نعمتوں کا اقراری بنا اور اپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما ۔ پھر فرماتا ہے یہ جن کا بیان گذرا جو اللہ کی طرف توبہ کرنے والے اس کی جانب میں جھکنے والے اور جو نیکیاں چھوٹ جائیں انہیں کثرت استغفار سے پالینے والے ہی وہ ہیں جن کی اکثر لغزشیں ہم معاف فرما دیتے ہیں اور ان کے تھوڑے نیک اعمال کے بدلے ہم انہیں جنتی بنا دیتے ہیں ان کا یہی حکم ہے جیسے کہ وعدہ کیا اور فرمایا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بروایت روح الامین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں انسان کی نیکیاں اور بدیاں لائی جائیں گی ۔ اور ایک کو ایک کے بدلے میں کیا جائے گا پس اگر ایک نیکی بھی بچ رہی تو اللہ تعالیٰ اسی کے عوض اسے جنت میں پہنچا دے گا ۔ راوی حدیث نے اپنے استاد سے پوچھا اگر تمام نیکیاں ہی برائیوں کے بدلے میں چلی جائیں تو؟ آپ نے فرمایا ان کی برائیوں سے اللہ رب العزت تجاوز فرما لیتا ہے دوسری سند میں یہ بفرمان اللہ عزوجل مروی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند بہت پختہ ہے حضرت یوسف بن سعد فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی کے پاس تھا اور اس وقت حضرت عمار ، حضرت صعیصعہ ، حضرت اشتر ، حضرت محمد بن ابو بکر بھی تھے ۔ بعض لوگوں نے حضرت عثمان کا ذکر نکالا اور کچھ گستاخی کی ۔ حضرت علی اس وقت تخت پر بیٹھے ہوئے تھے ہاتھ میں چھڑی تھی ۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ آپ کے سامنے تو آپ کی اس بحث کا صحیح محاکمہ کرنے والے موجود ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے حضرت علی سے سوال کیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا حضرت عثمان ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتا ہے آیت ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ 16؀ ) 46- الأحقاف:16 ) ، قسم اللہ کی یہ لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے حضرت عثمان ہیں اور ان کے ساتھی تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ راوی یوسف کہتے ہیں میں نے محمد بن حاطب سے پوچھا سچ کہو تمہیں اللہ کی قسم تم نے خود حضرت علی کی زبانی یہ سنا ہے ؟ فرمایا ہاں قسم اللہ کی میں نے خود حضرت علی سے یہ سنا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 اس مشقت و تکلیف کا ذکر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لیے ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں اس حکم احسان میں باپ سے مقدم ہے کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی کی تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے باپ کی اس میں شرکت نہیں اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے ایک صحابی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری ماں اس نے پھر یہی پوچھا آپ نے یہی جواب دیا تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیاچھوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تمہارا باپ۔ صحیح مسلم۔ 15۔ 2 فِصَا ل، ُ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ حلال ہی ہوگا، حرام نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (24) مہینے بتلائی ہے، اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔ 15۔ 3 کمال قدرت (اَشْدُّہُ ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے 18 سال سے تعبیر کیا ہے، حتٰی کہ پھر بڑھتے بھڑتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے اسی لیے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ 15۔ 4 اَوْزِغنِیْ بمعنی اَلْھِمْنِیْ ہے، مجھے توفیق دے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی ربی اَوْزغْنِیْ سے مِنَ الْمُسْلِمیْنَ تک۔ کو پہنچ گیا، یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اس لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] والدین سے بہتر سلوک کے سلسلہ میں سورة ئبنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔- [٢٠] والدہ حسن سلوک کی والد سے زیادہ حقدار ہے :۔ اس آیت میں پہلے ایک دفعہ ماں اور باپ دونوں سے بہتر سلوک کا حکم دیا۔ پھر تین بار صرف ماں کی خصوصی خدمات کا ذکر فرمایا۔ اور اس آیت کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو سیدنا ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے پوچھا : میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے۔ آپ نے فرمایا : تیری ماں، اس نے دوبارہ پوچھا، پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں تیسری بار آپ نے یہی جواب دیا۔ پھر چوتھی بار آپ نے جواب دیا تیرا باپ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)- [٢١] رضاعت کی مدت شمار اور اس کے نتائج :۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ البتہ اگر والدین کسی ضرورت کے تحت اس مدت میں کمی کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سورة لقمان کی آیت نمبر ١٣ میں فرمایا کہ ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے۔ اور اس مقام پر فرمایا کہ حمل اور رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے۔ ان سب آیات کو سامنے رکھنے سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے۔- (١) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ زیادتی نہیں۔ لہذا اگر کسی نے دو سال سے زیادہ عمر میں کسی عورت کا دودھ پی لیا ہو تو اس پر احکام رضاعت کا اطلاق نہ ہوگا یعنی وہ احکام جن کا نکاح سے تعلق ہے۔- (٢) حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہوجائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا بچہ ہوگا۔ زیادہ واضح الفاظ میں وہ لڑکا ولدالزنا ہوگا۔ اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہ ہوگا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ٢٨ ہفتے قرار دی گئی ہے۔ اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اس مسئلہ کے ہر دو پہلوؤں سے نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ کی مدت قرار دی ہے۔ چھ ماہ کے بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔- (٣) رضاعت کی مدت کی بہتر صورت یہ ہے کہ اگر بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو تو رضاعت کی مدت پورے دو سال یا چوبیس ماہ قرار دی جائے۔ اگر سات ماہ بعد پیدا ہو تو ٢٣ ماہ، آٹھ ماہ بعد بعد پیدا ہو تو ٢٢ ماہ اور نو ماہ بعد پیدا ہو تو ٢١ ماہ قرار دی جائے۔- (٤) مدت کا شمار قمری مہینوں کے حساب سے ہوگا شمسی مہینوں سے نہیں۔- [٢٢] پختگی کی عمر کتنی ہے ؟:۔ اگرچہ انسان کی جسمانی قوت اور طاقت چالیس سال سے پہلے ہی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تاہم اس میں عقل کی پختگی چالیس سال تک ہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو نبوت چالیس سال کی عمر میں یا اس کے بعد عطا کی جاتی رہی۔ البتہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے آپ کی اور بھی کئی باتیں اعجازی حیثیت رکھتی ہیں۔ ویسے ہی نبوت بھی آپ کو تیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور ٣٣ سال کی عمر میں آپ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔- [٢٣] یہ انسان کی عقل کی پختگی کی دلیل ہے کہ اسے اپنے پروردگار کے اور اپنے والدین کے احسانات کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور شکر کے لیے اللہ سے توفیق بھی طلب کرتا ہے۔ اور عملی طور پر اللہ کا شکر یوں ادا کرتا ہے اور اس کی توفیق چاہتا ہے جو اللہ کو پسند ہو۔ واضح رہے اللہ تعالیٰ کو وہی اعمال پسند ہیں جو خالصتاً اس کی رضا مندی کے لیے کئے جائیں۔ شریعت کی پابندیوں یعنی اسوہ رسول کے مطابق ہوں۔ ان میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ اور بعد میں کوئی ایسا فعل نہ کیا جائے جو اس عمل کو برباد کرنے کا سبب بن جائے۔- [٢٤] سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر خصوصی احسان :۔ صحابہ کرام (رض) میں صرف سیدنا ابوبکر صدیق (رض) ہی ایسے خوش قسمت تھے جو خود بھی مسلمان، ان کے والدین بھی مسلمان اور اولاد بھی مسلمان تھی اور ان سب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ صحابہ میں یہ خصوصیت اور کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا : سورت کے شروع سے یہاں تک اللہ تعالیٰ کی توحید اس کی نازل کردہ کتاب کے حق ہونے اور اس کی عبادت پر استقامت کا بیان فرمایا، اب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حق توحید اور اخلاص عبادت کے ساتھ ماں باپ کے حق کا ذکر فرمایا ہے۔ اس جملے کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (٨٣) بنی اسرائیل (٢٣، ٢٤) ، عنکبوت (٨) اور سورة لقمان (١٤، ١٥) ۔- (٢) حملتہ امہ کرھاً و و ضعتہ کرھا :” کرہ یکرہ کرھا و کرھا و کراھۃ و کراھیۃ “ (ع)” الشی ، “ یہ ” احب الشیئ “ کی ضد ہے، ناپسند کرنا۔ ” الکرہ “ اور ” الکرہ “ کا معنی انکار اور مشقت بھی ہے۔ ” کرھا “ حال ہے ” ای حملتہ امہ ذات کرہ “ یعنی اس کی ماں نے اسے اس حالت میں اٹھا رکھا کہ وہ ناگواری یا مشقت والی تھی۔ یا اس سے پہلے حرف جا رباء محذوف ہے، جس کے حذف کرنے سے اس پر نصب آیا ہے :” ای حملتہ امہ بکرہ “ یعنی اس کی ماں نے اسے ناگواری یا مشقت کیساتھ اٹھایا،” ووضعتہ کرھا “ اور اسے ناگواری اور مشقت کے ساتھ جنا۔- (٣) آیت میں اگرچہ ماں اور باپ دونوں کے ساتھ احسان کی تاکید کی گئی ہے، مگر ماں کی تین قربانیوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ حمل کی پوری مدت اسے اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس دوران اس پر کئی ناگوار حالتیں گزرتی ہیں، مثلاً متلی، بےچینی، تھکاوٹ، بیماری کی سی حالت، دن بدن بڑھتی ہوئی کمزوری، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا :(حملتہ امہ وھنا علی ومھن) (لقمان : ١٣)” اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اٹھائے رکھا۔” خصوصاً حمل کے آخری ایام میں تو یہ بوجھ اس کی جان کا روگ بنا ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی ماں کا حق ادا کرنے کے لئے اسے کمزوری کی حلات میں اٹھا کر لئے پھرے تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ کہاں پوری مدت حمل مسلسل اپنے شکم میں اٹھائے پھرنا اور کہاں کسی وقت کچھ دیر کے لئے اٹھا لینا۔ پھر ماں ان سب ناگوار کیفیتوں کو آنے والے فرزند کی امید پر خوشی سے برداشت کرتی ہے، جب کہ اولاد اسے بوجھ سمجھ کر یا صرف اللہ کا حکم سمجھ کر اٹھاتی ہے، دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ دوسری قربانی وضع حمل کا نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہے جس میں اس کی جان داؤ پر لگی ہوتی ہے، کتنی مائیں اس مرحلے میں جان سے گزر جاتی ہیں، وہ اپنے فرزند کی امید پر اس ناگوار مرحلے کو بھی برداشت کرتی ہے۔ تیسری قربانی دو سال تک اس کی پرورش ، اپنے آرام کی قربانی دے کر اس کے لئے ہر آسائش مہیا کرنا اور اپنا خون دودھ کی صورت میں دو سال تک پلاتے جانا ہے۔ ان تین قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ رکھا ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، کہنے لگا :(یا رسول اللہ من احق الناس بحس صحابتی ؟ قال امک، قال ثم من ؟ قال ثم امک، قال ثم من ؟ قال ثم امک، قال ثم من ؟ قال ثم ابوک) (بخاری، الادب، باب میں احق الناس بحسن الصحبہ :5981)” یا رسول اللہ لوگوں میں سے میرے حسن محبت کا زیادہ حق دار کون ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تمہاری ماں۔ “ اس نے کہا :” پھر کون ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” پھر تمہاری ماں۔ “ اس نے کہا : ” پھر کون ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” پھر تمہاری ماں۔ “ اس نے کہا :” پھر کون ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (چوتھی مرتبہ) فرمایا :” پھر تمہارا باپ۔ “- (٤) وحملہ و فصلہ ثلثون شھراً : اس آیت کو اور سورة لقمان کی آیت (١٤):(وفصلہ فی عامین) (اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) اور سورة بقرہ کی آیت (٢٣٣): (والو ا لدت یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن ارد ان یتم الرضاعۃ) (اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، اس کے لئے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے) ان تینوں آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ تیس ماہ میں سے دودھ پلانے کی مدت دو سال نکالی جائے تو باقی چھ ماہ بچتے ہیں۔ اب نکثیر نے سورة زخرف کی آیت (٨١) :(قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العبدین) کی تفسیر میں ابن جریر طبری سے نقل فرمایا ہے :(عن بعجۃ بن زید الجھنی، ان امراۃ منھم دخلت علی زوجھا، وھو رجل منھم ایضاً ، فولدت لہ فی ستۃ اشھر، فذکر ذلک زوجھا لعمان بن عفان (رض) فامر، بھا ان ترجم فدخل علیہ علی بن ابی طالب (رض) فقفال ان اللہ تبارک و تعالیٰ یقول فی کتابہ :(وحملہ و فضلہ ثلثون شھراً ) وقال :(وفضلہ فی عامین) فال ھو اللہ ما عبد عثمان ان بعث الیھا تردد) (الطبری : ٢٠ 685 ح :31280)” بعجہ بن یزید جہنمی کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کی ایک عورت اپنے خاوند کے پاس آئی، وہ آدمی بھی اسی قبیلے کا تھا، تو اس عورت نے چھ مہینے میں بچے کو جنم دیا۔ اس کے خاوند نے عثمان بن عفان (رض) سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ اس پر علی بن ابی طالب (رض) ان کے پاس آئے اور کہا :” اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :(وحملہ وفصلہ ثلثون شعراً ) (کہ اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے) اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(وفصلہ فی عامین) (اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔ “ “ بعجہ بن زیدی کہتے ہیں :” تو اللہ کی قسم عثمان (رض) نے ان کی بات کا کوئی انکار نہیں کیا اور فوراً آدمی بھیجا کہ اسے واپس لایا جائے۔ “- ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، اس کی سند صحیح ہے۔ یہ استدلال نہایت مضبوط ہے، علی اور عثمان (رض) کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان کی موافقت کی ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس (رض) نے فرمایا :” عورت جب نو (٩) ماہ میں بچہ جنے تو اسے اکیس (٢١) ماہ دودھ پلانا کافی ہے، جب سات (٧) ماہ میں جنے تو اسے تئیس (٢٣) ماہ دودھ پلانا کافی ہے اور جب چھ (٦) ماہ میں جنے تو پورے دو سال دودھ پلائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :(وحملہ و فصلہ ثلثون شھراً )” اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔ “ (ابن ابی حاتم :18568، ابن کثیر وقال المحقق سندہ حسن)- (٥) حقی اذا بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ…: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے والدین کا حق پہچاننے کے اعتبار سے دوق سم کے آدمیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت میں اس آدمی کا ذکر ہے جو اپنی جوانی کو پہنچتا ہے تو اپنے والدین کا حق پہچانتا ہے اور یہ پہچان اسے اپنے اصل مالک اور مری کی پہچان اور سا کا شکر ادا کرنے تک پہنچا دیتی ہے۔” بلغ اشدہ “ کی تشریح کیلئے دیکھیے سورة یوسف (٢٢) کی تفسیر۔ اس سلسلے میں چالیس سال کی عمر کا ذکر بلوغت کی آخری حد کے طور پر فرمایا ہے، کیونکہ اس عمر میں آدمی کی قوتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے بعد انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں ہر جوان کو عموماً اور چالیس برس والے آدمی کو خصوصاً خبردار کیا گیا ہے کہ اسے چاہیے کہ اپنی پرورش کرنے والے والدین کا اور اپنے اور اپنے والدین کے اصل مربی اور مالک کا حق پہچان اور اپنے اور اپنے والدین پر اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے اس سے توفیق مانگتا رہے، کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی نیکی نہیں ہوسکتی اور ساتھ ہی اپنی اولاد کی اصلاح کی دعا بھی کرتا رہے۔ اس طرح والدین کے حقوق کی پہچان اور ان کی ادائیگی کے لئے اپنے رب کے حقوق کی پہچان، اس کی توحید پر استقامت اس کی عبادت میں اخلاص اور اس کی نعمتوں پر شکر کا ذریعہ بن جائے گی، جو انسان کی زندگی کا اصل مقصود ہے۔- (٦) وان اعمل صالحاً ترضہ : عمل اگرچہ وہی صالح ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اور اخلاص کے ساتھ ہو، مگر اخلاص نیت اور ریا سے پاک ہونے کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے اس کا الگ بھی ذکر فرمایا۔ یعنی مجھے ایسے عمل کی توفیق دے جو ظاہر میں درست یعنی تیری کتاب اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو اور حقیقت میں بھی تیری رضا کے مطابق اور تیری جناب میں قبول ہونے کے لائق ہو ، یعنی اخلاص نیت پر مبنی اور ریا سے پاک ہو۔- (٧) واصلح لی فی ذریتی : اس دعا میں دو الفاظ قابل غور ہیں، ایک ” لی “ اور دوسرا ” فی “۔ ” اصلح لی “ (میرے لئے اصلاح فرما دے) کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ایسی اصلاح فرما جس کا فائدہ مجھے بھی حاصل ہو۔” فی ذریتی “ یہاں بظاہر ” اصلح لی ذرینی “ (میرے لئے میری اولاد کی اصلاح فرما دے) کافی تھا، جیسا کہ فرمایا :(واصلحنا لہ زوجہ) (الانبیائ : ٩٠)” اور ہم نے اس کے لئے اس کی بیوی کی اصلاح فرما دی۔ “ مگر ” فی “ لانے کا مطلب یہ ہے کہ میری اولاد میں اصلاح کا عمل جاری و ساری فرما دے جو آگے تک چلتا رہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :(وجعلھا کلمۃ باقیہ فی عقبہ) (الزخرف : ٢٨)” اور اس نے اس (توحید کی بات) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنادیا۔ “- (٨) انی تبت الیک و انی من المسلمین : یعنی میں اپنی جوانی کی سرکشی اور جہالت سے اور تیری ہر قسم کی نافرمانی سے باز آیا اور میں تیرے مکمل فرماں بر داروں سے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ چالیس (٤٠) برس کی عمر میں اور اس کے بعد توبہ کی تجدید کرتے رہنا چاہیے۔- (٩) یہ دعا اولاد کی اصلاح کے لئے اکسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی تعلیم دی ہے اور یہ مقبول دعاؤں میں سے ہے، کیونکہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے قبول ہونے کی بشارت دی ہے، فرمایا :(نتقبل عنھم)” ہم ان سے قبول کرتے ہیں۔ “ جیسا کہ سورة فاتحہ ہے اور سورة بقرہ کی آخری آیات والی دعائیں ہیں۔ اس لئے کسی صاحب اولاد کو، خصوصاً جو چالیس سال یا اس سے اوپر ہوا سے اس دعا سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ مالک بن مغول نے طلحہ بن مصرف کے پاس اپنے بیٹے کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا :” اس کے لئے اس دعا سے مدد حاصل کرو۔ “ (قرطبی :195 16)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بہرحال ان چار آیتوں میں اصل مضمون انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرنا ہے اور ضمناً دوسری تعلیمات آئی ہیں۔ اگرچہ بعض روایات حدیث سے ان آیات کا حضرت صدیق اکبر کی شان میں نازل ہونا معلوم ہوتا ہے اور اسی بنا پر تفسیر مظہری نے ووصینا الانسان میں الانسان کے الف لام کو عہد کا قرار دے کر اس سے مراد صدیق اکبر کو قرار دیا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی آیت قرآن کا سبب نزول کوئی خاص فرد یا خاص واقعہ ہو تو پھر بھی حکم سب کے لئے عام ہی ہوتا ہے۔ شان نزول خاص صدیق اکبر ہوں اور تخصیصات مندرجہ آیات انہیں کی صفات ہوں جبھی مقصود آیات کا تعلیم عام ہی ہے۔ اور اگر اصل آیات کو عام تعلیم قرار دیا جائے، اس میں بھی صدیق اکبر اس تعلیم کے پہلے مصداق قرار پائیں گے۔ جوان ہونے اور چالیس سال عمر ہونے کے بعد کی جو تخصیصات ان آیات میں مذکور ہیں وہ تخصیصات بطور تمثیل کے ہوں گی اب آیات مذکورہ کے خاص خاص الفاظ کی تشریح دیکھئے۔ - (آیت) وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا، لفظ وصیت تاکیدی حکم کے معنی میں آتا ہے اور احسان بمعنے حسن سلوک ہے جس میں ان کی خدمت و اطاعت بھی داخل ہے اور تعظیم و تکریم بھی۔- (آیت) حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا، لفظ کرھا بضم الکاف اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی وجہ سے برداشت کرنا پڑے اور کرھا بفتح کاف اس محنت و مشقت کا نام ہے جس پر ان کو کوئی دوسرا آدمی مجبور کرے۔ اسی سے اکراہ مشتق ہے۔ پہلے جملے میں جو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے یہ دوسرا جملہ اس کی تاکید کے لئے ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے تمہاری پیدائش سے لے کر جوانی تک تمہارے لئے بڑی مشقتیں برداشت کی ہیں، خصوصاً ماں کی محنت و مشقت بہت ہی نمایاں ہے اس لئے یہاں بیان صرف ماں کی مشقت کا کیا گیا ہے کہ اس نے ایک طویل مدت نو ماہ اپنے پیٹ میں تم کوا ٹھائے رکھا جس میں اس کو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرنا پڑیں، پھر ولادت کے وقت سخت درد اور تکلیف کے ساتھ تمہارا وجود اس دنیا میں آیا۔- ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے :۔- شروع آیت میں حسن سلوک کا حکم ماں اور باپ دونوں کے لئے ہے مگر اس جگہ صرف ماں کی محنت و مشقت کا ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ماں کی محنت و مشقت لازمی اور ضروری ہے۔ حمل کے زمانے کی تکلیفیں، پھر وضع حمل اور درد زہ کی تکلیف ہر حال ہر بچہ کے لئے لازمی ہے جو صرف ماں ہی کی محنت ہے، باپ کے لئے پرورش پر محنت اٹھانا اتنا لازمی و ضروری نہیں ہوسکتا ہے کہ کسی باپ کو اولاد کی تربیت میں کوئی بھی محنت مشقت اٹھانی پڑے جبکہ وہ مالدار صاحب حشم و خدم ہو، دوسروں سے اولاد کی خدمت لے یا وہ کسی دوسرے ملک میں چلا گیا اور خرچ بھیجتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولاد پر ماں کے حق کو سب سے زیادہ رکھا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے صل امک ثم امک ثم امک ثم اباک ثم ادناک فادناک (مظہری) یعنی صلہ رحمی اور خدمت کرو اپنی ماں کی پھر اپنی ماں کی پھر اپنی ماں کی، اس کے بعد اپنے باپ کی اور اس کے بعد جو قریب تر رشتہ دار ہو اس کی پھر جو اسکے بعد ہو۔ - (آیت) وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا اس جملہ میں بھی ماں کی محنت و مشقت ہی کا بیان ہے کہ بچے کے حمل اور وضع حمل کی مشقت کے بعد بھی ماں کو محنت سے فراغت نہیں ملتی کیونکہ اس کے بعد بچے کی غذا بھی قدرت نے ماں کی چھاتیوں میں اتاری ہے وہ اس کو دودھ پلاتی ہے۔ آیت میں ارشاد یہ فرمایا کہ بچے کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس آیت سے اس بات پر استدلال فرمایا کہ حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ کی ہے کیونکہ قرآن کریم نے اکثر مدت رضاع تو دو سال کامل متعین فرما دیئے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین اور یہاں حمل اور رضاع دونوں کی مدت تیس ماہ قرار دی گئی تو مدت رضاع کے دو سال یعنی چوبیس مہینے نکلنے کے بعد چھ ماہ ہی باقی رہ جاتے ہیں جس کو کم سے کم مدت حمل قرار دیا گیا ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان غنی کے زمانے میں ایک عورت کے بطن سے چھ ماہ ہوجانے پر بچہ پیدا ہوگیا جبکہ عام عادت نو مہینے میں اور کم سے مدت سات مہینے میں بچہ پیدا ہونے کی ہے۔ عثمان غنی نے اس کو حمل ناجائز قرار دے کر سزا کا حکم دیدیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت عثمان کو اس سزا سے منع کیا اور فرمایا کہ قرآن میں حمل اور رضاع کی مجموعی مدت تیس ماہ ہے پھر رضاع کی مدت کا چوبیس ماہ ہونا دوسری جگہ متعین کردیا ہے اس لئے باقی ماندہ مدت چھ ماہ ہی حمل کی کم سے کم مدت ہے۔ عثمان غنی نے ان کے استدلال کو قبول کر کے اپنا حکم واپس لے لیا۔ (قرطبی)- اسی لئے کم سے کم مدت حمل کے بارے میں تمام امت کے ائمہ متفق ہیں کہ وہ چھ ماہ ہو سکتی ہے اکثر مدت کتنی ہے اس میں ائمہ کے اقوال مختلف ہیں قرآن نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا۔- فائدہ :۔ اس آیت میں حمل کی تو اقل مدت کا بیان کیا گیا اور رضاع کی اکثر مدت کا اس میں اشارہ ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ متعین ہے اس سے کم میں صحیح سالم بچہ پیدا نہیں ہوسکتا مگر زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ بچہ حمل میں رہ سکتا ہے اس میں عادتیں مختلف ہیں یہ متعین نہیں اسی طرح رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت متعین ہے کہ دو سال تک دودھ پلایا جاسکتا ہے کم سے کم مدت کچھ متعین نہیں۔ بعض عورتوں کے دودھ ہوتا ہی نہیں، بعض کا دودھ چند مہینوں میں خشک ہوجاتا ہے، بعض بچے ماں کا دودھ زیادہ نہیں پیتے یا ان کو مضر ہوتا ہے تو دوسرا دودھ پلانا پڑتا ہے۔- اکثر مدت حمل اور اکثر مدت رضاع میں فقہائے امت کا اختلاف :۔- اکثر مدت حمل امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک دو سال ہیں، امام مالک سے مختلف روایات منقول ہیں۔ چار سال، پانچ سال، سات سال، امام شافعی کے نزدیک چار سال، امام احمد کی بھی مشہور روایت چار ہی سال کی ہے (مظہری) اور اکثر مدت رضاعت جس کے ساتھ حرمت رضاعت کے احکام متعلق ہوتے ہیں جمہور فقہاء کے نزدیک دو سال ہیں۔ امام مالک شافعی، احمد بن حنبل اور ائمہ حنفیہ میں سے ابو یوسف اور امام محمد سب اس پر متفق ہیں اور صحابہ کرام میں حضرت عمرو ابن عباس کا بھی یہ قول ہے (رواہ الدار قطنی علی مرتضی عبداللہ بن مسعود کا بھی یہی ارشاد ہے (اخرجہ ابن ابی شیبہ) صرف امام اعظم ابوحنیفہ سے یہ منقول ہے کہ ڈھائی سال تک بچہ کو دودھ پلایا جاسکتا ہے جس کا حاصل جمہور حنفیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر بچہ کمزور ہو، ماں کے دودھ کے سوا کوئی غذا دو سال تک بھی نہ لیتا ہو تو مزید چھ ماہ دودھ پلانے کی اجازت ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مدت رضاعت پوری ہونے کے بعد ماں کا دودھ بچے کو پلانا حرام ہے مگر فتویٰ فقہائے حنفیہ کا بھی جمہور ائمہ کے مسلک پر ہے کہ دو سال کی مدت کے بعد اگر دودھ پلایا گیا تو اس سے حرمت رضاعت کے احکام ثابت نہیں ہوں گے۔ سیدی حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں فرمایا کہ اگر فتویٰ جمہور کے قول پر ہے مگر عمل میں احتیاط کرنا بہتر ہے کہ ڈھائی سال کی مدت کے اندر جس بچہ کو دودھ پلایا گیا ہے اس سے مناکحت میں احتیاط برتی جائے۔ بعض حضرات نے آیت ۭ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا سے امام اعظم کے قول کے مطابق اکثر مدت رضاعت ڈھائی سال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ تفسیر مظہری میں فرمایا کہ یہ درست نہیں کیونکہ صحابہ کرام کی جماعت علی مرتضیٰ عثمان غنی نے آیت کی تفسیر یہ متعین کردی ہے کہ اس میں چھ ماہ اقل مدت حمل کے اور چوبیس ماہ مدت رضاعت کے مراد ہیں اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن کریم نے حمل اور رضاعت کی مشترک مدت تیس ماہ بتلائی ہے ہر ایک کی الگ الگ حد نہیں بتلائی اس کا سبب یہ ہے کہ عادت عامہ یوں ہے کہ بچہ نو ماہ میں پیدا ہونا ہے اور جب بچہ پورے نو ماہ میں پیدا ہو تو ماں کا دودھ پلانے کی ضرورت صرف اکیس ماہ رہ جاتی ہے اور اگر بچہ سات مہینے میں پیدا ہوجائے تو تئیس ماہ دودھ پلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو بچہ چھ ماہ میں پیدا ہوجائے تو چوبیس ماہ یعنی پورے دو سال دودھ پلانے کی ضرورت ہوگی۔ (مظہری)- (آیت) ۭحَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۙ لفظ اشد کے لغوی معنی قوت کے ہیں۔ سورة انعام میں حتی یبلغ اشدہ کے تحت میں اس کی تفسیر بلوغ سے کی گئی ہے یعنی جب بچہ سن بلوغ کو پہنچ جائے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ بلوغ اشد سے مراد اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنا ہے۔ مذکور الصدر آیت میں بھی بعض حضرات نے بلغ اشدہ کے معنی یہی کئے ہیں کہ بچہ سن بلوغ کو پہنچ جائے اور اس کے بعد بلخ اربعین سنة کو ایک مستقل منزل عمر قرار دیا، یہ قول شعبی اور ابن زید کا ہے اور حسن بصری نے بلوغ اشد اور بلغ اربعین دونوں کو ہم معنی اور بلغ اربعین کو بلغ اشدہ کی تفسیر و تاکید قرار دیا ہے۔ (قرطبی)- اور تقدیر عبارت یوں ہے کہ اول بچہ کے حمل کا پھر وضع حمل کا پھر دودھ پینے کے زمانے کا ذکر کرنے کے بعد حتی اذا بلغ فرمانے کا حاصل یہ ہے کہ فعاش واستمرت حیاتہ حتی اذا کتھل واستحکم قوتہ وعقلہ (روح) یعنی دودھ چھوٹنے کے بعد بچہ زندہ رہا اور عمر پائی یہاں تک کہ وہ بالغ اور قوی ہوگیا اور اس کی قوت اور عقل مکمل ہوگئی تو اب اس کو اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کی طرف رجوع ہونے کی توفیق نصیب ہوئی اور وہ یوں دعائیں مانگنے لگا کہ - اے میرے پالنے والے مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر مبذول فرمائی اور جو میرے والدین پر مبذول فرمائی اور مجھے یہ توفیق دے کہ میں وہ عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لئے میری اولاد کی بھی اصلاح فرما دے، میں تیری طرف رجوع ہوتا ہوں اور میں تیرے تابع فرمان مسلمان میں سے ہوں۔ قرآن نے اس جگہ ۭحَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ سے لے کر من المسلمین تک سب صیغے ماضی کے استعمال فرمائے جس سے ظاہر یہ ہے کہ یہ بیان کسی خاص واقعہ اور خاص شخص کا ہے جو نزول آیت کے وقت ہوچکا ہے۔ اسی لئے تفسیر مظہری نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ یہ سب حالات حضرت ابوبکر صدیق کے ہیں انہیں کا بیان بالفاظ عام اس حکمت سے کیا گیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب ہو کہ وہ بھی ایسا ہی کیا کریں اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جو قرطبی نے بروایت عطا حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنی بیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ کے مال سے تجارت کا قصد فرمایا اور ملک شام کا سفر کیا تو اس سفر میں ابوبکر صدیق آپ کے ساتھ تھے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی جو مصداق ہے بلغ اشدہ کا پھر اس سفر میں انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے حالات دیکھے کہ وہ اتنے گرویدہ ہوگئے کہ سفر سے واپسی کے بعد ہر وقت آپ کے ساتھ رہنے لگے، یہاں تک کہ جب آپ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوگئی اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا شرف عطا فرمایا اس وقت ابوبکر کی عمر اڑتیس سال تھی۔ مردوں میں سب سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کیا پھر جب ان کی عمر چالیس سال کی ہوگئی اس وقت یہ دعا مانگی جو اوپر آیت میں مذکور ہے رب اوزعنی اور یہی مصداق ہے بلغ اربعین سنة کا اور جب یہ دعا مانگی اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ تو اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ان کو نو ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کی توفیق بخشی جو مسلمان ہوگئے تھے اور ان کے مالک ان کو اسلام لانے پر طرح طرح کی اذائیں دیتے تھے، اسی طرح ان کی دعا اَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ بھی قبول ہوئی، ان کی اولاد میں کوئی ایسا نہ رہا جو ایمان نہ لایا ہو۔ اسی طرح صحابہ کرام میں یہ خصوصیت حق تعالیٰ نے صدیق اکبر ہی کو عطا فرمائی کہ وہ خود بھی مسلمان ہوئے، والدین بھی، اولاد بھی اور سب کو بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اور تفسیر روح المعانی میں ہے کہ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ تمام صحابہ کرام مہاجرین و انصار میں اس وقت یہ خصوصیت صرف صدیق اکبر کے والد ابوقحافہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں اور یہ سورت پوری مکی ہے اس لئے یہ آیات بھی مکہ میں نازل ہوئیں اس وقت والدین پر نعمت الٰہی مبذول ہونے کا ذکر کیسے مناسب ہوگا ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض حضرات نے ان آیات کو مدنی کہا ہے اس پر تو کوئی اشکال نہیں رہتا اور اگر مکی بھی ہوں تو مراد نعمت اسلام سے مشرف ہونے کی دعا ہوگی (روح) اس تفسیر کی رو سے اگرچہ یہ سب حالات صدیق اکبر کے بیان ہوئے مگر حکم عام ہے سب مسلمانوں کو اس کی ہدایت کرنا مقصود ہے کہ آدمی کی عمر جب چالیس سال کے قریب ہوجائے تو اس کو آخرت کی فکر غالب ہوجانی چاہئے۔ پچھلے گناہوں سے توبہ کی تجدید کرے اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا پورا اہتمام کرے کیونکہ عادت اور تجربہ یہ ہے کہ چالیس سال کی عمر میں جو اخلاق و عادات کسی شخص کی ہوجاتی ہیں پھر ان کا بدلنا مشکل ہوتا ہے۔- حضرت عثمان غنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ مومن جب چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب آسان فرما دیتے ہیں اور جب ساٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو اس کو اپنی طرف رجوع وانابت نصیب فرما دیتے ہیں اور جب ستر سال کی عمر کو پہنچ جائے تو تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات کو قائم فرما دیتے ہیں اور اس کے سیئات کو مٹا دیتے ہیں اور جب نوے سال کی عمر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کردیتے ہیں اور اس کو اپنے اہل بیت کے متعلق شفاعت کرنے کا حق دیدیتے ہیں اور آسمان میں اس کے نام کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اسیر اللہ فی الارض ہے یعنی زمین میں اللہ کی طرف سے قیدی ہے (ذکرہ ابن کثیر عن ابی یعلی و مسند احمد وغیرہ) اور یہ ظاہر ہے کہ مراد اس سے وہ ہی بندہ مومن ہے جس نے اپنی زندگی احکام شرع کے تابع ہو کر تقویٰ کے ساتھ گزاری ہے۔ ابن کثیر نے چونکہ پہلی تفسیر کو اختیار کیا ہے کہ مراد عام انسان ہے۔ تو جو الفاظ خصوصیت کے اس میں آئے ہیں جیسے (آیت) ۭحَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۙ الخ وہ سب بطور تمثیل کے ہیں جس میں یہ ہدایت دینا مقصود ہے کہ انسان جب چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو اپنی اصلاح اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور آخرت کی فکر غالب ہوجانی چاہئے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسٰـنًا۝ ٠ ۭ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝ ٠ ۭ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَۃً۝ ٠ ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىہُ وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ ۚ ۭ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝ ١٥- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - فِصالُ :- التّفریق بين الصّبيّ والرّضاع، قال : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] ، وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] ، ومنه : الفَصِيلُ ، لکن اختصّ بالحُوَارِ ، والمُفَصَّلُ من القرآن، السّبع الأخيروذلک للفصل بين القصص بالسّور القصار، والفَوَاصِلُ : أواخر الآي، وفَوَاصِلُ القلادة : شذر يفصل به بينها، وقیل : الفَصِيلُ : حائط دون سور المدینة وفي الحدیث : «من أنفق نفقة فَاصِلَةً فله من الأجر کذا» أي : نفقة تَفْصِلُ بين الکفر والإيمان .- الفصال کے معنی بچے کا دودھ چھڑانا کے ہیں قرآن پاک میں ہے : فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما [ البقرة 233] اور اگر دونوں ( یعنی ماں باپ ) آپس کی رضامندی ۔۔۔ سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں ۔ وَفِصالُهُ فِي عامَيْنِ [ لقمان 14] اور ( آخر کار) دوبرس میں اس کا دودھ چھڑا نا ہوتا ہے ۔ اسی سے تفصیل ( یعنی دودھ چھڑایا ہوا بچہ ) ہے لیکن یہ خاص کر اونٹ کے بچہ پر بولا جاتا ہے المفصل قرآن کی آخر منزل کو کہاجاتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں چھوٹی چھوٹی سورتوں میں تمام قصے الگ الگ بیان کئے گئے ہیں ۔ الفواصل ( اوخر آیات : اور فواصل القلادۃ ان بڑے موتیوں کو کہاجاتا ہے جو ہار کے اندر چھوٹی موتیوں کے درمیان فاصلہ کے لئے ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ حدیث میں ہے : من اتفق نفقۃ فاصلۃ فلہ سن الاجر کذا یعنی جس نے اتنا زیادہ خرچ کیا جس سے حق و باطل کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو اس کے لئے اتنا اور اتنا اجر ہے ۔- ثلث - الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان .- قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124]- ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل 20] تمہارا پروردگار - شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ.- ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - وزع - يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ- [ النمل 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] قيل : معناه :- ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران .- ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معیل کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بچے کی پیدائش کی مدت کم از کم چھ ماہ ہوسکتی ہے - قول باری ہے (وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا اور اس کا حمل اور اس کی دودھ بڑھائی تیس مہینوں میں ہوپاتی ہے) روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے ایک عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا تھا جس کے ہاں چھ ماہ میں بچے کی پیدائش ہوگئی تھی۔ اس موقع پر حضرت علی (رض) نے اس آیت کا حوالہ دیا تھا نیز اس قول باری کا (وفصالہ فی عامین۔ اور اس کی دودھ بڑھائی دو سالوں تک ہوتی ہے)- ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان (رض) نے لوگوں سے اس بارے میں مشورہ کیا تھا حضرت ابن عباس (رض) نے بھی آپ کو یہی بات بتائی تھی چناچہ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حمل کی مدت میں اضافہ ہوگا رضاعت کی مدت میں اتنی کمی ہوجائے گی۔ اگر حمل کی مدت نو ماہ ہوگی تو رضاعت کی مدت اکیس ماہ ہوگی باقی نسبتوں کا اسی نسبت پر قیاس ہوگا۔- حضرت ابن عباس (رض) سے یہ مروی ہے کہ رضاعت کی مدت ہر صورت میں دو سال ہوگی۔ حمل کی مدت کے اضافے یا کمی سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول ان کے پہلے قول کے خلاف ہے۔ مجاہد نے قول باری (دما تغیض الارحام وما تزداد) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ حمل ہے جس کی مدت نوماہ سے کم ہو اور جس کی مدت اس سے زائد ہو۔- پختگی کی عمر - قول باری ہے (حتی اذا بلغ اشدہ۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ (رض) سے مروی ہے کہ پختگی کی عمر تینتیس سال ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ اس سے بلوغ المحلم یعنی سوجھ بوجھ اور بلوغت کی عمر ہے حسن کا قول ہے اس سے مراد اس پر حجت کا قیام ہے۔- دنیاوی لذات سے مومن کم فائدہ اٹھاتا ہے

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہم نے بذریعہ قرآن کریم حضرت عبدالرحمن کو ان کے والدین یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور ان کی بیوی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔- اس کی ماں نے بڑی مشقت کے ساتھ اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر بڑی مشقت کے ساتھ اسے پیدا کیا اور اس بچے کو پیٹ میں رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا اکثر تیس مہینوں میں پورا ہوتا ہے۔- یہاں تک کہ جب وہ اٹھارہ سال سے تیس سال تک پہنچ جاتا ہے اور پھر چالیس سال کی عمر ہوتی ہے تو حضرت ابوبکر دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار مجھے اس چیز پر ثبات عطا فرمایئے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر کروں جو آپ نے مجھے اور میرے والدین کو بذریعہ توحید عطا فرمائی ہیں ان کے والدین اس سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے۔- اور یہ کہ میں نیک کام کروں کہ جنہیں آپ قبول فرمائیں اور میری اولاد کو بھی توبہ اور اسلام کی دولت سے سرفراز فرمایئے ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن اس سے پہلے اسلام نہیں لائے تھے مگر اس کے بعد وہ بھی مشرف باسلام ہوگئے اور میں آپ کے حضور توبہ کے ساتھ رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں کے ساتھ ان کے دین پر قائم ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا ” اور ہم نے تاکید کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں حسن سلوک کی۔ “- والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کے اس حکم میں اس حوالے سے خصوصی تاکید پائی جاتی ہے : - وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْکِلٰہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا - ” اور فیصلہ کردیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے کہ تم نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اس کے اور والدین کے ساتھ احسان (کروگے) ۔ اگر پہنچ جائیں تمہارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ‘ تو مت کہو ان کو اُف بھی اور مت جھڑکو ان کو ‘ اور بات کرو ان سے نرمی کے ساتھ۔ “ - اولاد کے لیے اگرچہ والد اور والدہ دونوں قابل احترام ہیں اور دونوں ہی ان کے حسن سلوک کے مستحق ہیں لیکن بچے کی پیدائش اور پرورش میں ماں کی مشقت اور ذمہ داری چونکہ زیادہ ہے اس لیے اولاد کی طرف سے خدمت اور حسن سلوک کے حوالے سے اس کا حق بھی فائق ہے۔ چناچہ سورة لقمان میں ماں کے خصوصی حق کا ذکر یوں فرمایا گیا : وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ ” اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ‘ اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر ‘ پھر اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں۔ “- والدہ کے خصوصی حق کی وضاحت ایک حدیث میں بھی ملتی ہے۔ ایک صحابی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا : یا رسول اللہ میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہاری والدہ “ انہوں (رض) نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر تمہاری والدہ “ یہ سوال انہوں نے چار مرتبہ دہرایا۔ جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین مرتبہ فرمایا : تمہاری والدہ۔ جبکہ چوتھی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر تمہارا والد “ (١) البتہ اس حوالے سے یہ نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ والدہ کے حق کی یہ فوقیت اخلاقی اعتبار سے ہے جبکہ قانونی طور پر والد کا حق ہی فائق ہے۔ مثلاً اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے : (اَلْجَنَّۃ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَاتِ ) (٢) لیکن اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے تو اسلامی قانون اولاد پر والد ہی کا حق تسلیم کرتا ہے۔- حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا ” اس کی ماں نے اسے اٹھائے رکھا (پیٹ میں) تکلیف جھیل کر اور اسے جنا تکلیف کے ساتھ۔ “- وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا ” اور اس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے (لگ بھگ) تیس مہینے میں۔ “- ان دو جملوں میں ان تمام اضافی تکالیف اور مشقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو والد کے مقابلے میں صرف والدہ کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بچے کی پیدائش اور پرورش میں والد بالواسطہ طور پر حصہ لیتا ہے جبکہ والدہ اس پورے عمل میں براہ راست کردار ادا کرتی ہے۔ دورانِ حمل کی گونا گوں پریشانیوں ‘ وضع حمل کی جان لیوا تکلیفوں اور رضاعت و پرورش کی صبر آزما مشقتوں کو وہ تن تنہا جھیلتی ہے۔- حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ” یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے اور چالیس برس کا ہوجاتا ہے “- بچے کی جسمانی بلوغت تو سولہ سترہ سال کی عمر میں ہوجاتی ہے ‘ لیکن یہاں ذہنی اور نفسیاتی بلوغت اور پختگی کا ذکر ہوا ہے اور اس کی کم از کم حد چالیس سال بتائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو چالیس برس کی عمر میں منصب ِنبوت پر فائز کیا جاتا رہا ہے ‘ جیسا کہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی نبوت چالیس برس کی عمر میں ملی۔ البتہ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ استثناء کی مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی حکمت عطا کردی گئی تھی ‘ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت سے واضح ہے : وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ ” اور ہم نے اسے عطا کردی حکمت و دانائی بچپن میں ہی “۔ اور ایسا ہی معاملہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی تھا۔ لیکن عام قاعدہ کے تحت ذہنی و نفسیاتی بلوغت ( ) کی حد چالیس سال ہی ہے۔ اور اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ میں ایک بچے کی مثال دی گئی ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل طے کر کے چالیس برس کی عمر میں ذہنی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو :- قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ ” وہ کہتا ہے : اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں شکر کرسکوں تیرے انعامات کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائے۔ “- وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ” اور یہ کہ میں ایسے اعمال کروں جنہیں تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں بھی اصلاح فرما دے۔ “- اس دعا کا اسلوب خصوصی طور پر لائق توجہ ہے۔ دعا صرف یہ نہیں کہ میری اولاد کی اصلاح فرما دے اور انہیں نیک بنا دے ‘ بلکہ الفاظ کے مفہوم کی اصل روح یہ ہے کہ میری نسل میں میرے لیے اصلاح فرما دے ‘ ان میں میرے لیے بہتری پیدا فرما دے۔ اس لیے کہ بچے اگر صالح اور نیک ہوں گے تو اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔ اگر والدین نے اولاد کی اچھی تربیت کی ہوگی تو ان کے نیک اعمال میں سے والدین کو بھی صدقہ جاریہ کے طور پر حصہ ملتا رہے گا۔ یوں اولاد کی بہتری اور اصلاح گویا والدین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔ بالکل یہی مفہوم اس دعا کا بھی ہے : وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ ( الفرقان) ” اور وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں : اے ہمارے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما ‘ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ “- اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ” میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور یقینا میں (تیرے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :19 یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے ، لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بنا پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لیے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے ۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد ، اور امام بخاری کی ادب المفرد میں وارد ہوئی ہے کہ ایک صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کس کا حق خدمت مجھ پر زیادہ ہے؟ فرمایا تیری ماں ۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون؟ فرمایا تیرا باپ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے ، کیونکہ اس میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : ( 1 ) اس کی ماں نے اسے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا ۔ ( 2 ) مشقت اٹھا کر اس کو جنا ۔ ( 3 ) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں 30 مہینے لگ گئے ۔ اس آیت ، اور سورہ لقمان کی آیت 14 ، اور سورہ بقرہ کی آیت 233 سے ایک اور قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشان دہی ایک مقدمے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس نے کی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کی بنا پر اپنا فیصلہ بدل دیا ۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جُہیَنہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہو گیا ۔ اس شخص نے حضرت عثمان کے سامنے لا کر یہ معاملہ پیش کر دیا ۔ آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر دیا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ جن دیا ، یہ اس کے زانیہ ہونے کا کھلا ثبوت نہیں ہے ۔ ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں ۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ بلائیں اس باپ کے لیے جو رضاعت کی پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے ۔ سورہ لقمان میں فرمایا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ۔ اور سورہ احقاف میں فرمایا اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے ۔ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدت ، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہو سکتا ہے ، چھ مہینے ہے ۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنا ہو اسے زانیہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن بالکل نہ گیا تھا ۔ پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے استدلال کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے سے رجوع فرما لیا ( ابن جریر ، احکام القرآن للجصاص ، ابن کثیر ) ۔ ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں وہ یہ ہیں : ( 1 ) جو عورت نکاح کے چھ مہینے سے کم مدت میں صحیح و سالم بچہ ( یعنی وہ اسقاط نہ ہو بلکہ وضع حمل ہو ) وہ زانیہ قرار پائے گی اور اس کے بچے کا نسب اس کے شوہر سے ثابت نہ ہو گا ۔ ( 2 ) جو عورت نکاح کے چھ مہینے بعد یا اس سے زیادہ مدت میں زندہ سلامت بچہ جنے اس پر زنا کا الزام محض اس ولادت کی بنیاد پر نہیں لگایا جا سکتا ، نہ اس کے شوہر کو اس پر تہمت لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے ، اور نہ اس کا شوہر بچے کے نسب سے انکار کر سکتا ہے ۔ بچہ لازماً اسی کا مانا جائے گا ، اور عورت کو سزا نہ دی جائے گی ۔ ( 3 ) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے ۔ اس عمر کے بعد اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ اس کی رضاعی ماں قرار نہیں پائے گی اور نہ وہ احکام رضاعت اس پر مترتب ہوں گے جو سورہ نساء آیت 23 میں بیان ہوئے ہیں ۔ اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ نے بر سبیل احتیاط دو سال کے بجائے ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے تاکہ حرمت رضاعت جیسے نازک مسئلے میں خطا کر جانے کا احتمال باقی نہ رہے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، سورہ لقمان حاشیہ نمبر 23 ) اس مقام پر یہ جان لینا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کو کم از کم 28 ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں وہ نشو و نما پاکر زندہ ولادت کے قابل ہو سکتا ہے ۔ یہ مدت ساڑھے چھ مہینے سے زیادہ بنتی ہے ۔ اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے ، کیونکہ ایک عورت کا زانیہ قرار پانا اور ایک بچہ کا نصب سے محروم ہو جانا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ماں اور بچے دونوں اس کے قانونی نتائج سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے ۔ علاوہ بریں کسی طبیب ، قاضی حتی کہ خود حاملہ عورت اسے بارور کرنے والے مرد کو بھی ٹھیک ٹھیک یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ استقرار حمل کس وقت ہوا ہے ۔ یہ بات بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حمل کی کم سے کم قانونی مدت کے تعین میں چند روز کی مزید گنجائش رکھی جائے ۔ سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :20 یعنی مجھے ایسے نیک عمل کی توفیق دے جو اپنے ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہو ، اور حقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو ۔ ایک عمل اگر دنیا والوں کے نزدیک بڑا اچھا ہو ، مگر خدا کے قانون کی پیروی اس میں نہ کی گئی ہو تو دنیا کے لوگ اس پر کتنی ہی داد دیں ، خدا کے ہاں وہ کسی داد کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔ دوسری طرف ایک عمل ٹھیک ٹھیک شریعت کے مطابق ہوتا ہے اور بظاہر اس کی شکل میں کوئی کسر نہیں ہوتی ، مگر نیت کی خرابی ، ریا ، خود پسندی ، فخر و غرور ، اور دنیا طلبی اس کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور وہ بھی اس قابل نہیں رہتا ہے کہ اللہ کے ہاں مقبول ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: ایمان پر ثابت قدم رہنے کا جو ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے، اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے، نیز جیسا کہ اوپر سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، بعض مرتبہ کچھ لوگ مسلمان ہوجاتے تھے، اور ان کے والدین ایمان نہیں لاتے تھے، ایسے میں ان کے سامنے یہ سوال آتا تھا کہ ان کافر والدین کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اس آیت نے یہ تعلیم دی کہ والدین کا انسان پر بہت بڑا احسان ہے، اس لیے جہاں تک ان کے ساتھ عام برتاؤ کا تعلق ہے، اس میں اچھا سلوک ہی کرنا چاہئے، لیکن نہ عقیدے میں ان کا ساتھ دیا جائے، اور نہ کسی گناہ کے کام میں ان کی بات مانی جائے، جیسا کہ سورۃ عنکبوت : 8 میں یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ گذر چکی ہے۔ 10: حمل کی وہ کم سے کم مدت جس میں زندہ بچے کی پیدائش ممکن ہے، چھ مہینے ہے، اور دودھ پلانے کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس طرح تیس مہینے یعنی ڈھائی سال کی مدت بنتی ہے۔ 11: بعض روایات میں مذکور ہے کہ یہ حضرت ابوبکر (رض) کی طرف اشارہ ہے، انہوں نے ہی یہ دعا فرمائی تھی۔