Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس قرآن کریم کو اس نے اپنے بندے اور اپنے سچے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے اور بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی بڑی عزت والا ہے جو کبھی کم نہ ہوگی ۔ اور ایسی زبردست حکمت والا ہے جس کا کوئی قول کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں پھر ارشاد فرماتا ہے کہ آسمان و زمین وغیرہ تمام چیزیں اس نے عبث اور باطل پیدا نہیں کیں بلکہ سراسر حق کے ساتھ اور بہترین تدبیر کے ساتھ بنائی ہیں اور ان سب کے لئے وقت مقرر ہے جو نہ گھٹے نہ بڑھے ۔ اس رسول سے اس کتاب سے اور اللہ کے ڈراوے کی اور نشانیوں سے جو بد باطن لوگ بےپرواہی اور لا ابالی کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کس قدر خود اپنا ہی نقصان کیا ۔ پھر فرماتا ہے ذرا ان مشرکین سے پوچھو تو کہ اللہ کے سوا جن کے نام تم پوجتے ہو جنہیں تم پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو ذرا مجھے بھی تو ان کی طاقت قدرت دکھاؤ بتاؤ تو زمین کے کس ٹکڑے کو خود انہوں نے بنایا ہے ؟ یا ثابت تو کرو کہ آسمانوں میں ان کی شرکت کتنی ہے اور کہاں ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ آسمان ہوں یا زمینیں ہوں یا اور چیزیں ہوں ان سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ بجز اس کے کسی کو ایک ذرے کا بھی اختیار نہیں تمام ملک کا مالک وہی ہے وہ ہر چیز پر کامل تصرف اور قبضہ رکھنے والا ہے تم اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ کیوں اس کے سوا دوسروں کو اپنی مصیبتوں میں پکارتے ہو ؟ تمہیں یہ تعلیم کس نے دی ؟ کس نے یہ شرک تمہیں سکھایا ؟ دراصل کسی بھلے اور سمجھدار شخص کی یہ تعلیم نہیں ہو سکتی ۔ نہ اللہ نے یہ تعلیم دی ہے اگر تم اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پر کوئی آسمانی دلیل رکھتے ہو تو اچھا اس کتاب کو تو جانے دو اور کوئی آسمانی صحیفہ ہی پیش کردو ۔ اچھا نہ سہی اپنے مسلک پر کوئی دلیل علم ہی قائم کرو لیکن یہ تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ فعل صحیح بھی ہو اس باطل فعل پر تو نہ تو تم کوئی نقلی دلیل پیش کرسکتے ہو نہ عقلی ایک قرأت میں آیت ( او اثرۃ من علم ) یعنی کوئی صحیح علم کی نقل اگلوں سے ہی پیش کرو حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیش کرو جو علم کی نقل کرے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس امر کی کوئی بھی دلیل لے آؤ مسند احمد میں ہے اس سے مراد علمی تحریر ہے راوی کہتے ہیں میرا تو خیال ہے یہ حدیث مرفوع ہے ۔ حضرت ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں مراد بقیہ علم ہے ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کسی مخفی دلیل کو ہی پیش کر دو ان اور بزرگوں سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے اگلی تحریریں ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کوئی خاص علم ، اور یہ سب اقوال قریب قریب ہم معنی ہیں ۔ مراد وہی ہے جو ہم نے شروع میں بیان کر دی امام ابن جریر نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے پھر فرماتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ کردہ نہیں جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پکارے اور اس سے حاجتیں طلب کرے جن حاجتوں کو پورا کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیں بلکہ وہ تو اس سے بھی بےخبر ہیں نہ کسی چیز کو لے دے سکتے ہیں اس لئے کہ وہ تو پتھر ہیں جمادات میں سے ہیں ۔ قیامت کے دن جب سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے تو یہ معبودان باطل اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے اور اس بات سے کہ یہ لوگ ان کی پوجا کرتے تھے صاف انکار کر جائیں گے جیسے اللہ عزوجل کا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا 81؀ۙ ) 19-مريم:81 ) ، یعنی ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عزت کا باعث بنیں ۔ واقعہ ایسا نہیں بلکہ وہ تو ان کی عبادت کا انکار کر جائیں گے اور ان کے پورے مخالف ہو جائیں گے یعنی جب کہ یہ ان کے پورے محتاج ہونگے اس وقت وہ ان سے منہ پھیر لیں گے ۔ حضرت خلیل نے اپنی امت سے فرمایا تھا آیت ( اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا ۙ مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 25؀ڎ ) 29- العنكبوت:25 ) ، یعنی تم نے اللہ کے سوا بتوں سے جو تعلقات قائم کر لئے ہیں اس کا نتیجہ قیامت کے دن دیکھ لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے انکار کر جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہاری جگہ جہنم مقرر اور متعین ہو جائے گی اور تم اپنا مددگار کسی کو نہ پاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ فواتح سورة ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے ان کے معانی و مطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں جنہیں ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] تمہیدی کلمات ہیں جن میں قرآن کا تعارف کرایا گیا ہے کہ وہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اور اس آیت کی تفسیر پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورة الزمر۔ المومن وحم السجدۃ۔ حاشیہ نمبر ١

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تنزیل الکتب من اللہ…: اس آیت کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة زمر، سورة مومن اور سورة جاثیہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝ ٢- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ” اس کتاب کا اتارا جانا ہے اس اللہ کی طرف سے جو زبردست ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “- قبل ازیں سورة الجاثیہ کی آیت ٢ کے ضمن میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سورة الجاثیہ اور سورة الاحقاف کے آغاز کی آیات مشترک ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :1 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم ، سورۃ الزمر ، حاشیہ 1 ، اور سورۃ الجاثیہ ، حاشیہ 1 ، اس کے ساتھ سورۃ السجدہ ، حاشیہ نمبر ایک بھی نگاہ میں رہے تو اس تمہید کی روح سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani