قوم عاد کی تباہی کے اسباب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کر لیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد حضرت ہود پیغمبر ہیں علیہ السلام والصلوۃ ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو احقاف میں رہتے تھے احقاف جمع ہے حقف کی اور حقف کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو ۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضر موت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی احقاف کا بیان کیا گیا ہے قتادہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شہر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے امام ابن ماجہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 66 ) 2- البقرة:66 ) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41- فصلت:13 ) ، پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہو گا ۔ جس پر قوم نے کہا کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا ۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18 ) 42- الشورى:18 ) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں ۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا ۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بےوقوف لوگ ہو اب اللہ کا عذاب آگیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے چونکہ خشک سالی تھی گرمی سخت تھی یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے اب بارش برسے گی ۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے اس میں وہ عذاب تھا جسے حضرت ہود سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے اللہ کا حکم تھا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42ۭ ) 51- الذاريات:42 ) یعنی جس چیز پر وہ گذر جاتی تھی اسے چورا چورا کر دیتی تھی ۔ پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہوگئے ایک بھی نہ بچ سکا ۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے ۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا تھا ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرا ایک کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کیا تو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور حضرت بلال تلوار لٹکائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن عاص کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا اسلام علیک کی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے آپ نے فرمایا اسے بھی اندر بلا لو چنانچہ وہ آگئیں میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کر سکتے ہیں تو اسے کر دیجئے اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ واللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہوجاؤں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجودیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا ، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آکر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے تو آیا نہیں الہٰی عادیوں کو وہ پلا جو تو نے انہیں پلانے والا ہے چنانچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کر لے چنانچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کر لیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے ۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہوگئے ۔ ابو وائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہدیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا ۔ یہ روایت ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ جیسے کہ سورہ اعراف کی تفسیر میں گذرا مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں ۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہو جاتے ۔ چنانچہ ایک روز میں نے آپ سے کہا یارسول اللہ لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہو جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہو جاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا ۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اعوذ بک من شرما فیہ ) اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے ۔ پس اگر کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے ( اللھم صیبا نافعا ) اے اللہ اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے ( اللھم انی اسألک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واعوذ بک من شرھا ما فیھا وشر ما ارسلت بہ ) یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کے یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں ۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا کبھی اندر کبھی باہر آتے کبھی جاتے ۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہو جاتی ۔ حضرت عائشہ نے اسے سمجھ لیا اور آپ سے ایک بار سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا ۔ سورہ اعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور حضرت ہود کا پورا واقعہ گذر چکا ہے اس لئے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے ( فللہ الحمد والمنہ ) طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آرہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن یہ جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہو گئے ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔
21۔ 1 احقاف حقف کی جمع ہے ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد اولی کے علاقے کا نام ہے جو حضرموت (یمن) کے قریب تھا کفار کہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ 21۔ 2 یوم عظیم سے مراد قیامت کا دن ہے، جسے اس کی ہولناکیوں کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔
[٣٣] یہاں قوم عاد کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قریشی سرداروں سے بھی زیادہ مغرور، متکبر اور سرکش تھے۔ یہ قوم کفار مکہ کی نسبت قدوقامت، ڈیل ڈول اور جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی بہت بڑھ کر تھی۔- [٣٤] احقاف قوم عاد کا مسکن :۔ احقاف، حقف کی جمع ہے۔ بمعنی ریت کے بڑے بڑے میلوں میں پھیلے ہوئے ٹیلے۔ یہی علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا۔ جو کسی زمانہ میں سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ قوم عاد نے اسی جگہ زمین دوز مکان بنا رکھے تھے۔ یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضرموت کے شمال میں واقع ہے۔ اور آج کل وہاں ریت ہی ریت کے ٹیلے ہیں جو سینکڑوں میل تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اس علاقہ کو آج کل ربع خالی بھی کہتے ہیں۔ کوئی شخص اس صحرا میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ اور جو چیز اس ریت میں گرپڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ جیسے کوئی چیز نمک کی کان میں گرپڑے تو وہ بھی نمک ہی بن جاتی ہے۔- [٣٥] اس علاقہ میں ہود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی نبی آئے تھے اور بعد میں آتے رہے۔ ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ ہی کائنات کا اور تمہارا خالق اور مالک ہے۔ لہذا وہی ہستی عبادت کے لائق ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کیونکہ اور کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اللہ کا حکم نہ مانا، شرک اور اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا۔
(١) واذکرا اخاعاد :” اذکر “ ” ذکر “ سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنی قوم کے سامنے اس کا ذکر کرو، تاکہ انہیں نصیحت ہو اور اگر ” ذکر “ سے ہو تو مطلب یہ ہے کہ اسے یاد کرو، تاکہ تمہیں اس سے تسلی حاصل ہو۔ دونوں باتیں بیک وقت بھی مراد ہوسکتی ہیں، کیونکہ ” اذکر “ دونوں سے فعل امر ہے۔ قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کا حال بیان کرنے کے بعد دنیا میں چند متکبر اقوام کا ذکر فرمایا، جن میں سے عاد کا ذکر کچھ تفصیل کے ساتھ اور دوسری اقوام کا حال آیت (٢٧) (ولقد اھلکنا ماحولکم من القری) میں اجمال کے ساتھ بیان فرمایا۔ عاد کے بھائی سے مراد ہود (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ فرمایا :(والی عاد اخاھم ھوداً (الاعراف : ٦٥)” اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا۔ ) “ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٦٥) کی تفسیر۔ ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی اس لئے فرمایا کہ وہ ان کے ایک فرد تھے۔ عاد کا تفصیلی ذکر اس لئے فرمایا کہ عرب اقوام میں سے یہ پہلی قوم ہے جس کے پاس نوح (علیہ السلام) کی عام رسالت کے بعد کوئی رسول آیا۔ ہود اور صالح علیہ اسلام کا زمانہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ سرداران قریش جو اپنی بڑائی کا زعم کا زعم رکھتے تھے، انہیں قوم عاد کا قصہ سنایا جو ان کی سر زمین کی سب سے طاقتور قوم تھی۔- (٢) اذا نذر قومہ بالاحقاف :” الاخقاف “ ” حفق “ کی جمع ہے، ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو ” حقف “ کہتے ہیں، جو کچھ ٹیڑھا ہو۔” احقوقف الشی “ جب کوئی چیز ٹیڑھی ہو۔ یہاں ” احقاف “ سے مراد یمن کے مشرق میں حضر موت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم وہاں آباد تھی اور اس زمانے میں وہ نہایت نرخیز اور ترقی یافتہ علاقہ تھا، جس میں چشمے ، باغات اور مال مویشی کثرت کے ساتھ موجود تھے، جیسا کہ سورة شعراء (١٣٢ تا ١٣٤) میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے بعد وہ علاقہ ایسا برپا ہوا کہ اب تک وہاں آبادی کا نام و نشان نہیں، ہر طرف ریگستان ہے اور ریت کے لمبے چوڑے ٹیلے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے کو ” احقاف “ اس کی موجودہ حالت کے اعتبار سے کہا گیا ہے۔- تفہیم القرآن میں ہے :” احقاف کی موجودہ حالت دیھک کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہوگی۔ اغلب یہ ہے کہ ہز اورں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہوگا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنادیا ہوگا۔ آج اس کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے، جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔ ١٨٤٣ ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ حضر موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑا ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فٹ نشیب میں نظر آتا ہے، اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جن میں اگر کوئی چیز گرجائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ عرب کے بدو اس علاقے سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے، میں نے دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہوگیا اور اس رسی کا سرا گل گیا جس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا۔ مفصل معلومات کے لئے ملاحظہ ہو :- 1946.- . 1937.- . . 1933. - (٣) وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفۃ…:” اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے گزرے اور ان کے بعد بھی اپنی اپنی قوم کو ڈرانے والے کئی پیغمبر گزر چکے، سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ڈرانے والوں کا ذکر اس لئے فرمایا کہ بشارت ماننے والوں کو دی جاتی ہے۔ اس سورت کی ابتدا بھی اسی بات سے ہوئی ہے، فرمایا :(والذین کفروا عما انذوا تعرضون) (الاحقاف : ٣)” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے ، منہ پھیرنے والے ہیں۔ “- (٤) انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم :” عظیم “” یوم “ کی صفت ہے۔ اس عظیم دن سے مراد آخرت کا دن بھی واقعات کی وجہ سے عظیم کہا ہے جو اس میں واقع ہوں گے۔
خلاصہ تفسیر - اور آپ قوم عاد کے بھائی (یعنی ہود علیہ السلام) کا (ان سے) ذکر کیجئے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو جو کہ ایسے مقام پر رہتے تھے کہ وہاں ریگ کے مستطیل خمدار تو دے تھے (یہ مقام کی نشان دہی اس لئے کی گئی کہ دیکھنے والوں کے ذہن میں استحضار ہوجائے) اس (بات) پر (عذاب الٰہی سے) ڈرایا کہ تم خدا کے سوا کسی کی عبادت مت کرو (ورنہ تم پر عذاب نازل ہوگا) اور (یہ ایسی ضروری اور صحیح بات ہے کہ) ان (ہود علیہ السلام) سے پہلے اور ان کے پیچھے (اسی مضمون کے متعلق) بہت سے ڈرانے والے (پیغمبر اب تک) گزر چکے ہیں (اور عجب نہیں کہ ہود (علیہ السلام) نے ان سب کا متفق ہونا دعوت الی التوحید میں ان کے سامنے بیان بھی کیا ہو، پس جملہ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ کا بیچ میں بڑھا دینا ان فوائد کے لئے ہے کہ مضمون دعوت کی تاکید ہوجائے اور ہود (علیہ السلام) نے انداز میں یہ فرمایا کہ) مجھ کو تم پر ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (اگر اس سے بچنا ہے تو توحید قبول کرلو) وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس ارادے سے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے پھیر دو سو (ہم تو پھرنے والے ہیں نہیں باقی) اگر تم سچے ہو تو جس (عذاب) کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو اس کو ہم پر واقع کردو۔ انہوں نے فرمایا کہ پورا علم تو خدا ہی کو ہے ( کہ عذاب کب تک آوے گا) اور مجھ کو تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا ہے میں تم کو وہ پہنچا دیتا ہوں (چنانچہ اس میں مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ تم پر عذاب آوے گا میں نے تم کو اطلاع کردی، اس سے زیادہ نہ مجھ کو علم ہے اور نہ قدرت) لیکن میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نری جہالت کی باتیں کرتے ہو (کہ ایک تو توحید کو قبول نہیں کرتے پھر اپنے منہ سے بلا مانگتے ہو، پھر مجھ سے اس کی فرمائش کرتے ہو۔ البتہ اپنے صدق کا میں مدعی ہوں جس پر دلیل قائم کرچکے ہیں اور جس واقعہ میں تم کو شبہ ہے اس کا وقت وقوع مجھ کو نہیں بتلایا گیا ہاں نفس وقوع کو جب اللہ چاہے دیکھ لیتا ہے غرض جب کسی طرح انہوں نے حق کو قبول نہ کیا تو اب عذاب کا اس طرح سامان شروع ہوا کہ اول ایک بادل اٹھا) سو ان لوگوں نے جب اس بادل کو اپنی وادیوں کے مقابل آتا دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا (ارشاد ہوا کہ) نہیں (برسنے والا بادل نہیں) بلکہ یہ وہی (عذاب) ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے (کہ وہ عذاب جلدی لاؤ اور اس بال میں) ایک آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے وہ (آندھی) ہر چیز کو (جس کے ہلاک کرنے کا حکم ہوگا) اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دیگی چناچہ ( وہ آندھی) ہر چیز کو جس کے ہلاک کرنے کا حکم ہوگا) اپنے رب کے حکم سے ہلاک کر دیگی چناچہ (وہ آندھی چھٹتی اور آدمیوں کو اور مواشی کو اٹھا اٹھا کر پٹک دیتی تھی جس سے) وہ ایسے (تباہ) ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ (آدمی اور حیوان) نہ دکھلائی دیتا تھا، ہم مجرموں کو یوں ہی سزا دیا کرتے ہیں اور ہم نے ان کو (یعنی قوم عاد کے) لوگوں کو ان باتوں میں قدرت دی تھی کہ تم کو ان باتوں میں قدرت نہیں دی (مراد ان باتوں سے وہ تصرفات ہیں جو قوت جسمانی و مالی پر موقوف ہیں) اور ہم نے ان کو کان اور آنکھ اور دل (سب ہی کچھ) دیئے تھے، سو چونکہ وہ لوگ آیات الہیہ کا انکار کرتے تھے اس لئے (جب ان پر عذاب آیا ہے تو) نہ ان کے کان ان کے ذرا کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل اور جس (عذاب) کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا (یعنی نہ ان کے حواس ان کو عذاب سے بچا سکے اور نہ ان کی تدبیر جس کا ادراک قلب سے ہوتا ہے، نہ ان کی قوت پس تمہاری تو کیا حقیقت ہے)
وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍ ٠ ۭ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ ٠ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ٢١- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - حقف - قوله تعالی: إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقافِ [ الأحقاف 21] ، جمع الحِقْف، أي : الرمل المائل، وظبي حاقف : ساکن للحقف، واحْقَوْقَفَ : مال حتی صار کحقف، قال : سماوة الهلال حتی احقوقفا ( ح ق ف) الحقف منحنی تو وہ ریت اسکی جمع احقاف ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقافِ [ الأحقاف 21] کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی ۔ ظبی حاقب وہ ہرن جو ریت کے تو دوں میں رہتا ہو ۔ احقوقف ۔ مائل ہو کر ریت کے تو وہ کی طرح ہوجانا شاعر نے کہا ہے ع ( رجز) (115) سماوۃ الھلال حتی احقوقفا چاند کو راتیں تدریجا کم کرتی رہتی ہیں حتی کہ وہ کمان کی طرح خمیدہ ہوکر رہ جاتا ہے ۔- خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي :- موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي :- قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة .- ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا،- بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اور آپ کفار مکہ کے سامنے حضرت ہود کا تذکرہ کیجیے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو دوزخ کی سختیوں سے ڈرایا یا یہ کہ احقاف میں یا شام میں ایک پہاڑ سے یا یہ کہ احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں وہاں یہ قوم آباد تھی یا یہ کہ یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت ہود نے کھڑے ہو کر اپنی قوم کو ڈرایا۔ حالانکہ حضرت ہود سے پہلے اور ان کے بعد بہت سے نبی گزر چکے ہیں۔ حضرت ہود نے ان سے فرمایا کہ اللہ کے علاوہ اور کسی کی وحدانیت کے مت قائل ہو اور یہ کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر سخت دن کا عذاب آئے گا۔
آیت ٢١ وَاذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ ” اور ذرا تذکرہ کیجیے قوم عاد کے بھائی (ہود ( (علیہ السلام) ) کا ‘ جب اس نے خبردار کیا اپنی قوم کو احقاف میں “- جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی ساحلی علاقے کو پرانے زمانے میں ” احقاف “ کہا جاتا تھا جہاں قوم عاد آباد تھی ‘ اب یہ علاقہ لق و دق صحرا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔- وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖٓ ” اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی بہت سے خبردار کرنے والے گزر چکے تھے “- یعنی ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے ۔ - ۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے بارے میں قبل ازیں بھی کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کسی قوم میں پہلے بہت سے انبیاء (علیہ السلام) بھیجے جاتے تھے اور پھر آخر میں اتمامِ حجت کے لیے ایک رسول (علیہ السلام) کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ وہ سب کے سب ایک ہی دعوت دیتے تھے۔- اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ” کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اللہ کے “- اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ” مجھے اندیشہ ہے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا۔ “
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :25 چونکہ سرداران قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت و مشیخت پر پھولے نہ سماتے تھے ، اس لیے یہاں ان کو قوم عام کا قصہ سنایا جا رہا ہے ۔ جس کے متعلق اگر قدیم زمانہ میں وہ اس سرزمین کی سب سے زیادہ طاقتور قوم تھی ۔ احقاف حِقف کی جمع ہے اور اس کے لغوی معنی ہیں ریت کے لمبے لمبے ٹیلے جو بلندی میں پہاڑوں کی حد کو نہ پہنچے ہو ۔ لیکن اصلاحاً یہ صحرا عرب ( الربع الخالی ) کے جنوبی مغربی حصے کا نام ہے جہاں آج کوئی آبادی نہیں ہے ۔ نقشے میں اس کا مقام ملاحظہ ہو ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ عاد کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلا ہوا تھا اور قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا اصل وطن الاحقاف تھا جہاں سے نکل کر وہ گرد و پیش کے ممالک میں پھیلے اور کمزور ممالک پر چھا گئے ۔ آج کے زمانے تک بھی جنوبی عرب کے باشندوں میں یہی بات مشہور ہے کہ عاد اسی علاقہ میں آباد تھے ۔ موجودہ شہر مکلا سے تقریباً 125 میل کے فاصلہ پر شمال کی جانب حضر موت میں ایک مقام ہے جہاں لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کا مزار بنا رکھا ہے اور وہ قبر ہود علیہ السلام کے نام ہی سے مشہور ہے ۔ ہر سال 15 شعبان کو وہاں عرس ہوتا ہے اور عرب کے مختلف حصوں سے ہزاروں آدمی وہاں جمع ہوتے ہیں ۔ یہ خبر اگرچہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے ، لیکن اس کا وہاں بنایا جانا اور جنوبی عرب کے لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنا کم از کم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مقامی علاقہ سے اسی علاقہ کو قوم عاد کا علاقہ قرار دیتی ہے اس کے لیے حضر موت میں متعدد خرابے ( ) ایسے ہیں جن کو مقامی باشندے آج تک دارِ عاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ الاحقاف کی موجودہ حالت دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں ایک شاندار تمدن رکھنے والی ایک طاقتور قوم آباد ہو گی ۔ اغلب یہ ہے کہ ہزاروں برس پہلے یہ ایک شاداب علاقہ ہو گا اور بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنا دیا ہو گا ۔ آج اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک لق و دق ریگستان ہے جس کے اندرونی حصوں میں جانے کی بھی کوئی ہمت نہیں رکھتا ۔ 1843ء میں بویریا کا ایک فوجی آدمی اس کے جنوبی کنارے پر پہنچ گیا تھا ۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت موت کی شمالی سطح مرتفع پر سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو یہ صحرا ایک ہزار فیٹ نشیب میں نظر آتا ہے اس میں جگہ جگہ ایسے سفید خطے ہیں جس میں اگر کوئی چیز گر جائے تو ریت میں غرق ہوتی چلی جاتی ہے اور بالکل بوسیدہ ہو جاتی ہے ۔ عرب کے بدو اس علاقہ سے بہت ڈرتے ہیں اور کسی قیمت پر وہاں جانے پر راضی نہیں ہوتے ۔ ایک موقع پر جب بدو اسے وہاں لے جانے پر راضی نہ ہوئے تو وہ اکیلا وہاں گیا ۔ اس کا بیان ہے کہ یہاں کی ریت بالکل باریک سفوف کی طرح ہے ۔ میں نے دور سے ایک شاقول اس میں پھینکا تو وہ پانچ منٹ کے اندر اس میں غرق ہو گیا اور اسی رسی کا سرا گل گیا ۔ اس کے ساتھ وہ بندھا ہوا تھا ۔ مفصل معلومات کے لیے ملاحظہ ہو: 1946 . . 1937. 1933
13: قرآن کریم میں اصل لفظ احقاف ہے۔ یہ حقف کی جمع ہے جو لمبے مگر خم دار ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں جس جگہ قوم عاد آباد تھی، وہاں اسی قسم کے ٹیلے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سرزمین کا نام ہی احقاف تھا اور یہ یمن کے علاقے میں واقع تھی، آج یہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا، اور ان کا تعارف پیچھے سورۃ اعراف : 65 کے حاشیے میں گذر چکا ہے۔