Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے بعض نے یعرضون کے معنی یعذبون کے کیے ہیں اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی تعرض النار علیھم (فتح القدیر) 20۔ 2 طیبات سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت و فرحت محسوس کرتے لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے جیسے مومن کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الہی کی اطاعت کر کے شکر الہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے لیکن فکر آخرت سے بےنیازی کے ساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے چناچہ مومن کو تو اس کے شکر و اطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ ان سے بدرجہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔ 20۔ 3 ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بےخوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہیئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے :۔ کافروں اور آخرت کے منکروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص رفاہ عامہ کے لیے کوئی ہسپتال یا اس کا کوئی کمرہ بنواتا ہے۔ تو اس سے اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی سخاوت کی شہرت ہو اور لوگ اس کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ تو یہ بدلہ اسے دنیا میں مل جاتا ہے۔ اس کے نام کا کتبہ ہسپتال کے کمرہ کے باہر لگا دیا جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ کسی دوسرے کی طرف سے اخبارات و رسائل میں اشتہار یا خبر بھی شائع کرا دی جاتی ہے اس طرح اسے وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے اس نے یہ اچھا کام کیا تھا۔ غرضیکہ ایسے کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مال و اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔ رہا آخرت میں اجر کا معاملہ تو یہ نہ ان کا مطلوب تھا اور نہ ہی اسے یہ مل سکے گا اور انہیں واضح طور یہ بتادیا جائے گا کہ تم اپنے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو۔ لہذا آج تمہارے لیے کچھ نہیں۔- دنیا میں مال و دولت کی فراوانی، اولاد، عزت اور تندرستی وغیرہ نعمتیں کافروں کو ہی نہیں ملتیں۔ اللہ کے نیک بندوں کو بھی ملتی ہیں اور مل سکتی ہیں۔ مگر ان کا انداز فکر اور ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق کافروں اور آخرت کے منکروں سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- مومنوں کا انداز فکر :۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) کے بیٹے ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک دن عبدالرحمن بن عوف (ان کے والد) نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ شام کے وقت روزہ افطار کرنے کے لیے جب ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو (کھانے کی نعمتیں دیکھ کر) کہنے لگے۔ مصعب بن عمیر (احد کے دن) شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے اچھے تھے۔ ایک ایسی چادر میں ان کو کفن دیا گیا کہ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا رہ جاتا تھا اور حمزہ بن عبدالمطلبص بھی اسی دن شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر اس کے بعد ہم لوگوں کو آسودگی اور فراوانی دی گئی اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب جلدی سے ہمیں دنیا میں نہ مل گیا ہو۔ پھر اس کے بعد رونے لگے اور اتنا روئے کہ کھانا بھی نہ کھایا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد)- [٣٢] یعنی بلاوجہ تم دنیا میں اکڑتے تھے۔ احکام الٰہی کو تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھتے تھے اور ایماندار لوگوں کو ذلیل سمجھتے تھے۔ لہذا آج تمہاری اکڑ توڑ دی جائے گی اور نافرمانی کے بدلے تمہیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور دوسروں کو ذلیل سمجھنے کے بدلے تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا تاکہ جہنمی بھی تمہیں ذلیل مخلوق سمجھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ویوم یعرض الذین کفروا علی النار : پچھلی آیات سے اس کا ربط دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ والدین سے بدسلوکی کرنے والے قیامت کے منکر کے انجام کے ذکر کے بعد تمام کفار کا انجام بیان فرمایا۔ دو سرا یہ کہ پچھلی آیت میں ذکرہوا کہ مومن ہوں یا کافر سب کو ان کے اعمال کے مطابق جزا ملے گی اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا، تو اب اس سوال کا جواب دیا کہ کفار دنیا میں جو نیکیاں کرتے رہے ان کا کیا بنے گا ؟ کم از کم ان کا بدلا تو ضرور ملنا چاہیے، اگر انہیں ان کی جزا نہ دی گئی تو یہ ظلم ہے۔ فرمایا اس وقت کو یاد کرو جب وہ لوگ جنہوں نے حق قبول کرنے سے انکار کیا، آگ پر پیش کئے جائیں گے۔- (٢) اذھبتم طیبتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا : کفار چونکہ اپنے تکبر اور فسق کی وجہ سے ایمان قبول کرنے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی آخرت ان کا مقصود ہوئی ہے، اس لئے انہیں ان کے نیک اعمال کا بدلا دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ ان میں سے جو اعمال انہوں نے دنیا کے کسی مفاد مثلاً شہرت وغیرہ کے لئے کئے تھے ان کا تو آخرت سے کوئی تعلق ہی نہیں، البتہ جو اعمال انہوں نے اللہ کے لئے کئے ہوتے ہیں ان کا بدلا بھی انہیں یہیں دنیا میں دے دیا جاتا ہے، جو اور کچھ نہ ہو تو اتنا ہی بہت زیادہ ہے کہ ان کے کفر و شریک پر فوری گرفت نہیں ہوتی، بلکہ انہیں مہلت دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ یہ کہ انہیں دنیا کی کئی نعمتیں بھی دی جاتی ہیں۔ دیکھیے ہود : ١٥، ١٦) اسن (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ لایظلم مومنا حسنۃ یعطی بھا فی الدنیا و یجزی بھا فی الاخرۃ واما الکافر فیطعم بحسنات ما عمل بھا للہ فی الدنیا حتی اذا اقصی الی الاخرہ لم تکن لہ خسنۃ یجزی بھا) (مسلم ، صفات المنافقین، باب جزاء المومن بحسناتہ فی الدنیا والاخرۃ…“ 2808)” اللہ تعالیٰ کسی مومن کی کسی ایک نیکی میں بھی کمی نہیں کرے گا، اسے اس کے عوض دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جائے گی۔ رہا کافر تو اسے ان نیکیوں کے عوض جو اس نے اللہ کے لئے کی ہوتی ہیں دنیا میں کھلایا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوگی جس کی اسے جزا دی جائے۔ “- (٣) فالیوم تجرون عذاب الھون بما کنتم تشکئرون…: اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا اس نیکی یا بدی کی مناسبت سے دی جائے گی، جیسا کہ روزہ داروں کے لئے ” باب الریان “ سے داخلہ ہوگا۔ تو کافر کو ذلیل کرنے والا عذاب اس تکبر کی مناسبت سے ہوگا جو انہوں نے کیا، وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے، ان کی عزت انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، لا محالہ انہیں ایسا عذاب دیا جائے گا جو ان کے تکبر کا بدلا ہو۔ قیامت کے بعض مواقع میں ان کی ذلت کا نقشہ اس حدیث میں بیان ہوا جو عبداللہ بن عمرو (رض) نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : الی سجن فی جھنم یسمی بولس تعلوھم نار الانیار یسقون من عصارۃ اھل النار طیۃ الخیال) (ترمذی، صفۃ القیامۃ ، باب ما جاء فی شدۃ الوعید للمتکبرین :2392، قال الالبانی حسن)” متکبر لوگ قیامت کے دن آدمیوں کی شکل میں چیونٹیوں کی طرح اٹھائی جائیں گے، ہر جگہ سے ذلت انہیں ڈھانپ رہی ہوگی۔ پھر انہیں ہانک کر جہنم کے ایک قید خانے ک طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ” بولس “ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہوگی۔ انہیں جہنمیوں کا نچوڑ پلایا جائے گا، جو تباہ کن کیچڑ ہوگا۔ “ رہی یہ بات کہ تکبر کیا ہے ؟ تو اس کی تفصیل عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر، قال رجل ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسناً ونعلہ حسنۃ ، ق ال ان اللہ جمیل یحب الجمال، الکبر بطر، الحق و غمط الناس) (مسلم، الایمان، باب تحریم الکبر و بیانہ :91)” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا وہ (تو کیا یہ تکبر ہے) ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بیشک اللہ جمیل ہے ، جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کو ٹھکرا دینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ “- (٤) تستکبرون فی الارض :” تم زمین میں بڑے بنتے تھے “ اگرچہ بڑائی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا حق نہیں خواہ وہ زمین میں ہو یا آسمانوں میں، مگر زمین کے رہنے والوں کو تو بدرجہ اولیٰ اپنی حیثیت مدنظر رکھنی چاہیے۔ پستی کے مکین کو بلندی کی ہو س کسی طرح بھی زیب نہیں دیتی، فرمایا :(ولا تمش فی الارض مرحاً ، انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولاً ) (بنی اسرائیل :38)” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک تو نہ کبھی زمین کو پھاڑے گا اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔ - (٥) بغیر الحق : کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اس کی صراحت اس لئے فرمائی کہ تکبر اللہ کے سوا کسی کا حق ہے ہی نہیں جو بھی تکبر کرتا ہے ناحق کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ناحق تکبر حرام ہے، جس کا ذکر اوپر گزرا، البتہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے کفار کے مقابلے میں تکبر حق ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔- (٦) وبما کنتم تفسقون : استکبار سے مراد ایمان سے انکار اور فسق سے مراد دوسرے گناہ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذلت کے عذاب کے دو سبب ہوں گے۔ ایک زمین میں ناحق تکبر، یعنی ایمان لانے سے انکار اور دوسرا فسق، یعنی معاصی اور نافرمانیاں اور یہ دونوں کفار کا شیوہ ہیں، مسلمانوں کا و اس سے پناہم انگنی چاہیے۔- (٧) واضح رہے کہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو دنیا کی نعمتیں کم از کم استعمال کرنی چاہئیں، تاکہ اس کی آخرت کی نعمتوں میں کمی نہ ہو اور یہاں عمر بن خطاب (رض) اور دوسرے صحابہ کے زہد اور سادہ زندگی اور دنیا کی لذتوں سے اجتناب کے واقعات لکھے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں ہے ہی نہیں۔ اس کا تعلق کفار سے ہے۔ کفار کے لئے صرف دنیا کی نعمتیں ہیں جبکہ ایمان والوں کے لئے دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں ہیں، جیسا کہ فرمایا :(قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق، قلھی للذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا خالصۃ یوم القیمۃ) (الاعراف : ٢٢)” تو کہہ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں ؟ کہہ دے یہ چیزیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں (بھی ) ہیں، جبکہ قیامت کے دن (ان کے لئے ) خالص ہوں گی۔ “ مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلا دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملتا ہے، جیسا کہ اس آیت کے فائدہ (٢) میں حدیث گزری ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کا دنیا کی لذتوں سے اجتناب اس آیت کی بنا پر نہ تھا، کیونکہ یہ کفار کے لئے ہے، ان کا اجتناب اس لئے تھا کہ وہ دنیا کی لذتوں میں منہمک ہو کر آخرت سے غافل نہ ہوجائیں اور اس صبر و زہد پر انہیں زیادہ ثواب حاصل ہو۔ (خلاصہ اضواء لبیان)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا یعنی کفار کو خطاب کر کے یہ کہا جائے گا کہ تم نے اگر کچھ اچھے کام دنیا میں کئے تھے تو ان کا بدلہ بھی تمہیں دنیوی نعمتوں اور عیش و عشرت کی صورت میں دیا جا چکا ہے اب آخرت میں تمہارا کچھ حصہ باقی نہیں رہا۔ یہ خطاب کفار کو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے نیک اعمال جو ایمان نہ لانے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک مقبول نہیں آخرت میں تو ان کی کوئی قیمت نہیں مگر دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کا بدلہ اس کو دیدیتے ہیں۔ کفار فجار کو مال و دولت اور عزت وجاہت وغیرہ جو دنیا میں ملتا ہے وہ ان کے نیک اعمال، سخاوت، ہمدردی، سچائی وغیرہ کا بدلہ ہوتا ہے۔ مؤمنین کے لئے یہ حکم نہیں ہے کہ اگر ان کو دنیا میں کوئی نعمت مال و دولت وغیرہ مل جائیں تو آخرت کے حق سے محروم ہوجائیں۔- لذائذ دنیا اور تنعم سے پرہیز کی ترغیب :۔ اس آیت میں کفار کو عتاب و عقاب ان کے دنیوی لذتوں میں منہمک رہنے کی بناء پر کیا گیا۔ اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ وتابعین نے لذائذ دنیا کو ترک کرنے کی عادت بنا لی جیسا کہ ان کی سیرت اس پر شاہد ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کے وقت یہ وصیت فرمائی تھی کہ دنیا کے تنعم سے پرہیز کرتے رہنا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تھوڑا رزق لینے پر راضی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتے ہیں۔ (مظہری عن البغوی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَي النَّارِ۝ ٠ ۭ اَذْہَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا۝ ٠ ۚ فَالْيَوْمَ تُجْـزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْـتَكْبِرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ۝ ٢٠ ۧ- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- اسمااع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا۔ تم اپنی لذت کی سی چیزیں دنیا ہی میں حاصل کرچکے اور ان کا خوب لطف اٹھا چکے) زہری نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : اللہ کے رسول اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کے لئے کشادگی اور وسعت پیدا فرمادے، اس نے آخر فارس اور روم کے لوگوں کے لئے زندگی کی کشائش اور وسعت پیدا کررکھی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی عبادت نہیں کرتے۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیٹے ہوئے تھے یہ سن کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ۔ خطاب کے بیٹے کیا ابھی بھی تمہیں شک ہے۔ ان لوگوں کو دنیاوی زندگی میں فوری طور پر جو کچھ دینا تھا دے دیا گیا تھا۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب (رض) نے فرمایا : ” اگر میں دنیا ہی میں لذت کی تمام چیزیں حاصل کرلینا چاہتا تو میں بکری کا ایک پلا ہوا بچہ دودھ میں پکانے کے لئے کہتا، “ معمر نے کہا کہ قتادہ نے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ فرمایا تھا۔ اگر میں چاہتا کہ میری خوراک تم سب کی خوراک سے اچھی اور میرا لباس تم سب کے لباس سے نرم عمدہ ہو تو میں اس کا اہتمام کرسکتا تھا لیکن میں ان لذتوں کو آخرت کے لئے چھوڑنا چاہتا ہوں۔- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے بیان کیا ہے کہ عراق میں سے کچھ لوگ حضرت عمر (رض) کے پاس آئے۔ آپ نے ان کے سامنے کھانا رکھا۔ آپ نے محسوس کیا کہ یہ لوگ کھانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا عراق والو اگر میں چاہتا کہ میرے گھر میں بھی اسی طرح عمدہ کھانے تیار ہوا کریں جس طرح تمہارے گھروں میں پکتے ہیں تو میں ایسا کرسکتا تھا لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنی دنیاوی لذات کو آخرت کے لئے باقی رہنے دیں۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کا یہ قول افضلیت پر محمول ہے، اس پر محمول نہیں ہے کہ آپ دنیاوی لذات سے فائدہ اٹھانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اباحت کردی ہے اس لئے ان لذات سے فائدہ اٹھانے والا ممنوع کام کا مرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا۔- قول باری ہے (قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق۔ آپ کہہ دیجئے ، کس نے زیب وزینت کی چیزوں اور پاکیزہ رزق کو حلال کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے جب کفار دوزخ کے سامنے لائے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اپنی نیکیوں کا ثواب یعنی لذت دنیا میں حاصل کرچکے اور ان نعمتوں سے خوب فائدہ حاصل کرچکے تو آج تمہیں سخت ترین عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم ایمان لانے سے ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے کہ تم دنیا میں کفر و گناہ کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلَی النَّارِ ” اور جس دن یہ کافر پیش کیے جائیں گے آگ پر۔ “- اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰتِکُمْ فِیْ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا ” (اُس وقت ان سے کہا جائے گا : ) تم اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے اور ان سے تم نے خوب فائدہ اٹھا لیا۔ “- تم دنیا میں خوب عیش کرچکے ہو ‘ حلال و حرام کی تمیز سے بالاتر ہو کر تم نے وہاں بہت مزے اڑائے ہیں۔- فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ ” تو آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا بسبب اس تکبر کے جو تم زمین میں ناحق کرتے رہے ہو اور بسبب ان نافرمانیوں کے جو تم کرتے رہے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :24 ذلت کا عذاب اس تکبر کی مناسبت سے ہے جو انہوں نے کیا ۔ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ رسول پر ایمان لا کر غریب اور فقیر مومنوں کے گروہ میں شامل ہو جانا ان کی شان سے گری ہوئی بات ہے ۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ جس چیز کو چند غلاموں اور بے نوا انسانوں نے مانا ہے اسے ہم جیسے بڑے لوگ مان لیں گے تو ہماری عزت کو بٹہ لگ جائے گا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: یعنی اگر تم نے دنیا میں کچھ اچھے کام کیے بھی تھے تو ہم نے دنیا ہی میں ان کا بدلہ عیش و عشرت کی شکل میں تمہیں دے دیا، اور تم نے اس کے مزے اڑا کر اپنا حصہ دنیا ہی میں لے لیا۔