19۔ 1 مومن اور کافر دونوں کا ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کے پست ترین درجوں میں ہوں گے۔ 19۔ 1 گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور نیکوکار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔
[٣٠] نیک لوگوں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ نہ دیا جائے یا کم دیا جائے۔ اور مجرموں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں جرم سے زیادہ سزا دے ڈالی جائے یا مجرموں کو سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا جائے غرضیکہ ظلم کی کوئی بھی صورت وہاں ممکن نہ ہوگی۔
ولکل درجت مما عملوا…: اس آیت سے پہلے مضمون کی تاکید مقصود ہے، یعنی ہر ایک کو وہ مومن ہو یا کافر، اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا ملے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ بروں پر ایسے گناہ لا د دیئے جائیں جو انہوں نے کئے ہوں، یا نیکوں کو ان کی نیکی سے محروم کردیا جائے۔ واضح رہے یہاں مومن و کافر سب کے لئے ” جرجت “ کا لفظ غلیبا استعمال ہوا ہے ، ورنہ تو اصل میں منازل جنت کو ”’ رجات “ اور منازل جہنم کو ”” رکات “ کہا جاتا ہے، جس طرح منافقوں کے بارے میں ” فی الدرک الاسفل من النار “ آیا ہے۔ (روح المعانی)
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ٠ ۚ وَلِيُوَفِّيَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ١٩- درج - الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] - ( د ر ج ) الدرجۃ - : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدلاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزالہ رفیع یعنی - بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
مسلمانوں اور کافروں میں سے ہر ایک فریق کے لیے ان کے اعمال دنیویہ کی وجہ سے الگ الگ درجے ہیں، چناچہ مسلمانوں کے لیے جنت اور کفار کے لیے دوزخ میں درجے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ سب کو ان کے اعمال کی جزا پوری کردے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہوگا کہ ان کی نیکیوں میں کمی اور گناہوں میں اضافہ کردیا جائے۔
آیت ١٩ وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ” اور ہر ایک کے لیے درجے (اور مقامات) ہوں گے ان کے اعمال کے اعتبار سے ۔ “- وَلِیُوَفِّیَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ” اور تاکہ وہ پورا پورا دے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ “
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :23 یعنی نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اور قربانیاں ضائع ہوں گی اور نہ برے لوگوں کو ان کی برائی سے بڑھ کر سزا دی جائے گی ۔ نیک آدمی اگر اپنے اجر سے محروم رہ جائے ، یا اپنے حقیقی استحقاق سے کم اجر پائے تو یہ بھی ظلم ہے ، اور برا آدمی اپنے کیے کی سزا نہ پائے یا جتنا کچھ قصور اس نے کیا ہے اس سے زیادہ سزا پائے تو یہ بھی ظلم ہے ۔