28۔ 1 یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے تھے انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ وہ اس موقعے پر آئے ہی نہیں بلکہ گم رہے اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بتوں کو الہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں بارگاہ الہی میں قرب کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے اللہ نے اس وسیلے کو یہاں افک اور افتراء قرار دے کر واضح فرما دیا کہ یہ ناجائز اور حرام ہے۔
[٤٠] اہل مکہ کے ارد گرد کسی زمانہ میں ایسی بیشمار بستیاں آباد تھیں۔ جو اب تباہ و برباد ہوچکی تھیں۔ انہیں وہ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے تھے اور اگر چاہتے تو ان سے عبرت بھی حاصل کرسکتے تھے۔ ان قوموں کا سب سے بڑا اور مشترکہ جرم یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کئی ایسے الٰہ بنا رکھے تھے جن کے متعلق ان کا یہ گمان تھا کہ وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام آتے ہیں۔ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرتے ہیں اور یہ اللہ کے ہاں ہماری فریادیں پہنچانے اور ہمیں اللہ کے قریب کردینے کا ذریعہ ہیں۔ پھر چاہئے تو یہ تھا کہ جب اسی جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آیا کہ اس مصیبت میں وہ ان کی مدد کو پہنچتے۔ مگر کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اللہ کا عذاب آیا تو ان معبودوں کے شیدائی پرستاروں کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ یہی تو اپنے معبودوں کو پکارنے کا وقت ہے۔ اس سے زیادہ مشکل اور کون سا وقت ہوگا۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جو افسانے ان لوگوں نے اپنے معبودوں کی دھاک بٹھانے کے لیے تراش رکھے تھے سب جھوٹ ہی جھوٹ تھے۔
(١) فلولا نصرھم الذین اتخذوا …:” قرباناً “ حال ہے یا مفعول لہ ہے، ترجمہ مفعول لہ کے مطابق کیا گیا ہے، اہل مکہ اور ان کے اردگرد کی قوموں کا سب سے بڑا اور مشترکہ جرم یہ تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا کئی ایسے الہ بنا رکھے تھے جن کے متعلق وہ سمجھتے تھے کہ وہ مصیبت کے وقت ان کے کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں، اس کے پاس ان کی فریادیں پہنچاتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سورة زمر میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنے پیش رو لوگوں کی طرح کہا کرتے تھے :(مانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی) (الزمر : ٣) ” ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ “ اور سورة یونس میں ہے :(ھولآء شفعاً ؤنا عنداللہ) (یونس :18)” یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ “ پھر چاہیے تو یہ تھا کہ جب اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آیا تو وہ ان کی مدد کو پہنچتے، مگر کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر ان کے ان داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں نے ان کی مدد کیوں نہ کی جنہیں ان لوگوں نے قرب حاصل کرنے کے لئے اللہ کے سوا معبود بنایا ہوا تھا ؟- (٢) بل ضلوا عنھم : یعنی جب وہ وقت آیا جس کے لئے ان کی پوجا کی جاتی تھی اور ان کے سامنے نذرانے پیش کئے جاتے تھے، تو وہ معبودیوں غائب ہوگئے کہ کہیں ان کا سراغ نہ ملا۔- (٣) وذلک افکھم وما کانوا یفترون : معلوم ہوا کہ ان کی وہ باتیں جو انہوں نے اپنے معبودوں کی دھاک بٹھانے کے لئے گھڑ رکھی تھیں سب جھوٹ تھیں اور وہ سراسر بہتان تھیں جو وہ باندھتے رہتے تھے۔
فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً ٠ ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ ٠ ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُہُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ٢٨- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- قُرْباناً - والقُرْبَانُ : ما يُتَقَرَّبُ به إلى الله، وصار في التّعارف اسما للنّسيكة التي هي الذّبيحة، وجمعه : قَرَابِينُ. قال تعالی: إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة 27] ، حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران 183] ، وقوله : قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف 28] ، فمن قولهم : قُرْبَانُ الملک : لِمَن يَتَقَرَّبُ بخدمته إلى الملک، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، ولکونه في هذا الموضع جمعا - القربان ( نیا ز ) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعیق نسیکۃ یعنی ذبیحۃ آتا ہے اس کی جمع قرابین ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [ المائدة 27] ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ نیازیں چڑھائیں ۔ حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ [ آل عمران 183] جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے کر آئے اور آیت کریمہ : ۔ قُرْباناً آلِهَةً [ الأحقاف 28] تقرب خدا کے سوا معبود ( بنایا تھا ) میں قربان کا لفظ قربان الملک کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی بادشاہ کا ہم نشین اور ندیم خاص کے ہیں اور یہ واحد دونوں پر بولا جاتا ہے اور یہاں چونکہ جمع کے معنی میں ہے اس لئے الھۃ بلفظ جمع لا یا گیا ہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
تو جن چیزوں کو انہوں نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی بلکہ وہ ان کے معبود ان سے غائب ہوگئے یہ ان کی خود بنائی ہوئی جھوٹی بات تھی۔
آیت ٢٨ فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً ” تو کیوں نہ مدد کی ان کی ان ہستیوں نے جن کو انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھا تھا تقرب ّ (الی اللہ) کا ذریعہ سمجھتے ہوئے “- ان کا خیال تھا کہ ان کے معبود انہیں اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ بنیں گے اور ہر مشکل میں ان کی مدد کریں گے۔- بَلْ ضَلُّوْا عَنْہُمْ ” بلکہ وہ سب تو ان سے گم ہوگئے “- جب ان پر عذاب آیا تو ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کے کام نہ آیا اور انہیں یوں لگا جیسے کہ حقیقت میں ان کے معبودوں کا کوئی وجود تھا ہی نہیں ‘ بس بقول میر دردؔ: ع ” خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ‘ جو سنا افسانہ تھا “- وَذٰلِکَ اِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ” اور یہ تھا ان کا جھوٹ اور جو کچھ وہ افترا کر رہے تھے۔ “- آئندہ آیات میں ان ِجنات کا ذکر ہوا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر ایمان لے آئے اور پھر اپنی قوم کی طرف مبلغ بن کر لوٹے۔ یہ واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طائف سے واپسی کے سفر کے دوران پیش آیا۔ وہ ایام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یقینا بہت سخت تھے۔ ایک طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل طائف کے رویے کی وجہ سے دل گرفتہ تھے تو دوسری طرف مکہ واپس جانے کے لیے بھی حالات سازگار نہیں تھے۔ اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند دن وادی نخلہ میں قیام فرمایا۔ وہاں ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ ِجنوں کی ایک جماعت کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) مقتدی تھے۔ وادی کی کھلی فضا ‘ فجر کا وقت اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے ” قرآن الفجر “ (بنی اسرائیل : ٧٨) کی طویل قراءت قریب سے گزرتے ہوئے جنات ٹھٹک کر رہ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھتے رہے اور وہ سنتے رہے۔ قراءت ختم ہوئی تو ان کی دنیا بدل چکی تھی ‘ وہ سب کے سب ایمان لے آئے ‘ بلکہ واپس جا کر انہوں نے اپنی قوم میں فوراً تبلیغ بھی شروع کردی۔ جنات کا یہ واقعہ ہمارے لیے اس لحاظ سے لائق عبرت ہے کہ جنات نے ایک ہی مرتبہ قرآن سنا اور وہ نہ صرف ایمان لے آئے بلکہ قرآن کے داعی اور مبلغ بھی بن گئے ‘ لیکن ہم بار بار قرآن سنتے ہیں اور ہر بار گویا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ نہ تو قرآن ہمارے دلوں میں اترتا ہے اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس سے کوئی تبدیلی آتی ہے۔
سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :32 یعنی ان ہستیوں کے ساتھ عقیدت کی ابتداء تو انہوں نے اس خیال سے کی تھی کہ یہ خدا کے مقبول بندے ہیں ، ان کے وسیلے سے خدا کے ہاں ہماری رسائی ہو گی ۔ مگر بڑھتے بڑھتے انہوں نے خود انہی ہستیوں کو معبود بنا لیا ، ان ہی کو مدد کے لیے پکارنے لگے ، انہی سے دعائیں مانگنے لگے ، اور ان ہی کے متعلق یہ سمجھ لیا کہ یہ صالح تصرف ہیں ، ہماری فریاد رسی و مشکل کشائی ہی کریں گے ۔ اس گمراہی سے ان کو نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اپنے رسولوں کے ذریعہ سے بھیج کر طرح طرح سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی ، مگر وہ اپنے ان جھوٹے خداؤں کی بندگی پر اڑے رہے اور اصرار کیے چلے گیے کہ ہم اللہ کے بجائے ان ہی کا دامن تھامے رہیں گے ۔ اب بتاؤ ان مشرک قوموں پر جب ان کی گمراہی کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا تو ان کے وہ فریاد رس اور مشکل کشا معبود کہاں مر رہے تھے؟ کیوں نہ اس برے وقت میں وہ ان کی دست گیری کو آئے ۔