Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

طائف سے واپسی پر جنات نے کلام الہٰی سنا ، شیطان بوکھلایا مسند امام احمد میں حضرت زبیر سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ واقعہ نخلہ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، یہ سب جنات سمٹ کر آپ کے اردگرد بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہو گئے ابن عباس کی روایت میں ہے کہ یہ جنات ( نصیبین ) کے تھے تعداد میں سات تھے کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا نہ آپ نے انہیں دیکھا آپ تو اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار جا رہے تھے ادھر یہ ہوا تھا شیاطین کے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان روک ہوگئی تھی اور ان پر شعلے برسنے شروع ہوگئے تھے ۔ شیاطین نے آکر اپنی قوم کو یہ خبر دی تو انہوں نے کہا کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے جاؤ تلاش کرو پس یہ نکل کھڑے ہوئے ان میں کی جو جماعت عرب کی طرف متوجہ ہوئی تھی وہ جب یہاں پہنچی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے نخلہ میں اپنے اصحاب کی نماز پڑھا رہے تھے ان کے کانوں میں جب آپ کی تلاوت کی آواز پہنچی تو یہ ٹھہر گئے اور کان لگا کر بغور سننے لگے اسکے بعد انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے تمہارا آسمانوں تک پہنچنا موقوف کر دیا گیا ہے یہاں سے فورا ہی واپس لوٹ کر اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان سے کہنے لگے ہم نے عجیب قرآن سنا جو نیکی کا رہبر ہے ہم تو اس پر ایمان لاچکے اور اقرار کرتے ہیں کہ اب ناممکن ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک کریں ۔ اس واقعہ کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو سورہ جن میں دی ، یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جنات وحی الہٰی سنا کرتے تھے ایک کلمہ جب ان کے کان میں پڑ جاتا تو وہ اس میں دس ملا لیا کرتے پس وہ ایک تو حق نکلتا باقی سب باطل نکلتے اور اس سے پہلے ان پر تارے پھینکے نہیں جاتے تھے ۔ پس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان پر شعلہ باری ہونے لگی یہ اپنے بیٹھنے کی جگہ پہنچتے اور ان پر شعلہ گرتا اور یہ ٹھہر نہ سکتے انہوں نے آکر ابلیس سے یہ شکایت کی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز پڑھتے ہوئے پایا اور جا کر اسے خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو آسمان محفوظ کر دیا گیا اور تمہارا جانا بند ہوا ۔ یہ روایت ترمذی اور نسائی میں بھی ہے ۔ حسن بصری کا قول بھی یہی ہے کہ اس واقعہ کی خبر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تھی جب آپ پر وحی آئی تب آپ نے یہ معلوم کیا ۔ سیرت ابن اسحاق میں محمد بن کعب کا ایک لمبا بیان منقول ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف جانا انہیں اسلام کی دعوت دینا ان کا انکار کرنا وغیرہ پورا واقعہ بیان ہے ۔ حضرت حسن نے اس دعا کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے اس تنگی کے وقت کی تھی جو یہ ہے ( اللھم الیک اشکوا ضعف قوتی وقلتہ حیلتی وھوانی علی الناس یا ارحم الراحمین انت الرحم الراحمین وانت رب المستضعفین وانت ربی الی من تکلنی الی عدو بعید یتجھمنی ام الی صدیق قریب ملکتہ امری ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی غیر ان عافیتک اوسع لی اعوذ بنور وجھک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان ینزل بی غضبک او یحل بی سخطک ولک العتبیٰ حتی ترضیٰ ولا حول ولا قوۃ الا بک ) یعنی اپنی کمزوری اور بےسروسامانی اور کسمپرسی کی شکایت صرف تیرے سامنے کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین تو دراصل سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہے اور کمزوروں کا رب تو ہی ہے میرا پالنہار بھی تو ہی ہے تو مجھے کس کو سونپ رہا ہے کسی دوری والے دشمن کو جو مجھے عاجز کر دے یا کسی قرب والے دوست کو جسے تو نے میرے بارے اختیار دے رکھا ہو اگر تیری کوئی خفگی مجھ پر نہ ہو تو مجھے اس درد دکھ کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تاہم اگر تو مجھے عافیت کے ساتھ ہی رکھ تو وہ میرے لئے بہت ہی راحت رساں ہے میں تیرے چہرے کے اس نور کے باعث جس کی وجہ سے تمام اندھیریاں جگمگا اٹھی ہیں اور دین و دنیا کے تمام امور کی اصلاح کا مدار اسی پر ہے تجھ سے اس بات کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ مجھ پر تیرا عتاب اور تیرا غصہ نازل ہو یا تیری ناراضگی مجھ پر آجائے ، مجھے تیری ہی رضامندی اور خوشنودی درکار ہے اور نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کی طاقت تیری ہی مدد سے ہے ۔ اسی سفر کی واپسی میں آپ نے نخلہ میں رات گذاری اور اسی رات قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ( نصیبین ) کے جنوں نے آپ کو سنا یہ ہے تو صحیح لیکن اس میں قول تامل طلب ہے اس لئے کہ جنات کا کلام اللہ شریف سننے کا واقعہ وحی شروع ہونے کے زمانے کا ہے جیسے کہ ابن عباس کی اوپر بیان کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے اور آپ کا طائف جانا اپنے چچا ابو طالب کے انتقال کے بعد ہوا ہے جو ہجرت کے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جیسے کہ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں ہے واللہ اعلم ۔ ابن ابی شیبہ میں ان جنات کی گنتی نو کی ہے جن میں سے ایک کا نام زویعہ ہے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں پس یہ روایت اور اس سے پہلے کی حضرت ابن عباس کی روایت کا اقتضاء یہ ہے کہ اس مرتبہ جو جن آئے تھے ان کی موجودگی کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا یہ تو آپ کی بےخبری میں ہی آپ کی زبانی قرآن سن کر واپس لوٹ گئے اس کے بعد بطور وفد فوجیں کی فوجیں اور جتھے کے جتھے ان کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جیسے کہ اس ذکر کے احادیث و آثار اپنی جگہ آرہے ہیں انشاء اللہ ، بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبدالرحمن نے حضرت مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا تھا اس رات کس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ذکر کیا تھا ؟ تو فرمایا مجھ سے تیرے والد حضرت ابن مسعود نے کہا ہے ان کی آگاہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت نے دی تھی تو ممکن ہے کہ یہ خبر پہلی دفعہ کی ہو اور اثبات کو ہم نفی پر مقدم مان لیں ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ جب وہ سن رہے تھے آپ کو تو کوئی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اس درخت نے آپ کو ان کے اجتماع کی خبر دی واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ اس کے بعد والے کئی واقعات میں سے ایک ہو واللہ اعلم ۔ امام حافظ بیہقی فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ تو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو دیکھا نہ خاص ان کے سنانے کے لئے قرآن پڑھا ہاں البتہ اس کے بعد جن آپ کے پاس آئے اور آپ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ عزوجل کی طرف بلایا جیسے کہ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے ۔ اس کی روایتیں سنئے ۔ حضرت علقمہ حضرت ابن مسعود سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کوئی نہ تھا آپ رات بھر ہم سے غائب رہے اور ہمیں رہ رہ کر بار بار یہی خیال گذرا کرتا تھا کہ شاید کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا اللہ نہ کرے آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو وہ رات ہماری بڑی بری طرح کٹی صبح صادق سے کچھ ہی پہلے ہم نے دیکھا کہ آپ غار حرا سے واپس آرہے ہیں پس ہم نے رات کی اپنی ساری کیفیت بیان کر دی ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جنات کا قاصد آیا تھا جس کے ساتھ جا کر میں نے انہیں قرآن سنایا چنانچہ آپ ہمیں لے کر گئے اور ان کے نشانات اور ان کی آگ کے نشانات ہمیں دکھائے ۔ شعبی کہتے ہیں انہوں نے آپ سے توشہ طلب کیا تو عامر کہتے ہیں یعنی مکے میں اور یہ جن جزیرے کے تھے تو آپ نے فرمایا ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ گوشت والی ہو کر پڑے گی ، اور لید اور گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا پس اے مسلمانو ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہیں دوسری روایت میں ہے کہ اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پا کر ہم بہت ہی گھبرائے تھے اور تمام وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کر آئے تھے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میں جنات کو قرآن سناتا رہا اور جنوں میں ہی اسی شغل میں رات گذاری ۔ ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو چاہے آج کی رات جنات سے دلچسپی لینے والا میرے ساتھ رہے ۔ پس میں موجود ہو گیا آپ مجھے لے کر چلے جب مکہ شریف کے اونچے حصے میں پہنچے تو آپ نے اپنے پاؤں سے ایک خط کھینچ دیا اور مجھ سے فرمایا بس یہیں بیٹھے رہو پھر آپ چلے اور ایک جگہ پر کھڑے ہو کر آپ نے قرأت شروع کی پھر تو اس قدر جماعت آپ کے اردگرد ٹھٹ لگا کر کھڑی ہوگئی کہ میں تو آپ کی قرأت سننے سے بھی رہ گیا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جس طرح ابر کے ٹکڑے پھٹتے ہیں اس طرح وہ ادھر ادھر جانے لگے اور یہاں تک کہ اب بہت تھوڑے باقی رہ گئے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فارغ ہوئے اور آپ وہاں سے دور نکل گئے اور حاجت سے فارغ ہو کر میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے وہ باقی کے کہاں ہیں ؟ میں نے کہا وہ یہ ہیں پس آپ نے انہیں ہڈی اور لید دی ۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں سے استنجا کرنے سے منع فرما دیا اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو بٹھایا تھا وہاں بٹھا کر فرما دیا تھا کہ خبردار یہاں سے نکلنا نہیں ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت آکر ان سے دریافت کیا کہ کیا تم سو گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم میں نے تو کئی مرتبہ چاہا کہ لوگوں سے فریاد کروں لیکن میں نے سن لیا کہ آپ انہیں اپنی لکڑی سے دھمکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بیٹھ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم یہاں سے باہر نکلتے تو مجھے خوف تھا کہ ان میں کے بعض تمہیں اچک نہ لے جائیں ، پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اچھا تم نے کچھ دیکھا بھی ؟ میں نے کہا ہاں لوگ تھے سیاہ انجان خوفناک سفید کپڑے پہنے ہوئے آپ نے فرمایا یہ ( نصیبین ) کے جن تھے انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا پس میں نے ہڈی اور لید گوبر دیا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے انہیں کیا فائدہ ؟ آپ نے فرمایا ہر ہڈی ان کے ہاتھ لگتے ہی ایسی ہو جائے گی جیسی اس وقت تھی جب کھائی گئی تھی یعنی گوشت والی ہو کر انہیں ملے گی اور لید میں بھی وہی دانے پائیں گے جو اس روز تھے جب وہ دانے کھائے گئے تھے پس ہم میں سے کوئی شخص بیت الخلا سے نکل کر ہڈی لید اور گوبر سے استنجا نہ کرے اس روایت کی دوسری سند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پندرہ جنات جو آپس میں چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں آج رات مجھ سے قرآن سننے کیلئے آنے والے ہیں ۔ اس میں ہڈی اور لید کے ساتھ کوئلے کا لفظ بھی ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں دن نکلے میں اسی جگہ گیا تو دیکھا کہ وہ کوئی ساٹھ اونٹ بیٹھنے کی جگہ ہے اور روایت میں ہے کہ جب جنات کا اژدھام ہو گیا تو ان کے سرداران نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انہیں ادھر ادھر کر کے آپ کو اس تکلیف سے بچا لیتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ سے زیادہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں ۔ آپ فرماتے ہیں جنات والی رات میں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی تو نہیں البتہ ایک ڈولچی نبیذ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمدہ کھجوریں اور پاکیزہ پانی ( ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے اس سے وضو کراؤ چنانچہ اپنے وضو کیا اور فرمایا یہ تو پینے کی اور پاک چیز ہے ، جب آپ لوٹ کر آئے تو سانس چڑھ رہا تھا میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میرے پاس میرے انتقال کی خبر آئی ہے ۔ یہی حدیث قدرے زیادتی کے ساتھ حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی ہے اس میں ہے کہ میں نے یہ سن کر کہا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر جائیے آپ نے کہا کس کو ؟ میں نے کہا ابو بکر کو ۔ اس پر آپ خاموش ہوگئے چلتے چلتے پھر کچھ دیر بعد یہی حالت طاری ہوئی ۔ میں نے وہی سوال کیا آپ نے وہی جواب دیا ۔ میں نے خلیفہ مقرر کرنے کو کہا آپ نے پوچھا کسے ؟ میں نے کہا عمر کو ( رضی اللہ عنہ ) اس پر آپ خاموش ہوگئے کچھ دور چلنے کے بعد پھر چلنے کے بعد پھر یہی حالت اور یہی سوال جواب ہوئے اب کی مرتبہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب کا نام پیش کیا تو آپ فرمانے لگے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر یہ لوگ ان کی اطاعت کریں تو سب جنت میں چلے جائیں گے لیکن یہ حدیث بالکل ہی غریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ محفوظ نہ ہو اور اگر صحت تسلیم کر لی جائے تو اس واقعہ کو مدینہ کا واقعہ ماننا پڑے گا ۔ وہاں بھی آپ کے پاس جنوں کے وفود آئے تھے جیسے کہ ہم عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ بیان کریں گے اس لئے کہ آپ کا آخری وقت فتح مکہ کے بعد تھا جب کہ دین الٰہی میں انسانوں اور جنوں کی فوجیں داخل ہوگئیں اور سورہ ( اذا جاء ) الخ ، اتر چکی جس میں آپ کو خبر انتقال دی گئی تھی ۔ جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کی اس پر موافقت ہے جو حدیثیں ہم اسی سورت کی تفسیر میں لائیں گے ان شاء اللہ واللہ اعلم ۔ مندرجہ بالا حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کی سند بھی غریب ہے اور سیاق بھی غریب ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ جنات جزیرہ موصل کے تھے ان کی تعداد بارہ ہزار کی تھی ابن مسعود اس خط کشیدہ کی جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن جنات کے کھجوروں کے درختوں کے برابر کے قد و قامت وغیرہ دیکھ کر ڈر گئے اور بھاگ جانا چاہا لیکن فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آگیا کہ اس حد سے باہر نہ نکلنا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اگر تم اس حد سے باہر آجاتے تو قیامت تک ہماری تمہاری ملاقات نہ ہو سکتی اور روایت میں ہے کہ جنات کی یہ جماعت جن کا ذکر آیت ( وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29؀ ) 46- الأحقاف:29 ) ، میں ہے نینویٰ کی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا کہ انہیں قرآن سناؤں تم میں سے میرے ساتھ کون چلے گا ؟ اس پر سب خاموش ہوگئے دوبارہ پوچھا پھر خاموشی رہی تیسری مرتبہ دریافت کیا تو قبیلہ ہذیل کے شخص حضرت ابن مسعود تیار ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر حجون کی گھاٹی میں گئے ۔ ایک لکیر کھینچ کر انہیں یہاں بٹھا دیا اور آپ آگے بڑھ گئے ۔ یہ دیکھنے لگے کہ گدھوں کی طرح کے زمین کے قریب اڑتے ہوئے کچھ جانور آرہے ہیں تھوڑی دیر بعد بڑا غل غپاڑہ سنائی دینے لگا یہاں تک کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ڈر لگنے لگا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ شوروغل کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا ان کے ایک مقتول کا قصہ تھا جس میں یہ مختلف تھے ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر دیا گیا یہ واقعات صاف ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدًا جا کر جنات کو قرآن سنایا انہیں اسلام کی دعوت دی اور جن مسائل کی اس وقت انہیں ضرورت تھی وہ سب بتا دئیے ۔ ہاں پہلی مرتبہ جب جنات نے آپ کی زبانی قرآن سنا اس وقت آپ کو نہ معلوم تھا نہ آپ نے انہیں سنانے کی غرض سے قرآن پڑھا تھا جیسے کہ ابن عباس فرماتے ہیں اس کے بعد وہ وفود کی صورت میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمدًا تشریف لے گئے اور انہیں قرآن سنایا ۔ حضرت ابن مسعود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت نہ تھے جبکہ آپ نے ان سے بات چیت کی انہیں اسلام کی دعوت دی البتہ کچھ فاصلہ پر دور بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے ساتھ اس واقعہ میں سوائے حضرت ابن مسعود کے اور کوئی نہ تھا اور دوسری تطبیق ان روایات میں جن میں ہے کہ آپ کے ساتھ ابن مسعود اور جن میں ہے کہ نہ تھے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی دفعہ نہ تھے دوسری مرتبہ تھے ۔ واللہ اعلم ، یہ بھی مروی ہے کہ نخلہ میں جن جنوں نے آپ سے ملاقات کی تھی وہ نینویٰ کے تھے اور مکہ شریف میں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے وہ ( نصیبین ) کے تھے ۔ اور یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ ہم نے وہ رات بہت بری بسر کی اس سے مراد ابن مسعود کے سوا اور صحابہ ہیں جنہیں اس بات کا علم نہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنات کو قرآن سنانے گئے ہیں ۔ لیکن یہ تاویل ہے ذرا دور کی واللہ اعلم ۔ بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حاجت اور وضو کے لئے آپ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ پانی کی ڈولچی لئے ہوئے جایا کرتے تھے ایک دن یہ پیچھے پیچھے پہنچے آپ نے پوچھا کون ہے ؟ جواب دیا کہ میں ابو ہریرہ ہوں فرمایا میرے استنجے کے لئے پتھر لاؤ لیکن ہڈی اور لید نہ لانا میں اپنی جھولی میں پتھر بھر لایا اور آپ کے پاس رکھ دئیے جب آپ فارغ ہو چکے اور چلنے لگے میں بھی آپ کے پیچھے چلا اور پوچھا حضور کیا وجہ ہے جو آپ نے ہڈی اور لید سے منع فرما دیا ؟ آپ نے جواب دیا میرے پاس ( نصیبین ) کے جنوں کا وفد آیا تھا اور انہوں نے مجھ سے توشہ طلب کیا تھا تو میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ وہ جس لید اور ہڈی پر گذریں اسے طعام پائیں ۔ صحیح بخاری میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے پس یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ جنات کا وفد آپ کے پاس اس کے بعد بھی آیا تھا اب ہم ان احادیث کو بیان کرتے ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ جنات آپکے پاس کئی دفعہ حاضر ہوئے ۔ ابن عباس سے جو روایت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے اس کے سوا بھی آپ سے دوسری سند سے مروی ہے ابن جریر میں ہے آپ فرماتے ہیں یہ سات جن تھے ( نصیبین ) کے رہنے والے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قاصد بنا کر جنات کی طرف بھیجا تھا مجاہد کہتے ہیں یہ جنات تعداد میں سات تھے ( نصیبین ) کے تھے ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین کو اہل حران سے کہا اور چار کو اہل ( نصیبین ) سے ان کے نام یہ ہیں ۔ حسی ، حسا ، منسی ، ساحر ، ناصر ، الاردوبیان ، الاحتم ۔ ابو حمزہ شمالی فرماتے ہیں انہیں بنو شیصیان کہتے ہیں یہ قبیلہ جنات کے اور قبیلوں سے تعداد میں بہت زیادہ تھا اور یہ ان میں نصب کے بھی شریف مانے جاتے تھے اور عموماً یہ ابلیس کے لشکروں میں سے تھے ابن مسعود فرماتے ہیں یہ نو تھے ان میں سے ایک کا نام ردیعہ تھا اصل نخلہ سے آئے تھے ۔ بعض حضرات سے مروی ہے کہ یہ پندرہ تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ساٹھ اونٹوں پر آئے تھے اور ان کے سردار کا نام وردان تھا اور کہا گیا ہے کہ تین سو تھے اور یہ بھی مروی ہے کہ بارہ ہزار تھے ان سب میں تطبیق یہ ہے کہ چونکہ وفود کئی ایک آئے تھے ممکن ہے کہ کسی میں چھ سات نو ہی ہوں کسی میں زیادہ کسی میں اس سے بھی زیادہ ۔ اس پر دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جس چیز کی نسبت جب کبھی کہتے کہ میرے خیال میں یہ اس طرح ہو گی تو وہ عمومًا اسی طرح نکلتی ایک مرتبہ آپ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک حسین شخص گذرا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا اگر میرا گمان غلط نہ ہو تو یہ شخص اپنے جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کا کاہن تھا جانا ذرا اسے لے آنا جب وہ آگیا تو آپ نے اپنا یہ خیال اس پر ظاہر فرمایا وہ کہنے لگا مسلمانوں میں اس ذہانت و فطانت کا کوئی شخص آج تک میری نظر سے نہیں گذرا ۔ حضرت عمر نے فرمایا اب میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو اپنی کوئی صحیح اور سچی خبر سنا ، اس نے کہا بہت اچھا سنئے میں جاہلیت کے زمانہ میں ان کا کاہن تھا میرے پاس میرا جن جو سب سے زیادہ تعجب خیز خبر لایا وہ سنئے ۔ میں ایک مرتبہ بازار جا رہا تھا تو وہ آگیا اور سخت گھبراہٹ میں تھا اور کہنے لگا کیا تو نے جنوں کی بربادی مایوسی اور انکے پھیلنے کے بعد سمٹ جانا اور ان کی درگت نہیں دیکھی؟ حضرت عمر فرمانے لگے یہ سچا ہے میں ایک مرتبہ ان کے بتوں کے پاس سویا ہوا تھا ایک شخص نے وہاں ایک بچھڑا چڑھایا کہ ناگہاں ایک سخت پُر زور آواز آئی ایسی کہ اتنی بلند اور کرخت آواز میں نے کبھی نہیں سنی اس نے کہا اے جلیح نجات دینے والا امر آچکا ایک شخص ہے جو فصیح زبان سے آیت ( لا الہ الا اللہ ) کی منادی کر رہا ہے ۔ سب لوگ تو مارے ڈر کے بھاگ گئے لیکن میں وہیں بیٹھا رہا کہ دیکھوں آخر یہ کیا ہے؟ کہ دوبارہ پھر اسی طرح وہی آواز سنائی دی اور اس نے وہی کہا پس کچھ ہی دن گذرے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آوازیں ہمارے کانوں میں پڑنے لگیں ۔ اس روایت سے ظاہر الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ آوازیں اس ذبح شدہ بچھڑے سے سنیں اور ایک ضعیف روایت میں صریح طور پر یہ آبھی گیا ہے لیکن باقی اور روایتیں یہ بتلا رہی ہیں کہ اسی کاہن نے اپنے دیکھنے سننے کا ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا واللہ اعلم ، امام بیہقی نے یہی کہا ہے اور یہی کچھ اچھا معلوم ہوتا ہے اس شخص کا نام سواد بن قارب تھا جو شخص اس واقعہ کی پوری تفصیل دیکھنا چاہتا ہو وہ میری کتاب سیرۃ عمر دیکھ لے ، ( وللہ الحمد المنہ ) ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں ممکن ہے یہی وہ کاہن ہو جس کا ذکر بغیر نام کے صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ خطبہ سنا رہے تھے اسی میں پوچھا کیا سواد بن قارب یہاں موجود ہیں لیکن اس پورے سال تک کسی نے ہاں نہیں کہی اگلے سال آپ نے پھر پوچھا تو حضرت براء نے کہا سواد بن قارب کون ہے ؟ اس سے کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے اسلام لانے کا قصہ عجیب و غریب ہے ابھی یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں جو حضرت سواد بن قارب آگئے حضرت عمر نے ان سے کہا سواد اپنے اسلام کا ابتدائی قصہ سناؤ آپ نے فرمایا سنئے میں ہند گیا ہوا تھا میرا ساتھی جن ایک رات میرے پاس آیا میں اس وقت سویا ہوا تھا مجھے اس نے جگا دیا اور کہنے لگا اٹھ اور اگر کچھ عقل و ہوش ہیں تو سن لے سمجھ لے اور سوچ لے قبیلہ لوی بن غالب میں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو چکے ہیں میں جنات کی حس اور ان کے بوریہ بستر باندھنے پر تعجب کر رہا ہوں اگر تو طالب ہدایت ہے تو فورا مکے کی طرف کوچ کر ۔ سمجھ لے کہ بہتر اور بدتر جن یکساں نہیں جا جلدی جا اور بنو ہاشم کے اس دلارے کے منور مکھڑے پر نظریں تو ڈال لے مجھے پھر غنودگی سی آگئی تو اس نے دوبارہ جگایا اور کہنے لگا اے سواد بن قارب اللہ عزوجل نے اپنا رسول بھیج دیا ہے تم ان کی خدمت میں پہنچو اور ہدایت اور بھلائی سمیٹ لو دوسری رات پھر آیا اور مجھے جگا کر کہنے لگا مجھے جنات کے جستجو کرنے اور جلد جلد پالان اور جھولیں کسنے پر تعجب معلوم ہوتا ہے اگر تو بھی ہدایت کا طالب ہے تو مکے کا قصد کر ۔ سمجھ لے کہ اس کے دونوں قدم اس کی دموں کی طرح نہیں تو اٹھ اور جلدی جلدی بنو ہاشم کے اس پسندیدہ شخص کی خدمت میں پہنچ اور اپنی آنکھیں اس کے دیدار سے منور کر ۔ تیسری رات پھر آیا اور کہنے لگا مجھے جنات کے باخبر ہو جانے اور ان کے قافلوں کے فورا تیار ہو جانے پر تعجب آرہا ہے وہ سب طلب ہدایت کے لئے مکہ کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ان میں کے برے بھلوں کی برابری نہیں کر سکتے تو بھی اٹھ اور اس بنو ہاشم کے چیدہ شخص کی طرف چل کھڑا ہو ۔ مومن جنات کافروں کی طرح نہیں تین راتوں تک برابر یہی سنتے رہنے کے بعد میرے دل میں بھی دفعتًہ اسلام کا ولولہ اٹھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وقعت اور محبت سے دل پر ہو گیا میں نے اپنی سانڈنی پر کجاوہ کسا اور بغیر کسی جگہ قیام کئے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت شہر مکہ میں تھے اور لوگ آپ کے آس پاس ایسے تھے جیسے گھوڑے پر ایال ۔ مجھے دیکھتے ہی یکبارگی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سواد بن قارب کو مرحبا ہو آؤ ہمیں معلوم ہے کہ کیسے اور کس لئے اور کس کے کہنے سننے سے آرہے ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کچھ اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟ آپ نے فرمایا سواد شوق سے کہو تو حضرت سواد نے وہ اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ ہے کہ میرے پاس میرا جن میرے سو جانے کے بعد رات کو آیا اور اس نے مجھے ایک سچی خبر پہنچائی تین راتیں برابر وہ میرے پاس آتا رہا اور ہر رات کہتا رہا کہ لوی بن غالب میں اللہ کے رسول مبعوث ہو چکے ہیں ، میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی اور جلد جلد راہ طے کرتا یہاں پہنچ ہی گیا اب میری گواہی ہے کہ بجز اللہ کے اور کوئی رب نہیں اور آپ اللہ کے امانتدار رسول ہیں آپ سے شفاعت کا آسرا سب سے زیادہ ہے اے بہترین بزرگوں اور پاک لوگوں کی اولاد اے تمام رسولوں سے بہتر رسول جو حکم آسمانی آپ ہمیں پہنچائیں گے وہ کتنا ہی مشکل اور طبیعت کے خلاف کیوں نہ ہو ناممکن کہ ہم اسے ٹال دیں آپ قیامت کے دن ضرور میرے سفارشی بننا کیونکہ وہاں بجز آپ کے سواد بن قارب کا سفارشی اور کون ہو گا ؟ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہنسے اور فرمانے لگے سواد تم نے فلاح پالی ۔ حضرت عمر نے یہ واقعہ سن کر پوچھا کیا وہ جن اب بھی تیرے پاس آتا ہے اس نے کہا جب سے میں نے قرآن پڑھا وہ نہیں آتا اور اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اسکے عوض میں نے رب کی پاک کتاب پائی ۔ اور اب جس حدیث کو ہم حافظ ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے نقل کرتے ہیں اس میں بھی اس کا بیان ہے کہ مدینہ شریف میں بھی جنات کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوا تھا ۔ حضرت عمرو بن غیلان ثقفی ، حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس جا کر ان سے دریافت کرتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ جس رات جنات کا وفد حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوا تھا اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ بھی تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ٹھیک ہے میں نے کہا ذرا واقعہ تو سنائیے ۔ فرمایا صفہ والے مساکین صحابہ کو لوگ اپنے اپنے ساتھ شام کا کھانا کھلانے لے گئے اور میں یونہی رہ گیا میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا ابن مسعود فرمایا تمہیں کوئی نہیں لے گیا کہ تم بھی کھا لیتے ؟ میں نے جواب دیا نہیں کوئی نہیں لے گیا فرمایا اچھا میرے ساتھ چلو شاہد کچھ مل جائے تو دے دوں گا میں ساتھ ہو لیا آپ حضرت ام سلمہ کے حجرے میں گئے میں باہر ہی ٹھہر گیا تھوڑی دیر میں اندر سے ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم نے اپنے گھر میں کوئی چیز نہیں پائی تم اپنی خواب گاہ میں چلے جاؤ ۔ میں واپس مسجد میں آگیا اور مسجد میں کنکریوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر کر کے اس پر سر رکھ کر اپنا کپڑا لپیٹ کر سو گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی تو وہی لونڈی پھر آئیں اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو یاد فرما رہے ہیں ساتھ ہو لیا اور مجھے امید پیدا ہو گئی کہ اب تو کھانا ضرور ملے گا جب میں اپنی جگہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں کھجور کے درخت کی ایک چھڑی تھی جسے میرے سینے پر رکھ کر فرمانے لگے جہاں میں جا رہا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے کہا جو اللہ نے چاہا ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے پھر آپ چلے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا تھوڑی دیر میں بقیع غرقد چا پہنچے پھر قریب قریب وہی بیان ہے جو اوپر کی روایتوں میں گذر چکا ہے اس کی سند غریب ہے اور اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا ۔ دلائل نبوت میں حافظ ابو نعیم فرماتے ہیں کہ مدینہ کی مسجد میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور لوٹ کر لوگوں سے کہا آج رات کو جنات کے وفد کی طرف تم میں سے کون میرے ساتھ چلے گا ؟ کسی نے جواب نہ دیا تین مرتبہ فرمان پر بھی کوئی نہ بولا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے اور میرا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے مدینہ کی پہاڑوں سے بہت آگے نکل کر صاف چٹیل میدان میں پہنچ گئے اب نیزوں کے برابر لانبے لانبے قد کے آدمی نیچے نیچے کپڑے ہوئے آنے شروع ہوئے ہیں ۔ میں تو انہیں دیکھ کر مارے ڈر کے کانپنے لگا پھر اور واقعہ مثل حدیث ابن مسعود کے بیان کیا ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ اسی کتاب میں ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ کے ساتھی حج کو جا رہے تھے راستے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ سانپ راستے میں لوٹ رہا ہے اور اس میں سے مشک کی خوشبو اڑ رہی ہے ، ابراہیم کہتے ہیں میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم تو سب جاؤ میں یہاں ٹھہر جاتا ہوں دیکھوں تو اس سانپ کا کیا ہوتا ہے ؟ چنانچہ وہ چل دئیے اور میں ٹھہر گیا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی جو وہ سانپ مر گیا میں نے ایک سفید کپڑا لے کر اس میں لپیٹ کر راستے کے ایک طرف دفن کر دیا اور رات کے کھانے کے وقت اپنے قافلے میں پہنچ گیا اللہ کی قسم میں بیٹھا ہوا تھا جو چار عورتیں مغرب کی طرف آئیں ان میں سے ایک نے پوچھا عمرو کو کس نے دفن کیا ؟ ہم نے کہا کون عمرو؟ اس نے کہا تم میں سے کسی نے ایک سانپ کو دفن کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں میں نے دفن کیا ہے کہنے لگی قسم ہے اللہ کی تم نے بڑے روزے دار بڑے پختہ نمازی کو دفن کیا ہے جو تمہارے نبی کو مانتا تھا اور جس نے آپ کے نبی ہونے سے چار سو سال پیشتر آسمان سے آپ کی صفت سنی تھی ابراہیم کہتے ہیں اس پر ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر حج سے فارغ ہو کر جب ہم فاروق اعظم کی خدمت میں پہنچے اور میں نے آپ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا اس عورت نے سچ کہا ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر ایمان لایا تھا میری نبوت کے چار سو سال پہلے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ دفن کفن کرنے والے حضرت صفوان بن معطل تھے کہتے ہیں کہ یہ صاحب جو یہاں دفن کئے گئے یہ ان نو جنات میں سے ایک ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن سننے کے لئے وفد بن کر آئے تھے ان کا انتقال ان سب سے اخیر میں ہوا ۔ ابو نعیم میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان ذوالنورین کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے امیرا لمومنین میں ایک جنگل میں تھا میں نے دیکھا کہ دو سانپ آپس میں خوب لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا ۔ اب میں انہیں چھوڑ کر جہاں معرکہ ہوا تھا وہاں گیا تو بہت سے سانپ قتل کئے ہوئے پڑے ہیں اور بعض سے اسلام کی خوشبو آرہی ہے پس میں نے ایک ایک کو سونگھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک زرد رنگ کے دبلے پتلے سانپ سے مجھے اسلام کی خوشبو آنے لگی ، میں نے اپنے عمامے میں لپیٹ کر اسے دفنا دیا اب میں چلا جا رہا تھا جو میں نے ایک آواز سنی کہ اے اللہ کے بندے تجھے اللہ کی طرف سے ہدایت دی گئی ۔ یہ دونوں سانپ جنات کے قبیلہ بنو شیعبان اور بنو قیس میں سے تھے ۔ ان دونوں میں جنگ ہوئی اور پھر جس قدر قتل ہوئے وہ تم نے خود دیکھ لئے انہی میں ایک شہید جنہیں تم نے دفن کیا وہ تھے جنہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وحی الہٰی سنی تھی ۔ حضرت عثمان اس قصے کو سن کر فرمانے لگے اے شخص اگر تو سچا ہے تو اس میں شک نہیں کہ تو نے عجب واقعہ دیکھا اور اگر تو جھوٹا ہے تو جھوٹ کا بوجھ تجھ پر ہے ۔ اب آیت کی تفسیر سنئے ارشاد ہے کہ جب ہم نے تیری طرف جنات کے ایک گروہ کو پھیرا جو قرآن سن رہا تھا جب وہ حاضر ہوگئے اور تلاوت شروع ہونے کو تھی تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ ادب سکھایا کہ خاموشی سے سنو ۔ ان کا ایک اور ادب بھی حدیث میں آیا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے سورہ رحمٰن کی تلاوت کی پھر فرمایا کیا بات ہے ؟ جو تم سب خاموش ہی رہے تم سے تو بہت اچھے جواب دینے والے جنات ثابت ہوئے جب بھی میرے منہ سے انہوں نے آیت ( فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ 13 ؀ ) 55- الرحمن:13 ) سنی انہوں نے جواب میں کہا ( ولا بشیءٍ من الائک او نعمک ربنا نکذب فلک الحمد ) پھر فرماتا ہے جب فراغت حاصل کی گئی ( قضی ) کے معنی ان آیتوں میں بھی یہی ہیں آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 10؀ ) 62- الجمعة:10 ) اور آیت ( فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 12؀ ) 41- فصلت:12 ) اور آیت ( فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ ٢٠٠؁ ) 2- البقرة:200 ) وہ اپنی قوم کو دھمکانے اور انہیں آگاہ کرنے کے لئے واپس ان کی طرف چلے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) ، یعنی وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب واپس اپنی قوم کے پاس پہنچیں تو انہیں بھی ہوشیار کر دیں بہت ممکن ہے کہ وہ بچاؤ اختیار کرلیں ۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جنات میں بھی اللہ کی باتوں کو پہنچانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن ان میں سے رسول نہیں بنائے گئے یہ بات بلاشک ثابت ہے کہ جنوں میں پیغمبر نہیں ہیں ۔ فرمان باری ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ Ċ۝ ) 21- الأنبياء:7 ) ، یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے وہ سب بستیوں کے رہنے والے انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے اپنی وحی بھیجا کر تے تھے اور آیت میں ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۭ اَتَصْبِرُوْنَ ۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيْرًا 20؀ۧ ) 25- الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت قرآن میں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ 27؀ ) 29- العنكبوت:27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوۃ اور کتاب رکھ دی پس آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے وہ آپ ہی کے خاندان اور آپ ہی کی نسل میں سے ہوئے ہیں ۔ لیکن سورہ انعام کی آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَ ١٣٠؁ ) 6- الانعام:130 ) یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ اس کا مطلب اور اس سے مراد یہ دونوں جنس ہیں پس اس کا مصداق ایک جنس ہی ہو سکتی ہے جیسے فرمان ( يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ 22۝ۚ ) 55- الرحمن:22 ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے حالانکہ دراصل ایک میں سے ہی نکلتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحاب اکرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اب ہمارا وہاں جانا تقریبًا ناممکن بنادیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چناچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں ان میں سے ایک ٹو لی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم بخاری) (صحیح بخاری) ۔ میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے کتاب مناقب الانصار باب ذکر الجن بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جا کر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر) 29۔ 2 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی :۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے دو نوع ایسی ہیں جو شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ ایک جن، دوسرے انسان۔ پھر انسانوں کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے۔ اور ان کی طرف بھی پیغمبر مبعوث ہوتے تھے۔ اور جس طرح انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہی رہی ہے۔ اسی طرح جنوں کی اکثریت بھی نافرمان ہی تھی اور اب بھی ہے۔ - خ بعد میں نبوت صرف انسانوں میں :۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اسے بھی اشرف المخلوقات بنایا اور جنوں کی حیثیت انسان کے بالتبع بن جانے کی ہوگئی۔ نبوت کا سلسلہ جنوں کی طرف سے بند ہو کر انسانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب جو پیغمبر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ بھیجتے رہے وہی جنوں کے لیے بھی پیغمبر ہوتے تھے گویا ہمارے نبی آخرالزمان جس طرح ہمارے لیے اللہ کے پیغمبر تھے، جنوں کے لئے بھی تھے جنوں کے آپ سے قرآن سننے کا ذکر ایک تو اس مقام پر آیا ہے اور دوسرا سورة جن میں۔ لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں تقریباً چھ دفعہ ایسا موقع آیا تھا۔ جب آپ سے جنوں نے قرآن سنا تھا۔ ان میں سے ہم چند روایات درج کرتے ہیں۔ ان میں جو کچھ اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف الگ الگ موقع کی وجہ سے ہے۔:- ١۔ جنوں کا آپ کی زبان سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمانوں کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا۔ ہمیں آسمان کی خبر ملنابند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی ہے اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا۔ پھر کہنے لگے : یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پر آسمان کی خبر بند کردی گئی۔ پھر اسی وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے ( قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا ۝ ۙ ) 72 ۔ الجن :1) تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورة جن نازل فرمائی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنوں کی گفتگو آپ کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة الجن)- ٢۔ جنو کی خوراک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے کہ آپ یک دم ہم سے غائب ہوگئے۔ ہم نے آپ کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، مگر آپ نہیں ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے بڑی پریشانی میں بسر کی جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ حرا کی طرف سے آرہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ رات کو آپ ہم سے غائب ہوگئے ہم نے آپ کو تلاش کیا مگر آپ نہ ملے تو رات ہم نے بڑی پریشانی میں گزاری۔ آپ نے فرمایا : مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا، میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر وہ ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کی نشانیاں اور ان کی آگ کے نشان ہمیں بتائے۔ پھر جنوں نے آپ سے توشہ کا مطالبہ کیا۔ آپ نے فرمایا : اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے، تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہوجائے گی اور ہر اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ پھر آپ نے فرمایا : ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں لیلۃ الجن کو رسول اللہ کے ساتھ نہ تھا لیکن مجھے آرزو رہی کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ آپ کو جنوں کے آنے کی خبر ایک درخت نے دی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجھر بالقرآۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن)- [٤٢] جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مختلف کتب احادیث میں مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے وادی نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اہل طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس آرہے تھے۔ راستہ میں آپ نے وادی نخلہ میں قیام فرمایا وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرائت سننے کے لیے وہاں ٹھہر گیا۔ اس موقعہ پر جن رسول اللہ کے سامنے نہیں آئے تھے۔ نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی جیسا کہ سیدنا ابن عباس (رض) کی روایت یا مذکورہ حدیث نمبر ١ سے معلوم ہوتا ہے۔- [٤٣] سننے والے جنوں کی تبلیغ سے بہت سے جنوں کا ایمان لے آنا :۔ جنوں کے اس گروہ نے قرآن سنا تو اس سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً رسول اللہ کی رسالت پر اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان لے آئے۔ (یہ واقعہ ان کفار مکہ کو سنایا جارہا ہے جو دل سے قرآن کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود اسے بہرحال نہ ماننے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے) یہ جن صرف خود ہی ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی قوم میں جاکر انہیں قرآن کا پیغام سنایا۔ جنوں نے قرآن کی کون سی آیات سنی تھیں ؟ اس کی صراحت کہیں مذکور نہیں البتہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی ہی آیات تھیں جن میں اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہو۔ چناچہ جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ کے نتیجہ میں ایک کثیر تعداد میں جن مسلمان ہوگئے۔ جو بعد میں کئی بار وفود کی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوتے رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واذ صرفنا الیک نفراً من الجن…:” اذ “ سے پہلے ” اذکر “ محذوف ہے جس کا عطف اس سے پہلے مذکور آیت ” واذکر احاعاد “ پر ہے۔ یعنی کفار مکہ کے لئے ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم عاد کا ذکر کیجیے جو ان سے کہیں زیادہ قوت و شوکت والے تھے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے پر ان کا کیا حال ہوا، اسی طرح اہل مکہ کے اردگرد کی بستیوں کے کفر پر اصرار کا انجام کیا ہوا، تاکہ اہل مکہ کو ان کے انجام سے عبرت ہو اور وہ کفر و شرک سے باز آجائیں۔” واذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستعون القرآن “ اور ان کفار کے لئے اس وقت کا ذکر کیجیے جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کا رخ آپ کی طرف پھیرا اور انہوں نے آپ سے قرآن سنا۔ مقصد کفار مکہ کو شرم دلانا ہے کہ اپنی جنس انسان، اپنی نسل عرب، اپنی قوم قریش اور اپنے شہر مکہ میں مبعوث رسول کی زبان سے ان پر نازل شدہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ اور معجز کتاب مدت سے سننے کے باوجود نہ تم پر قرآن کا کچھ اثر ہوا، نہ تم رسول پر ایمان لائے اور نہ شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، ذرا جنوں کے اس گروہ کو بھی دیکھو جو اچانک اس موقع پر پہنچا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھ رہے تھے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنس یا قوم کے فرد نہیں تھے بلکہ ایک الگ جنس سے تھے، شہر بھی ان کا کوئی اور تھا، راستے میں انہیں قرآن سننے کا اتفاق ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم بھی نہ تھا کہ جنوں کا کوئی گروہ میرا قرآن سن رہا ہے ، اس کے باوجود ان کے طرز عمل اور اپنے طرز عمل کا موازنہ کرلو۔- (٢) فلما حضروہ قالوا انصبوا : جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش ہوجاؤ، تاکہ ہم غور سے قرآن سن سکتیں۔ ان جنوں کو دیکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے خود ہی اس حکم پر عمل کر رہے ہیں جو سورة اعراف میں ہے :(واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون) (الاعراف :203)” اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ اور اپنے آپ کو دیکھو، تمہاری روش وہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حم السجدہ میں فرمایا ہے :(وقال الذین کفروا لاتسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تعلمون) (حم السجدہ : ٢٦)” اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اس قرآن ک ومت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “ وہ ایک دوسرے کو خاموش رہ کر سننے کی تلقین کر رہے ہیں اور تم ایک دوسرے کو سننے سے روک رہے ہو۔ کم از کم سن تو لو، تاکہ ان کی طرح رحم کا دروازہ تمہارے لئے بھی کھل سکے، صرف تکبر اور غلبے کی ہوس میں نہ پڑے رہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ہوس قوم عاد کی طرح تمہیں بھی برباد کر دے۔- (٣) فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین : جب قرآن کی قرأت پوری ہوچکی تو وہ نہ صرف یہ کہ خود ایمان لے آئے بلکہ اپنی قوم کو بھی کفر کے انجام سے خبردار کرنے کے لئے ان کی طرف واپس پلٹ گئے، کیونکہ ایمان کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے۔ ابوہریرہ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند نصیحتیں فرمائیں، ان میں سے ایک یہ تھی :(واحب للناس ماتحب لنفسک تکن مومنا) (ابن ماجہ، الزھد، باب الورع والتفوی :3218)” لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو ، ممن بن جاؤ گے۔ “- (٤) طبری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ’ و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن “ کے بارے میں فرمایا : ” یہ اہل نصیین میں سے سات (مرد جن) تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی قوم کی طرف پیغام پہنچانے والا بناک ر بھیجا۔ “ (الطبری :31583 ابن کثیر کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔- (٥) جنوں کا یہ گروہ کس موقع پر آیا ؟ اس کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة جن کی شان نزول اور اس کی ابتدائی آیات کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (ان سے) اس وقت کا قصہ ذکر کیجئے) جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے جو (اخیر میں یہاں پہنچ کر) قرآن سننے لگے تھے غرض جب وہ لوگ قرآن (کے پڑھے جانے کے موقع) کے پاس آپہنچے تو (آپس میں) کہنے لگے کہ خاموش رہو (اور اس کلام کو سنو) پھر جب قرآن پڑھا جا چکا (یعنی جتنا اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں پڑھنا تھا ختم ہوچکا) تو وہ لوگ (اس پر ایمان لے آئے اور) اپنی قوم کے پاس (اسکی) خبر پہنچانے کے واسطے واپس گئے (اور جا کر ان سے) کہنے لگے اے بھائیو ہم ایک (عجیب) کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (اور دین) حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے (یہ تو دین اسلام کی حقانیت کا اثبات و اظہار ہے، آگے امر ہے اس کے قبول کرنے کا اول ترغیباً پھر تھیباً یعنی) اے بھائیو تم اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا مانو (مراد داعی سے قرآن یا نبی ذیشان ہیں) اور (کہنا ماننا یہ ہے کہ) اس پر ایمان لے آؤ تم ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو عذاب درد ناک سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کا کہنا مانے گا تو وہ زمین (کے کسی حصہ) میں بھاگ کر خدا کو) ہرا نہیں سکتا (یعنی اس طرح کہ ہاتھ نہ آئے) اور (جیسا وہ خود نہیں بچ سکتا اسی طرح) خدا کے سوا اور کوئی اس کا حامی بھی نہ ہوگا ( کہ وہ اس کو بچا سکے اور) ایسے لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں (کہ بوجود قیام دلائل کے داعی کے حق ہونے پر پھر بھی اس کی اجابت نہ کریں۔- معارف و مسائل - کفار مکہ کو سنانے کے لئے اس سے پہلی آیات میں کفر اور استکبار کی مذمت اور انکا مہلک ہونا بیان ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں اہل مکہ کو عار دلانے کے لئے جنات کے ایمان لانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جناب تو تکبر و غرور میں تم سے بھی زیادہ ہیں مگر قرآن سن کر ان کے دل بھی موم ہوگئے وہ مسلمان ہوگئے تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے جنات سے زیادہ عقل و شعور بخشا ہے مگر اس کے باوجود تم ایمان نہیں لاتے اور واقعہ جنات کے قرآن سننے اور ایمان لانے کا احادیث صحیحہ میں اس طرح آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ کی نبوت و بعثت کے بعد جو جن آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتا تو اس پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کردیا جانے لگا۔- جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کون سا نیا واقعہ دنیا میں ہوا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا۔ جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے، ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہنچا اس روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چند صحابہ کے ساتھ مقام بطن نخلہ میں تشریف فرما تھے اور سوق عکاظ کی طرف جانے کا قصد تھا۔ (عرب کے لوگ تجارتی اور معاشرتی امور کے لئے مختلف مقامات پر خاص خاص ایام میں بازار لگاتے تھے جس پر ہر خطے کے لوگ جمع ہوتے دکانیں لگتیں اور اجتماعات اور جلسے ہوتے تھے جیسے ہمارے زمانے میں اسی طرح کی نمائشیں جا بجا ہوتی ہیں، انہیں میں سے ایک بازار مقام عکاظ میں لگتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالباً دعوت و تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جا رہے تھے) اس مقام بطن نحلہ میں آپ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے کہ وہ جنات یہاں پہنچے، قرآن سن کر کہنے لگے کہ بس وہ نئی بات یہی ہے جو ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حائل ہوئی ہے (رواہ الامام احمد والبخاری و مسلم والترمذی و النسائی و جماعتہ عن ابن عباس)- اور ایک روایت میں ہے کہ وہ جنات جب یہاں آئے تو باہم کہنے لگے کہ خاموش ہو کر قرآن سنو، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اسلام کی حقانیت پر یقین و ایمان لا کر اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور ان کو اس واقعہ کے اصلی سبب کی اور اس کی خبر دی کہ ہم تو مسلمان ہوگئے تم کو بھی چاہئے کہ ایمان لے آؤ، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان جنات کے آنے جانے اور قرآن سن کر ایمان لے آنے کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ سورة جن کا نزول ہوا جس میں آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی۔ (رواہ ابن المنذر عن عبدالمالک)- اور ایک روایت میں ہے کہ یہ جنات مقام نصبین کے رہنے والے تھے اور کل نو یا بعض روایات کے مطابق سات تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کو یہ خبر سنائی اور ایمان لانے کی ترغیب دی تو پھر ان میں سے تین سو اشخاص اسلام لانے کے لئے حاضر خدمت ہوئے (رواہ ابو نعیم والواقدی عن کعب الاحبار والروایات کلہا فی الروح) اور دوسری حدیثوں میں جنات کے آنے کی روایت دوسری طرح کی بھی آئی ہیں مگر چونکہ یہ متعدد واقعات مختلف اوقات میں پیش آئے ہیں اس لئے کوئی تعارض نہیں اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو طبرانی نے اوسط میں اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بار بار حاضر ہوئے۔- خفاجی نے فرمایا کہ احادیث کی روایات جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر استفادہ کرنے کے واقعات چھ مرتبہ پیش آئے ہیں (کذا فی الروح واخذتہ عن بیان القرآن) اسی واقعہ کی تفصیل مذکور الصدر آیات میں بیان کی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا۝ ٠ ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ۝ ٢٩- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- اسمامع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، أي :- يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور .- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔- انصتوا - ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر انصات ( افعال) مصدر جس کے معنی خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سننے کے ہیں۔ یعنی تم سب خاموشی کے ساتھ کان لگا کر سنو ۔ فلما۔ پس جب۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جبکہ نو جنات آپ کی طرف آئے وہ آکر قرآن کریم سننے لگے اور جب وہ بطن نخلہ میں رسول اکرم جہاں قرآن کریم پڑھ رہے تھے پہنچے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خاموش رہو تاکہ رسول اکرم کے قرآن پڑھنے کو سنیں۔ چناچہ جب رسول اکرم اپنی تلاوت اور اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو وہ رسول اکرم اور قرآن پر ایمان لے آئے۔ چناچہ وہ ایمان سے سرفراز ہو کر اپنی قوم کے پاس ان کو ڈرانے والے بن کر پہنچے۔- شان نزول : وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ (الخ)- ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم بطن نخلہ میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے آپ کے پاس نو جن اترے جب انہوں نے قرآن کریم سنا تو وہ آپس میں کہنے لگے خاموش رہو ایک ان میں ذوبقہ تھے اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے، یعنی اور جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جب ہم نے آپ کی طرف متوجہ کردیا جنات کی ایک جماعت کو کہ وہ قرآن سننے لگے۔ “- فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ” تو جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا : چپ ہو جائو “- تلاوتِ قرآن کی سماعت کے بارے میں خود قرآن کا بھی یہی حکم ہے : وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الاعراف) ” اور جب قرآن پڑھا جار ہا ہو تو اسے پوری توجہ کے ساتھ سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طبعاً نیک اور شریف قسم کے ِجنات ّ تھے۔ اگلی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے اہل کتاب جن تھے۔ چناچہ وہ فوراً ہی اللہ کے کلام کو پہچان گئے اور اس کو پورے ادب و احترم سے سننے لگے۔- فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّــوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ ” پھر جب (قراءت) ختم ہوئی تو وہ پلٹے اپنی قوم کی طرف خبردار کرنے والے بن کر۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :33 اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت زبیر ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری ، سعید بن حبیر ، زر بن حبیش ، مجاہد ، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے ، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا ۔ اور ابن اسحاق ، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوئے تھے ۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا ۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا ۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے ، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی ۔ یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا ، یا تو الزیمہ تھا ، یا اسیل الکبیر ، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں ، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات کے لئے بھی پیغمبر بنایا تھا، چنانچہ یہ واقعہ جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے، اس وقت پیش آیا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف والوں کو تبلیغ فرمانے اور ان سے دکھ اٹھانے کے بعد مکہ مکرمہ واپس تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک مقام کا نام نخلہ ہے وہاں آپ نے قیام فرمایا اور فجر کی نماز میں قرآن کریم کی تلاوت شروع کی، اس وقت جنات کی ایک جماعت وہاں سے گزررہی تھی، اس نے یہ کلام سنا تو وہ اسے سننے کے لئے رک گئے، اور توجہ سے سننے کے لئے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی، قرآن کریم کا پُر اثر کلام، اور فجر کے وقت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی، اس نے ان جنات پر ایسا اثر کیا کہ وہ اپنی قوم کے پاس بھی اسلام کے داعی بن کر پہنچے اور پھر ان کے کئی وفود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مختلف اوقات میں آئے، آپ نے ان کی تبلیغ اور تعلیم کا فریضہ انجام دیا، جن راتوں میں جنات سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ہر ایک کو لیلۃ الجن کہا جاتا ہے، اور ان میں سے بعض راتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے، جنات کے اسلام قبول کرنے کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورۂ جن میں آئے گی۔