Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6 ۔ 1 یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا سورة یونس سورة مریم سورة عنکبوت وغیر ھا من الایات دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو غیر ذی روح جمادات و نباتات اور مظاہر قدرت (سورج آگ) ہیں اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعا اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں ہے زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی واللہ اعلم معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء (علیہم السلام) ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں جیسے عیسی، حضرت عزیر (علیہما السلام) اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ تبرأنا الیک ما کانوا ایانا یعبدون۔ القصص۔ ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براءت کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] من دون اللہ سے مراد یہاں بت نہیں بلکہ فوت شدہ بزرگ ہیں :۔ آیت نمبر ٥ اور ٦ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بےجان قسم کے معبود مراد نہیں ہیں۔ کیونکہ بےجان معبود ہی ایسے ہوسکتے ہیں جن کا دشمنی اور دوستی سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ عبادت سے انکار کرسکتے ہیں۔ لامحالہ یہاں جاندار معبود ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ پھر جانداروں میں سے بھی فرشتے خارج از بحث ہیں۔ کیونکہ ان کا حشر نہیں ہوگا۔ باقی صرف جن، نبی، پیر، اولیاء وغیرہ ہی رہ جاتے ہیں۔ جن پر حسد، دشمنی اور عبادت سے انکار سب باتیں چسپاں ہوسکتی ہیں۔ پھر ایسے معبودوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک پیغمبر اور صحیح العقیدہ اولیاء کرام یہ اپنے عابدوں سے کہیں گے کہ کم بختو ہم تو ساری زندگی خود بھی اللہ سے ہی دعا کرتے رہے اور تمہیں بھی یہی تلقین کرتے رہے۔ پھر تم نے کیا الٹی گنگا بہادی کہ ہم کو ہی پکارنا شروع کردیا۔ ان لوگوں کا اپنے عابدوں کا دشمن ہونا صاف واضح ہے۔ دوسرے ایسے معبود ہیں جو خود بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ ان میں خدائی اختیارات تسلیم کریں اور انہیں پکارا کریں۔ ایسے لوگ جب قیامت کے ہولناک مناظر اور شرک کا انجام دیکھیں گے تو صاف مکر جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا۔ اور یہ بات عابدوں کو سخت ناگوار گزرے گی۔ لہذا وہ بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔- خ سماع موتی کی حقیقت :۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا فوت شدہ حضرات دنیا والوں کی پکار سنتے ہیں یا نہیں ؟ جسے عرف عام سماع موتی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ سو اس آیت میں اس بات کی مکمل نفی ہے۔ کہ وہ قیامت تک بھی دنیاوالوں کی پکار نہیں سن سکتے۔ تاہم بعض آیات سے اتنا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے۔ نیز صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ کو امت کا سلام فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی قرآن میں صراحت سے مذکور ہے۔ کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح علیین میں اور بدکاروں کی ارواح سجین میں ہوتی ہیں۔ اور وہاں وہ دنیا والوں کی کوئی آواز براہ راست اور بلاواسطہ سن نہیں سکتے کیونکہ وہ عالم بھی دوسرا ہے۔ - خ اللہ کا فوت شدہ لوگوں کو سنانے کا ضابطہ :۔ اب سنانے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو صرف وہی خبر پہنچائی جاتی ہے جس سے ان کی راحت میں اضافہ ہو۔ جیسے رسول اللہ کو امت کا سلام پہنچایا جاتا ہے۔ یا نیک اولاد کی دعائیں ان کے والدین کو پہنچا دیں جاتی ہیں۔ انہیں کوئی ایسی خبر نہیں پہنچائی جاتی جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ اور بدکاروں کو کوئی راحت انگیز خبر نہیں سنائی جاتی۔ انہیں صرف ایسی خبریں سنائی جاتی ہیں جو ان کے لیے مزید سوہان روح بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے بدر کے کنوئیں میں پھینکے ہوئے مقتول کافروں سے ان کی سرزنش اور زجر و توبیخ کے طور پر خطاب کیا تھا اور اللہ نے وہ بات ان تک پہنچا دی تھی۔ اور صحابہ کے استفسار پر رسول اللہ نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ تم سے کچھ کم نہیں سن رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف روح، عذاب قبر اور سماع موتی )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واذا حشر الناس کانوا لہم اعدآئ…: یعنی قیامت کے دن جب انہیں بتایا جائے گا کہ یہ لوگ تمہیں پکارتے رہے اور تم سے فریاد کرتے رہے تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ یہ ہمیں گے اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تم اور تمہارے شری کبھی ، پھر ہم ان کے دریمان علیحدگی کردیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔ سو اللہ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے کہ بیشک ہم تمہاری عبادت سے یقینا بیخبر تھے۔ “ اور دیکھیے سورة قصص (٦٣) اور سورة نحل (٨٦) مسیح (علیہ السلام) بھی اپنی عبادت کرنے والوں سے اپنے بیخبر ہونے کی صراحت فرما دیں گے۔ (دیکھیے مائدہ : ١١٦ ، ١١٧) اور فرشتے بھی۔ (دیکھیے فرقان : ١٧، ١٨۔ سبا : ٤٠، ٤١) بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی بھی پوجا کی گئی وہ پوجا کرنے اور پکارنے والوں کے شدید مخالف اور دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورة مریم (٨١، ٨٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ كٰفِرِيْنَ۝ ٦- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ ” اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور وہ ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔ “- قیامت کے دن وہ پیغمبر ‘ وہ فرشتے اور وہ اولیاء اللہ جن کو لوگ مدد کے لیے پکارتے ہیں اور ان سے دعا کرتے ہیں ‘ وہ اپنے ان ” عقیدت مندوں “ سے ناراضگی اور دشمنی کا اظہار کریں گے کہ انہوں نے اللہ کے سامنے انہیں شرمسار کیا کہ انہیں اللہ کا مدمقابل ٹھہرایا۔ اس معاملے کی ” حساسیت “ ّکا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایسے الفاظ ادا کیے : مَا شَائَ اللّٰہُ وَمَا شِئْتَ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً انہیں ٹوک دیا اور فرمایا : (اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ ) (١) ” کیا تم نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ “ کیونکہ مشیت تو صرف اور صرف اللہ کے لیے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْقَاف حاشیہ نمبر :7 یعنی وہ صاف صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی یہ کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا ، اور نہ ہمیں یہ خبر کہ یہ لوگ ہماری عبادت کرتے تھے ۔ اپنی اس گمراہی کے یہ خود ذمہ دار ہیں ۔ اس کا خمیازہ ان ہی کو بھگتنا چاہیے ۔ ہمارا اس گناہ میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی جن جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، آخرت میں وہ سب ان مشرکین سے براءۃ ظاہر کرکے یہ کہہ دیں گے کہ یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، یہ بات سورۂ قصص (٦٣: ٢٨) میں بھی گزری ہے، اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مشرکین کئی قسم کے ہوتے ہیں، بعض مشرکین نے کچھ دنیا سے گزرے ہوئے انسانوں کو معبود بنارکھا ہے، ان انسانوں کو بسا اوقات یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کی عبادت کی جارہی ہے، اس لئے وہ انکار کردیں گے، اور جن کو پتہ ہے وہ یہ کہیں گے کہ درحقیقت یہ ہماری نہیں، بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی عبادت کرتے تھے، دوسرے بعض مشرکین وہ ہیں جو فرشتوں کو معبود بنائے ہوئے تھے، ان کے بارے میں سورۂ سبا (٤١، ٤٠: ٣٤) میں گزرا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو جنات اور شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے ہی انہیں بہکایا تھا، مشرکین کی تیسری قسم وہ ہے جو پتھر کے بتوں کو پوجتی ہے، بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کو دکھانے کے لئے ان بتوں کو بھی زبان دے دیں گے اور چونکہ وہ دنیا میں بے جان پتھر تھے اس لئے انہیں واقعی یہ پتہ نہیں ہوگا کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے، اس لئے وہ بھی یہی کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، اور اگر یہ روایت ثابت نہ ہو تو پھر یہ بت زبان حال سے یہ کہیں گے کہ ہم تو بے جان پتھر ہیں ہمیں کیا پتہ کہ ہماری عبادت کی جاتی تھی۔