ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں ، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت وبرباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے ۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے ۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے ۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے ۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا ( یھدیکم اللہ ویصلح بالکم ) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کر دینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے ۔
1۔ 1 بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لئے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔ 1۔ 2 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنادیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلا صلہ رحمی قیدیوں کو آزاد کرنا مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر وثواب مرتب نہیں ہوگا۔
[٢] صدّ کا لغوی مفہوم :۔ صَدَّ کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی اعراض کرنا اور خودرک جانا بھی ہے۔ اور دوسروں کو روکنا بھی۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا۔ پھر کفر کی حمایت میں دوسروں کو اسلام لانے سے روکتے رہے۔ مسلمانوں کو ایذائیں اور دکھ پہنچانے اور اسلام کی اشاعت کو روکنے کے لیے خفیہ تدبیریں اور سازشیں تیار کرتے رہے اور معاندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی یہ سرگرمیاں یہاں بےنتیجہ اور بےاثر ثابت ہوں گی۔ اور وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہیں گے۔ اللہ ان کی کوششوں کو برباد کر دے گا اور کبھی بار آور نہ ہونے دے گا۔
(١) الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ …: چونکہ اس سورت کا اکثر حصہ مشرکین کے خلاف جنگ کے لئے ابھارنے پر مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز کفار پر اپنے غصب اور ایمان والوں پر اپنی رحمت کے اظہار کے ساتھ کیا ہے، تاکہ ان کے کفر اور اللہ کی راہ سے روکنے کے جرم کی بنا پر مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ترغیب دی جاسکے۔ چناچہ اس تمہید کے بعد فرمایا :(فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب) (محمد : ٣)” تو جب تم ان لوگوں سے ملو جنہوں نے کفر کیا تو خوب گردنیں مارنا ہے۔ “- (٢) صدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالھم :” صدوا “ ” صد یصد “ (ن) لازم بھی آتا ہے ” اعراض کرنا “ اس کی بات تو ” الذین کفروا “ میں آگئی، بلکہ کفر اعراض سے زیادہ سخت ہے۔ اس لئے مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کے راستے یعنی اسلام قبول کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع اور برباد کردیے۔ یعنی کافر رہتے ہوئے ان لوگوں نے جو بظاہر اچھے کام کئے تھے، جیسے صدقہ و خیرات ، مہمان نوازی، صلہ رحمی، خانہ کعبہ کی مرمت اور اس کا حج، مظلوم کی مدد وغیرہ، ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ مزید دیکھیے سورة فرقان (٢٣) کی تفسیر۔ کافروں کے اعال برباد کرن کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام اعمال یعنی سازشیں اور منصوبے ناکام کردیئے جو وہ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے کام میں لاتے تھے۔- (٣) صدوا عن سبیل اللہ : اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کسی کو زبردست ی ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لئے ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجائے اور ان کی حالت زار دیکھ کر ایمان لانے کا ارادہ رکھنے والے ایمان لانے کی جرأت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لفظ ” فتنہ “ استعمال فرمایا ہے۔ تیسری یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے اسلام کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ان کے دلوں میں ایسے وسوسے ڈالے کہ وہ دین اسلام سے بدظن ہوجائیں ۔ چوتھی یہ کہ ہر کافر اپنے بچوں اور زیر کفالت لوگوں کی تربیت کفر پر کرتا ہے جس سے ان کے لئے دین حق قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، اس طرح وہ اللہ کے راستی سے روکنے کا مجرم بنتا ہے۔ اللہ کے راستے سے رونے کی ان تمام صورتوں کو ختم کرنے کے لئے کفار سے لڑنے کا حکم دیا۔
خلاصہ تفسیر - جو لوگ ( خود بھی) کافر ہوئے اور (دوسروں کو بھی) اللہ کے راستہ سے روکا (جیسا رؤسائے کفار کی عادت تھی کہ جان و مال سے ہر طرح کی کوشش اسلام کا راستہ روکنے میں کرتے تھے سو) خدا نے ان کے عمل کالعدم کردیئے (یعنی جن کاموں کو وہ نیک سمجھ رہے ہیں بوجہ عدم ایمان کے وہ مقبول نہیں بلکہ ان میں سے بعضے کام اور الٹے موجب عتاب ہیں جیسے اللہ کے راستے پر چلنے سے روکنے میں خرچ کرنا، کما قال تعالیٰ (آیت) فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرة الخ) اور (برخلاف ان کے) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (ان کے ایمان کی کیفیت تفصیلی یہ ہے کہ) وہ اس سب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اور وہ ( جو نازل کیا گیا ہے وہ) ان کے رب کے پاس سے (آیا ہوا) امر واقعی (بھی) ہے (جس کا ماننا ہے بھی ضروری سو) اللہ تعالیٰ ان کے گناہ ان پر سے اتارے گا (یعنی معاف کر دے گا) اور (دونوں جہان میں) ان کی حالت درست رکھے گا (دنیا میں تو اس طرح کہ ان کو اعمال صالحہ کی توفیق بڑھتی جاوے گی اور آخرت میں اس طرح کہ ان کو عذاب سے نجات اور جنت میں داخلہ ملے گا اور) یہ (جو مومنین کی خوشحالی اور کفار کی بدحالی بیان کی گئی) اس وجہ سے ہے کہ کافر تو غلط راستہ پر چلے اور اہل ایمان صحیح راستہ پر چلے جو ان کے رب کی طرف سے (آیا) ہے، (اور غلط راستہ کا موجب ناکامی ہونا اور صحیح راستہ کا سبب کامیابی ہونا ظاہر ہے اس لئے وہ ناکام ہوئے اور یہ کامیاب ہوئے اور اگر اسلام کے صحیح راستہ ہونے میں کوئی شبہ ہو تو من ربہم سے اس کا جواب ہوگیا کہ دلیل اس کی صحیح ہونے کی یہ ہے کہ وہ من جانب اللہ ہے اور من جانب اللہ ہونا تمام معجزات نبویہ سے بالخصوص اعجاز قرآنی سے ثابت ہے اور) اللہ تعالیٰ اسی طرح (جیسے یہ حالت بیان فرمائی) لوگوں کے (نفع و ہدایت کے) لئے ان (مذکورین) کے حالات بیان فرماتا (تاکہ ترغیب و ترہیب کے دونوں طریقوں سے ہدایت کی جائے)- معارف و مسائل - سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا نام سورة قتال بھی ہے کیونکہ جہاد و قتال کے احکام اس میں بیان ہوئے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ہی یہ سورت نازل ہوئی یہاں تک کہ اس کی ایک (آیت) وکاین من قریة کے متعلق حضرت ابن عباس سے یہ منقول ہے کہ وہ مکی آیت ہے کیونکہ اس کا نزول اس وقت ہوا ہے جبکہ آپ ہجرت کی نیت سے مکہ معظمہ سے نکلے اور مکہ مکرمہ کی بستی اور بیت اللہ پر نظر کر کے آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے شہروں میں مجھے تو ہی محبوب ہے اگر اہل مکہ مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں خود اپنے اختیار سے مکہ مکرمہ کو نہ چھوڑتا، اور اصطلاح مفسرین کی مطابق جو آیات سفر ہجرت مدینہ کے دوران میں نازل ہوئی ہیں وہ مکی کہلاتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت مدینہ کے فوراً بعد نازل ہوئی ہے اور یہیں پہنچ کر کفار سے جہاد و قتال کے احکام نازل ہوئے ہیں - (آیت) وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، سبیل اللہ سے مراد اسلام ہے اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ میں ان کفار کے وہ اعمال مراد ہیں جو فی نفسہ نیک کام ہیں جیسے مساکین کی امداد و اعانت، پڑوسی کی حمایت و حفاظت، سخاوت اور صدقہ خیرات وغیرہ کہ یہ اعمال اگرچہ اپنی ذات میں نیک اور اچھے عمل ہیں لیکن آخرت میں ان کا فائدہ ایمان لانے کے ساتھ مشروط ہے کافروں کے ایسے نیک اعمال آخرت میں ان کے کچھ کام نہ آئیں گے البتہ دنیا میں ہی ان کو ان کے نیک کاموں کے بدلے میں راحت و آرام دے دیا جاتا ہے۔
اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ١- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
جن لوگوں نے رسول اکرم اور قرآن کریم کا خود بھی انکار کیا یعنی عتبہ، شیبہ، بنیہ بن حجاج، ابو البختری بن ہشام اور ابو جہل وغیرہ اور دوسروں کو بھی حق تعالیٰ کے دین اور اس کی پیروی سے روکا ان کے تمام اعمال اور خرچے بدر کے دن ضائع کردیے گئے۔
آیت ١ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ” جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا (اور خود بھی رکے) اللہ نے ان کی ساری جدوجہد کو رائیگاں کردیا۔ “- صَدَّ یَـصُدُّ کے بارے میں قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ فعل لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ یعنی اس کے معنی خود رکنے اور باز رہنے کے بھی ہیں اور دوسرے کو روکنے کے بھی۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں اہل ِایمان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اب تک مخالفین حق نے جو جدوجہد بھی کی ہے وہ سب اکارت ہوچکی ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قافلہ عنقریب اپنی منزل مقصود پر خیمہ زن ہونے والا ہے۔
سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :1 1 ۔ یعنی اس تعلیم و ہدایت کو ماننے سے انکار کر دیا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش فرما رہے تھے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :2 2 ۔ اصل میں صَدُّوْا عَنْ سَبِیلِ اللہِ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں ۔ صَدّ عربی زبان میں لازم اور متعدی ، دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اس لیے ان الفاظ کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ خود اللہ کے راستے پر آنے سے باز رہے ، اور یہ بھی کہ انہوں نے دوسروں کو اس راہ پر آنے سے روکا ۔ دوسروں کو خدا کی راہ سے روکنے کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے ۔ دوسری صورت یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کے لیے ایسے خوفناک حالات میں ایمان لانا مشکل ہو جائے ۔ تیسری صورت یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ایسے وسوسے دلوں میں ڈالے جس سے لوگ اس دین سے بدگمان ہو جائیں ۔ اس کے علاوہ ہر کافر اس معنی میں خدا کی راہ سے روکنے والا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کفر کے طریقے پر پرورش کرتا ہے اور پھر اس کی آئندہ نسل کے لیے دین آبائی کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہر کافر معاشرہ خدا کے راستے میں ایک سنگ گراں ہے ، کیونکہ وہ اپنی تعلیم و تربیت سے ، اپنے اجتماعی نظام اور رسم و رواج سے ، اور اپنے تعصبات سے دین حق کے پھیلنے میں شدید رکاوٹیں ڈالتا ہے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :3 3 ۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ ۔ ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ۔ گمراہ کر دیا ۔ ضائع کر دیا ۔ یہ الفاظ بڑے وسیع مفہوم کے حامل ہیں ۔ ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سے یہ توفیق سلب کر لی کہ ان کی کوششیں اور محنتیں صحیح راستے میں صرف ہوں ۔ اب وہ جو کچھ بھی کریں گے غلط مقاصد کے لیے غلط طریقوں ہی سے کریں گے ، اور ان کی تمام سعی و جہد ہدایت کے بجائے ضلالت ہی کی راہ میں صرف ہوگی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کام اپنے نزدیک وہ خیر کے کام سمجھ کر کرتے رہے ہیں ، مثلا خانۂ کعبہ کی نگہبانی ، حاجیوں کی خدمت ، مہمانوں کی ضیافت ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ، اور ایسے ہی دوسرے کام جنہیں عرب میں مذہبی خدمات اور مکارم اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا ۔ اللہ تعالی نے ان سب کو ضائع کر دیا ۔ ان کا کوئی اجر و ثواب ان کو نہ ملے گا ، کیونکہ جب وہ اللہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کا طریقہ اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راہ پر آنے سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو سکتا ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور اپنے کافرانہ مذہب کو عرب میں زندہ رکھنے کے لیے جو کوششیں وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں کر رہے ہیں ، اللہ نے ان کو رائیگاں کر دیا ۔ ان کی ساری تدبیریں اب محض ایک تیر بے ہدف ہیں ۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے مقصد کو ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ۔
1: کافر لوگ جو کوئی اچھے کام دنیا میں کرتے ہیں، جیسے غریبوں کی امداد وغیرہ، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں، لیکن آخرت میں ثواب حاصل کرنے کے لئے ایمان شرط ہے، اس لئے آخرت کے لحاظ سے وہ اعمال اکارت چلے جاتے ہیں۔